Nai Baat:
2025-04-25@08:51:29 GMT

مولانا روحانی بازی، قبلہ مقصود بٹ اور کریم آقا کا بلاوا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

مولانا روحانی بازی، قبلہ مقصود بٹ اور کریم آقا کا بلاوا

 

2017ءمیں مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ میں اور میری شریک حیات عمرہ پر گئے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مفتی عبدالخالق (جامعہ اشرفیہ) سے میری نیاز مندی ہے۔ ان کے ساتھ اسلام آباد گیا ہم دونوں اہل خانہ کے ساتھ تھے۔ وہاں کسی بزرگ سے ملاقات تھی۔ راستے میں حضرت مولانا روحانی بازیؒ کی کرامات اور واقعات کا تذکرہ رہا۔ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہا مگر مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی تب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ مفتی صاحب سے بات چیت رہی اور میں نے ارادہ کیا کہ ان کی مرقد پر ضرور جاو¿ں گا۔ ایک دن میں ارادہ کر کے مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی جو ایک معلم، عالم جامعہ اشرفیہ تھے اور ماہر علم فلکیات بھی تھے۔ جنات بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ میں ان کی قبر پر گیا، فاتحہ پڑھی اور اس کے بعد حضرت مفتی عبدالخالق کو فون کیا کہ میں بہت محتاط رہتا ہوں گو کہ بزرگان دین اور اسلاف کے مزارات پر جاتا رہتا ہوں مگر ایسی رغبت نہیں جیسے میرے سنی مسلک کے باقی لوگوں کو ہے۔
مفتی صاحب دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا حضرت محمد موسیٰ روحانی بازی بھی دیوبند ہی تھے۔ جبکہ میں تو گویا مکتبہ فکر کے حوالے سے کسی کا دعویٰ کرنے جوگا بھی نہ تھا۔ مفتی صاحب سے عرض کیا کہ میں بڑا محتاط رہتا ہوں کہ شرک اور ادب میں باریک سی لکیر ہے کہیں پار نہ ہو جائے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ آپ اللہ سے مانگئے اور کہیے کہ اللہ ان کی وساطت سے میری فلاں فلاں دعا قبول فرما اور مولانا کی روح کو مخاطب کر کے کہئے کہ آپ میری دعا کی اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے کہیں۔ میں نے دو تین چار مرتبہ تصدیق کر کے دہرایا کہ یاد رہے۔ اس وقت میں مولانا صاحب کی قبر سے میانی صاحب سڑک پر اپنی گاڑی کے پاس آ چکا تھا۔
مولانا کی قبر حضرت مولانا احمد لاہوریؒ کی ہمسائیگی میں ہے۔ میں مفتی صاحب سے بات کرتا کرتا واپس آیا اور پھر میں نے اسی طرح دعا کی جس طرح مجھے مفتی صاحب نے تاکید کی اور ساتھ میں یہ منت بھی مان لی۔ جب مولانا کی قبر سے جدا ہوا تو عجیب پچھتاوا شروع ہو گیا کہ میرے آقا کریم کہیں گے میرے نعلین مبارک کی مٹی اور قصویٰ کے پاو¿ں کی مٹی کا بات بات پہ صدقہ مانگنے والے آج کہاں چلا گیا۔ میں بہت دل گرفتہ ہوا۔ کیونکہ آقا کریم کے علاوہ کبھی کوئی نگاہ و نظر میں ہستی رہی ہی نہیں۔ بار بار یہی پچھتاوا کہ آقا کریم کیا کہیں گے۔
