کراچی (نوائے وقت رپورٹ) وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے 6 چینی شہریوں کی جانب سے پولیس ہراسانی اور ان کی نقل وحرکت پر پابندی کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام پروٹوکول کے خلاف ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ سندھ پولیس کی جانب سے گزشتہ 6 سے 7 ماہ کے دوران متعدد بار ہراساں کیا گیا، جس میں سندھ میں چینی شہریوں کی نقل و حرکت کو غیر منصفانہ طور پر محدود کرنا بھی شامل ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے گزشتہ ہفتے اس معاملے پر وزارت خارجہ اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے جبکہ سندھ حکومت نے ہفتے کے روز الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا  کہ غیر ملکی شہریوں کو فارن ایکٹ پر عمل کرنا چاہیے اور چینی شہریوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا، چینی شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست قانونی طور پر درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی شہریوں کو اپنے قونصل جنرل یا دفتر خارجہ کے ذریعے اس معاملے پر رابطہ کرنا چاہیے تھا جبکہ درخواست گزار نجی حیثیت میں پاکستان میں موجود ہیں اور ملک میں ان کی کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہم چینی شہریوں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کرتے ہیں، تاہم جب کوئی ایس او پیز پر عمل نہیں کرتا تو صورتحال بگڑ جاتی ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس معاملے پر پولیس حکام کی چینی قونصل جنرل سے ملاقات ہوئی  جبکہ میں بھی ان سے ملاقات کروں گا تاکہ کوئی پالیسی بیان جاری کیا جائے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) سپیشل پروٹیکشن یونٹ (ایس پی یو) ڈاکٹر محمد فاروق احمد نے بتایا کہ گزشتہ سال 6 اکتوبر کو کراچی ایئرپورٹ پر چینی شہریوں پر حملے کے بعد سے ایئرپورٹ پہنچنے والے غیر ملکیوں کو ایس او پیز کے مطابق ان کی منزل، رہائش گاہوں اور منصوبوں پر لے جایا گیا۔ ایک ہفتے کے دوران 5 پروازیں کراچی ایئرپورٹ پر اترتی ہیں جن میں 20 یا 60 چینی شہری شامل ہوتے ہیں اور ایس او پیز کے مطابق انہیں ایک ساتھ ان کی منزل تک نہیں لے جایا جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی شہریوں کو 3 سے 4 گھنٹے کے وقفے کے بعد بلٹ پروف گاڑیوں میں پولیس سکواڈ اور جیمرز کے ساتھ لے جایا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: چینی شہریوں کی شہریوں کو نے کہا

پڑھیں:

لاہور ہائیکورٹ، زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کیخلاف درخواست پر پولیس و دیگر فریقین سے جواب طلب

لاہور ہائیکورٹ نے زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کے خلاف درخواست پر پولیس اور دیگر فریقین سے تحریری جواب طلب کرلیا ہے۔

جمعے کے روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے ایڈووکیٹ وشال شاکر کی دائر درخواست پر سماعت کی،عدالتی حکم پر پولیس افسران و دیگر متعلقہ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: چنگ چی رکشہ بنانے والی کمپنیوں کو بند کیا جانا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ

دوران سماعت جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کے قانون میں بھی واضح طور پر درج ہے کہ انکوائری اور تفتیش کی تفصیلات پبلک نہیں کی جا سکتیں۔

فاضل جج نے قصور واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایس ایچ او کے ملوث ہونے کی اطلاعات آئیں۔ عدالت نے ہدایت کی کہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے اور کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے تاکہ ملزمان کو محفوظ راستہ نہ مل سکے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے سوال اٹھایا کہ کیا زیرِ حراست ملزمان کی ویڈیو بنا کر ان کی تشہیر کرنا ضروری ہے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ عوام میں آگاہی پھیلانے کے لیے یہ اقدام اٹھایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی نگرانی کا فیصلہ

عدالت نے واضح کیا کہ صرف اشتہاری ملزمان کی تصاویر شائع کی جائیں، اور کسی بھی ویڈیو سے شہریوں کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے، اگر کسی اشارے پر کسی شہری کی تضحیک ہوئی تو اس علاقے کا ایس پی ذمہ دار ہوگا۔

سی ٹی او لاہور نے مؤقف اپنایا کہ جو لوگ ہماری ویڈیوز بناتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ قانون موجود ہے، آپ ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔

سی ٹی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سرکاری اہلکار و افسران کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے عمر قید کے مجرم کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا

 جسٹس علی ضیا باجوہ  نے ریمارکس دیے کہ ٹریفک اہلکاروں  کے چالان کی رقم ان کے تنخواہ سے کاٹی جانی چاہیے، ہر وہ قدم جس سے پالیسنگ بہتر ہو وہ سوشل میڈیا پر ہونی چاہیے، آپ عدالت کی معاونت کریں کہ میڈیا پر ملزم کو ایکسپوز کرنے سے فئیر ٹرائل کیسے متاثر ہوتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مؤقف پیش کیا کہ پولیس کی طرف سے اب ایک عادت بن گئی ہے سب سے پہلے میڈیا والوں کو بلا کر انٹرویو کرواتے ہیں، جب کیس عدالت میں آتا ہے تو پراسیکیوشن کا کیس کچھ اور ہوتا ہے، انٹرویو کچھ اور ہوتا ہے۔

جسٹس علی ضیا باجوہ  نے ریمارکس دیے کہ میڈیا، پولیس، پراسکیوٹر جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل سب یہاں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ غلط ہے،ایڈوکیٹ میاں علی حیدر نے مؤقف اپنایا کہ اس سے پیسے، ڈالر کمائے جاتے ہیں، اس لیے ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملزمان کا گواہوں کے بیانات پر جرح کا حق ختم نہیں کیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ انسانی جبلت ہے ہر انسان مشہور ہونا چاہتا ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news انٹرویوز جسٹس علی ضیا باجوہ لاہور ہائیکورٹ ملزمان

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • چینی صدر کی صدارت میں موجودہ معاشی صورتحال اور معاشی امور پر اجلاس
  • لاہور ہائیکورٹ، زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز کیخلاف درخواست پر پولیس و دیگر فریقین سے جواب طلب
  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • چین اور کینیا کو بیلٹ اینڈ روڈ تعاون میں رہنما کردار ادا کرنا چاہئے، چینی صدر
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا بھارتی آبی دہشتگردی ہے، شیخ رشید
  • سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا آبی جنگ کے مترادف ہے، اویس لغاری
  • لاہور: ڈاکوؤں کا شہریوں سے لوٹ مار کا نیا طریقہ واردات
  • روس کے ڈرون طیارے بنانے کے کارخانے میں چینی شہری کام کر رہے ہیں. زیلنسکی کا الزام
  • اسلام آباد: غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کیخلاف کریک ڈاؤن