مولانا روحانی بازی، قبلہ مقصود بٹ اور کریم آقا کا بلاوا
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
2017ءمیں مجھے سعادت نصیب ہوئی۔ میں اور میری شریک حیات عمرہ پر گئے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مفتی عبدالخالق (جامعہ اشرفیہ) سے میری نیاز مندی ہے۔ ان کے ساتھ اسلام آباد گیا ہم دونوں اہل خانہ کے ساتھ تھے۔ وہاں کسی بزرگ سے ملاقات تھی۔ راستے میں حضرت مولانا روحانی بازیؒ کی کرامات اور واقعات کا تذکرہ رہا۔ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہا مگر مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی تب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ مفتی صاحب سے بات چیت رہی اور میں نے ارادہ کیا کہ ان کی مرقد پر ضرور جاو¿ں گا۔ ایک دن میں ارادہ کر کے مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی جو ایک معلم، عالم جامعہ اشرفیہ تھے اور ماہر علم فلکیات بھی تھے۔ جنات بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ میں ان کی قبر پر گیا، فاتحہ پڑھی اور اس کے بعد حضرت مفتی عبدالخالق کو فون کیا کہ میں بہت محتاط رہتا ہوں گو کہ بزرگان دین اور اسلاف کے مزارات پر جاتا رہتا ہوں مگر ایسی رغبت نہیں جیسے میرے سنی مسلک کے باقی لوگوں کو ہے۔
مفتی صاحب دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا حضرت محمد موسیٰ روحانی بازی بھی دیوبند ہی تھے۔ جبکہ میں تو گویا مکتبہ فکر کے حوالے سے کسی کا دعویٰ کرنے جوگا بھی نہ تھا۔ مفتی صاحب سے عرض کیا کہ میں بڑا محتاط رہتا ہوں کہ شرک اور ادب میں باریک سی لکیر ہے کہیں پار نہ ہو جائے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ آپ اللہ سے مانگئے اور کہیے کہ اللہ ان کی وساطت سے میری فلاں فلاں دعا قبول فرما اور مولانا کی روح کو مخاطب کر کے کہئے کہ آپ میری دعا کی اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے کہیں۔ میں نے دو تین چار مرتبہ تصدیق کر کے دہرایا کہ یاد رہے۔ اس وقت میں مولانا صاحب کی قبر سے میانی صاحب سڑک پر اپنی گاڑی کے پاس آ چکا تھا۔
مولانا کی قبر حضرت مولانا احمد لاہوریؒ کی ہمسائیگی میں ہے۔ میں مفتی صاحب سے بات کرتا کرتا واپس آیا اور پھر میں نے اسی طرح دعا کی جس طرح مجھے مفتی صاحب نے تاکید کی اور ساتھ میں یہ منت بھی مان لی۔ جب مولانا کی قبر سے جدا ہوا تو عجیب پچھتاوا شروع ہو گیا کہ میرے آقا کریم کہیں گے میرے نعلین مبارک کی مٹی اور قصویٰ کے پاو¿ں کی مٹی کا بات بات پہ صدقہ مانگنے والے آج کہاں چلا گیا۔ میں بہت دل گرفتہ ہوا۔ کیونکہ آقا کریم کے علاوہ کبھی کوئی نگاہ و نظر میں ہستی رہی ہی نہیں۔ بار بار یہی پچھتاوا کہ آقا کریم کیا کہیں گے۔
مفتی صاحب سے اپنے اضطراب کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ یوں سمجھئے کہ آپ ایک عاشق رسول کی مرقد پر گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بعد کی بات ہے یا تو یہ میرے ذہن میں پہلے آیا ہوتا۔ بہرحال یہ اضطراب مسلسل میرے دل و دماغ پر حاوی رہا۔ اس کا تذکرہ میں نے اپنے مہربان دوست بھائیوں کی طرح عزیز قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب سپرنٹنڈنٹ کسٹم اردو بازار لاہور تبلیغی جماعت والوں سے کیا۔ ہم صبح اشراق کے وقت ڈرائی پورٹ کی مسجد میں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب سے روزانہ میری یہی کیفیت رہتی اور بیان کرتا۔ کئی ماہ گزر گئے، ایک دن میں چائے منگوا کر اپنا کمپیوٹر آن کر کے دفتری کام دیکھنے کو بیٹھا کہ چائے پی کر مسجد جاو¿ں گا۔
اسی اثنا میں موبائل پر میسج آیا ”بٹ صاحب آپ کو حضور بلا رہے ہیں“۔ 10 بجے دن کا وقت تھا، میں نے میسج کو بار بار پڑھا۔ پیغام قبلہ مقصود احمد بٹ صاحب کے فون سے تھا۔ میں نے فوراً ان کو کال کی کہ بٹ صاحب یہ کیا پیغام آپ نے بھیجا ہے؟ اور مجھے بھیجا ہے؟ وہ بولے کہ ہاں آپ کے نام پیغام ہے۔ میں اسی وقت مسجد چلا گیا۔ مسجد میں بٹ صاحب اکیلے بیٹھے تھے، میں پھر سوال دہرایا اور پیغام سنایا۔ ان کی آنکھیں جھکی جھکی اور گلابی رنگ کی ہو رہی تھیں، کہنے لگے، ہاں یہی پیغام ہے۔ میں نے کہا کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے پنجابی میں جواب دیا ”آپ نے فرمایا ہے، اوہنوں میرے کول کہل“ (اس کو میرے پاس بھیجو)۔ ہم دونوں مسجد میں کھڑے تھے، میں نے کہا حضرت صاحب ابھی کچھ مجبوریاں ہیں۔ قبلہ بٹ صاحب بولے کہ زبیدہ خاتون کا واقعہ سنا ہے ناں۔ میں نے کہا مجھے زبیدہ خاتون کا واقعہ نہ سنائیں، میں خود بات کر لوں گا۔ اللہ اکبر۔۔۔ اندازہ کیجئے کہ میں روسیاہ اور گناہ گار کیا دعویٰ کر رہا تھا۔ قبلہ بٹ صاحب نے پھر پیغام دہرایا اور کہا کہ میں نے پیغام دے دیا۔ دراصل میں جو کہیں اور جا کر پچھتا رہا تھا یہ اس کا جواب تھا، جس کی روزانہ دعا کرتا تھا اور قبلہ بٹ صاحب سے بھی کہتا تھا۔
بہرحال ارادہ کیا کہ 9 ربیع الاول (ستمبر اکتوبر 2017) کو آقا کے روضہ پر سالگرہ کی مبارک باد دوں گا اور 12 ربیع الاول کو وصال کا آل رسول، ازدواج رسول، جناب فاطمة الزہرہ، حسنین کریمین، حضرت علی کرم اللہ وجہہ و صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو پُرسہ دے کر واپس آ جاو¿ں گا۔ مدینے میں 10 دن قیام کے دوران جن لوگوں کے لیے دعائیں کیں، قبول ہوئیں اور اپنے لیے صرف کہا کہ مجھے عطا کر دیں، لہٰذا یہ تحریر (انتساب کی صورت میں آقا کریم کی حیات طیبہ لکھنا اور قصویٰ پر قصیدہ) عطا ہوئی۔
ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔
گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔
گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟" انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔
تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔
معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