مفتی صاحب سے اپنے اضطراب کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ یوں سمجھئے کہ آپ ایک عاشق رسول کی مرقد پر گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بعد کی بات ہے یا تو یہ میرے ذہن میں پہلے آیا ہوتا۔ بہرحال یہ اضطراب مسلسل میرے دل و دماغ پر حاوی رہا۔ اس کا تذکرہ میں نے اپنے مہربان دوست بھائیوں کی طرح عزیز قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ کسٹم اردو بازار لاہور تبلیغی جماعت والوں سے کیا۔ ہم صبح اشراق کے وقت ڈرائی پورٹ کی مسجد میں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب سے روزانہ میری یہی کیفیت رہتی اور بیان کرتا۔ کئی ماہ گزر گئے، ایک دن میں چائے منگوا کر اپنا کمپیوٹر آن کر کے دفتری کام دیکھنے کو بیٹھا کہ چائے پی کر مسجد جاو¿ں گا۔
اسی اثنا میں موبائل پر میسج آیا ”بٹ صاحب آپ کو حضور بلا رہے ہیں“۔ 10 بجے دن کا وقت تھا، میں نے میسج کو بار بار پڑھا۔ پیغام قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب کے فون سے تھا۔ میں نے فوراً ان کو کال کی کہ بٹ صاحب یہ کیا پیغام آپ نے بھیجا ہے؟ اور مجھے بھیجا ہے؟ وہ بولے کہ ہاں آپ کے نام پیغام ہے۔ میں اسی وقت مسجد چلا گیا۔ مسجد میں بٹ صاحب اکیلے بیٹھے تھے، میں پھر سوال دہرایا اور پیغام سنایا۔ ان کی آنکھیں جھکی جھکی اور گلابی رنگ کی ہو رہی تھیں، کہنے لگے، ہاں یہی پیغام ہے۔ میں نے کہا کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے پنجابی میں جواب دیا ”آپ نے فرمایا ہے، اوہنوں میرے کول کہل“ (اس کو میرے پاس بھیجو)۔ ہم دونوں مسجد میں کھڑے تھے، میں نے کہا حضرت صاحب ابھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ قبلہ بٹ صاحب بولے کہ زبیدہ خاتون کا واقعہ سنا ہے ناں۔ میں نے کہا مجھے زبیدہ خاتون کا واقعہ نہ سنائیں، میں خود بات کر لوں گا۔ اللہ اکبر۔۔۔ اندازہ کیجئے کہ میں روسیاہ اور گناہ گار کیا دعویٰ کر رہا تھا۔ قبلہ بٹ صاحب نے پھر پیغام دہرایا اور کہا کہ میں نے پیغام دے دیا۔ دراصل میں جو کہیں اور جا کر پچھتا رہا تھا یہ اس کا جواب تھا، جس کی روزانہ دعا کرتا تھا اور قبلہ بٹ صاحب سے بھی کہتا تھا۔
بہرحال ارادہ کیا کہ 9 ربیع الاول (ستمبر اکتوبر 2017) کو آقا کے روضہ پر سالگرہ کی مبارک باد دوں گا اور 12 ربیع الاول کو وصال کا آل رسول، ازدواج رسول، جناب فاطمة الزہرہ، حسنین کریمین، حضرت علی کرم اللہ وجہہ و صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو پُرسہ دے کر واپس آ جاو¿ں گا۔ مدینے میں 10 دن قیام کے دوران جن لوگوں کے لیے دعائیں کیں، قبول ہوئیں اور اپنے لیے صرف کہا کہ مجھے عطا کر دیں، لہٰذا یہ تحریر (انتساب کی صورت میں آقا کریم کی حیات طیبہ لکھنا اور قصویٰ پر قصیدہ) عطا ہوئی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

پڑھیں:

سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے

(بیتے دنوں کی یادیں)

1997کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اُس وقت جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحِ اوّل تھی۔ اس کے لیے انھوں نے پولیس افسروں کی لسٹیں بنانی شروع کردیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے آتے ہی جب ایس پی لاہور طارق سلیم ڈوگر کو ہٹادیا تو مجھ سے رابطہ کرکے مجھے ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالنے کا کہا۔ میں نے معذرت کی مگر جب انھوں نے اور آئی جی صاحب دونوں نے زور دیا تو میں نے یہ ذمّے داری قبول کرلی۔

لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔جرائم کی روک تھام کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر لڑنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس گیارہ مہینے کے بعد مجھے ہٹادیا گیا۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ مجھے لاہور پولیس کی سربراہی سے ہٹوانے کے لیے کئی فورسز اکٹھی ہوگئی تھیں۔ دو ٹولے سب سے زیادہ سرگرم تھے، پہلا اُن سیاسی لوگوں کا تھا جن کی پولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت بند ہوئی تھی اور جن کے کہنے پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے بند ہوگئے تھے۔

دوسرا ٹولہ کچھ بیوروکریٹوں کا تھا جو اپنی میٹنگوں میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ موجودہ ایس ایس پی (راقم) کچھ دیر مزید رہا تو یہ لاہور میں پولیس کے پرانے اور فرسودہ نظام (جس کی وجہ سے ان کی چودھراہٹ قائم تھی) کی جگہ دہلی اور ڈھاکہ والا جدید میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم لے آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ڈی سی آفس irrelevant یا کمزور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اُن کا نظرّیۂ حیات یہی ہے کہ صدیوں پرانے فرسودہ سسٹم کو تحفّظ دیا جائے تاکہ ہماری چوہدراہٹ قائم رہے۔ کچھ بدنام قسم کے صحافی (جو اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوانے اور پھر ان سے ماہانہ معاوضہ وصول کرنے کے عادی تھے) بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔

بہرحال لاہور کی ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے بعد میں گاؤں آگیا اور کتابوں اور کاشتکاری میں دل لگانے لگا۔ اس دوران گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا کی وجہ سے میری صحت بہت اچھی ہوگئی بلکہ وزن کچھ بڑھ گیا۔ دو ڈھائی مہینے کے بعد ایک روز مجھے پیغام ملا کہ ’’آپ کو وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کل رائیونڈ میں ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔ دوسرے روز میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے دیکھتے ہی شہبازشریف صاحب نے کہا ’’آپ کافی ویٹ گین کرگئے ہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’جی لاہور کی ذمّے داری سے فارغ تھا، کوئی ٹینشن بھی نہیں تھی اور پھر گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا میّسر آئی تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا‘‘۔ ملاقات کے دوران میں نے اُن کے فیصلے پر تنقید کی کہ ’’دنیا بھر میں یہ فارمولا کہیں نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہونے پر قصور نہ بھی ہو تب بھی پولیس افسروں کو ہٹادیا جائے۔ ہر جگہ سنگین ترین واقعے کے بعد بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوتاہی یا قصور کس کا ہے؟ کوتاہی نہ ہونے کے باوجود پولیس چیف کے خلاف کارروائی کرنے سے فورس کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘‘۔

ان کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہوچکا ہے کیونکہ ان کا رویّہ مدافعانہ رہا۔ کچھ دیر بعد چیف منسٹر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے ’’اب آپ کہاں لگنا چاہیں گے؟ آپ کو فیصل آباد لگادیں‘‘؟ میں نے لاہور کے بعد پنجاب میں کوئی اور پوسٹنگ لینے سے معذرت کرلی۔ میں ان سے ملاقات کے بعد کمرے سے نکلا تو پرائم منسٹر نوازشریف صاحب نظر آگئے جو اُسی جانب آرہے تھے۔ اُن سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگے ’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ پنجاب نہ جائیں وہ آپ کو خراب کریں گے۔ اب آپ اسلام آباد آکر پھر اپنی ذمّے داریاں سنبھال لیں‘‘ اتفاق سے ان کے اسٹاف آفیسر رؤف چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، انھیں ہدایات دے دی گئیں اور ایک دو روز بعد میری ایک بار پھر پرائم منسٹر آفس میں تعیّناتی ہوگئی۔

چند روز بعد پی ایم آفس کی نئی بلڈنگ میں پہنچا تو پورچ میں ہی پرانے اسٹاف نے ریسیو کیا، میرا پرانا پی اے/ اسٹینو مجھے اپنے آفس کی طرف لے جاتے ہوئے بتارہا تھا کہ ’’سر! یہ سیف الرحمٰن صاحب کے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی سیل (جنرل مشرّف کے دور میں اسے سیل کی بجائے بیورو بنادیا گیا) کے دفاتر ہیں، اچانک میری نظر ایک تختی پر رک گئی۔

لکھا تھا ’’ فلاں ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں نے اپنے پی اے سے پوچھا کہ اس نام کا ایک افسر تو صوبہ سرحد کا وہ بیوروکریٹ تھا جسے پرائم منسٹر نے چند ماہ پہلے کرپشن کی بناء پر معطّل کیا تھا۔ پی اے کہنے لگا ’’جی سر یہ وہی صاحب ہیں‘‘ اتنے میں سامنے سے سیف الرّحمٰن آتے ہوئے نظر آئے، میں نے ان سے ملتے ہی حیرانی اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ’’سیف صاحب! کل کے چور آج آپ کے ساتھی بن گئے ہیں؟ کرپشن میں معطّل ہونے والے شخص کو آپ نے ڈائریکٹر جنرل لگا لیا ہے لہٰذا اب تو خوب اکاؤنٹیبلیٹی ہوگی!!‘‘ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا، مگر اُس نیم پلیٹ سے بڑا واضح پیغام مل گیا کہ اب احتساب کا سلسلہ بند ہی سمجھا جائے اور اب جو ہوگا وہ کچھ اور ہی ہوگا، احتساب نہیں ہوگا۔

اس کے بعد ہر روز میرے ان خدشات کو تقویّت ملتی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ دو سالوں میں نیچے سے اوپر تک سب کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس دوران صرف ایک بار مجھے مانسہرہ میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں تین افراد کی موت کے سانحے کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا، مگر میرے ساتھ ایک مشکوک شخص کو بھی نتھی کردیا گیا۔ میں اپنی عادت اور تربیّت کے مطابق بازار میں چل پھر کر لوگوں سے حقائق دریافت کرتا رہا مگر وہ صاحب دفتر سے ہی باہر نہ نکلا۔ واپس آکراس صاحب نے حقائق کے برعکس خوشامدانہ سی باتیں کیں، جب کہ میں نے پرائم منسٹر کو صاف صاف بتادیا کہ ’’وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہزارہ کے معاملات، منجھے ہوئے، زیرک اور تجربہ کار وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کو سلجھانے دیے جائیں ، اور پارٹی کے دیگر اہم افراد کی مداخلت بند کرادی جائے‘‘۔

حالات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میری رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، جلد ہی مجھے دفتر کا ماحول اجنبی سا لگنے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ میری اب وہاں کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں رہی۔ ایک بار پرائم منسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا توکہنے لگے ’’آپ ہر روز صبح آٹھ بجے مجھے ملا کریں اور میرے ساتھ ہی پرائم منسٹر آفس جایا کریں (ان دنوں وہ پرائم منسٹر آفس کی نئی اور پرشکوہ بلڈنگ میں بیٹھنے لگے تھے) تاکہ راستے میں کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کے ایشوز discuss ہوجائیں‘‘ ایک دو بار میں ساتھ گیا مگر حکومت کی ترجیحات بدل چکی تھیں لہٰذا مجھے اب وہاں اپنی افادیّت نظر نہیں آتی تھی۔

ایک روز کوریڈور میں شاہد خاقان عباسی صاحب (جو ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین تھے) سے ملاقات ہوگئی، وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’آپ کے لیے پی آئی اے میں آنے کی پیشکش برقرار ہے‘‘ دراصل چند ماہ پہلے وہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس لاہور آئے تھے اور وہاں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی آئی اے میں بھی ’’صفائی‘‘کے لیے آپ کی ضرورت ہے، آپ کچھ دیر کے لیے آجائیں تو بڑا اچھا ہوگا‘‘۔ میں نے اُس وقت تو یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’’اِس وقت لاہور پولیس کو کمانڈ کررہا ہوں، امن وامان اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔

ان حالات میں تو حکومت مجھے بالکل spare نہیں کرے گی‘‘ مگر اب میں پی آئی اے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر تیّار تھا، میں نے فوراً حامی بھرلی۔ شام کو اُن سے ملاقات ہوئی، اور اگلے روز ان کی طرف سے پرائم منسٹر کو کو خط لکھ دیا گیا کہ آپ کے اسٹاف افسر کی خدمات پی آئی اے کے لیے درکار ہیں، کچھ عرصہ پہلے نوازشریف صاحب مجھے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے کہنے کے باوجود ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے مگر اب انھوں نے مجھے روکے بغیر فوراً ریلیو کردیا۔  (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر قومی اسمبلی کی پارلیمانی وفد کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی
  • پہلگام حملہ جھوٹ کا پلندہ، مودی حکومت کی چال ہے: عبدالخبیر آزاد  
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • حج ایک مقدس فریضہ ہے جسکے لئے بلاوا بھی اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے،چیئرمین سی ڈی اے
  • وزارت خارجہ علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے اقدامات کرے، علامہ مقصود ڈومکی
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • غیر قانونی کینالز منظور نہیں، سندھو دریا و حقوق کا دفاع کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال کی حمایت کا اعلان