9 مئی، 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات بند کیے، عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
فوٹو: اسکرین گریب
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ جو چیزیں ہوئیں مولانا فضل الرحمان کو بتائیں، 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات بند کیے۔
اسلام آباد میں جے یو آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی فلاح و بہبود اور فروغ کےلیے یہاں پر آئے ہیں، حکومت کے ساتھ جو چیزیں ہوئیں مولانا فضل الرحمان کو بتائیں۔
انکا کہنا تھا کہ مسلط کی گئی حکومت بانی پی ٹی آئی سے علیحدگی میں ملاقات بھی نہ کرواسکی۔ ہم نے کہا کہ ہماری بانی پی ٹی آئی کے ساتھ بغیرمانیٹرنگ ملاقات کروائیں، نجانے کہاں سے انہوں نے اجازت لینی تھی کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرسکے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے علیحٰدہ ہونے کی پس پردہ کہانی سامنے آگئی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی پس پردہ اعلیٰ سطح ملاقات میں بیرسٹر گوہر خان شامل تھے۔
عمر ایوب نے کہا کہ جب تک الیکشن میں مداخلت ختم نہ ہو کچھ بھی کرلیں نتیجہ نہیں نکلے گا۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے آج تفصیلی گفتگو ہوئی، الیکشن کمیشن ممبران کے انتخاب پر مشاورت ہوئی۔
انکا کہنا تھا کہ پیکا اور پاکستان ڈیجیٹل ایکٹ کے خلاف پی ٹی آئی نے ووٹ دیا، سکندر سلطان راجا کے منفی کردار کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کرنے کا پورا پلان تھا۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی نے ملاقات کا ہمارا مطالبہ مشترکہ اعلامیہ میں بھی شامل کیا۔
غلط فہمی سے بچنے کیلئے دونوں جماعتوں کے درمیان میکینزم بنایا ہے، سینیٹر کامران مرتضیٰاس موقع پر جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی-ف) کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے خود وفد کو خوش آمدید کہا۔پی ٹی آئی نے حکومت سے جاری مذاکرات سے مولانا فضل الرحمان کو آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور دو ارکان کے تقرر پر بات کی ہے، مداخلت کی وجہ سے الیکشن کمیشن میں فخرالدین ابراہیم بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔
انکا کہنا تھا کہ کسی بھی غلط فہمی سے بچنے کےلیے دونوں جماعتوں کے درمیان ایک میکینزم بنایا ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اداروں میں خرابیاں ہیں، مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔ دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جس میں اسد قیصر اور میں ہوں، پی ٹی آئی نے اپوزیشن کو مل کر چلنے کا کہا ہے۔
جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو سزا کی مذمت کرچکے ہیں۔
مولانا نے ہماری بات سنی، آگے بڑھنے کے بہت امکانات ہیں، سلمان اکرم راجہاس دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آواز بلند کرنے کا کوئی آئینی حق نہیں دیا جارہا، اکٹھے کھڑے ہونے پر بھی مقدمہ بنایا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ آئین کو بچانا ہے، سب سے مشاورت کر رہے ہیں، صحافی برادری اس وقت ایک مجرم بنا دی گئی ہے، ہم نے ماہ رنگ بلوچ سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مولانا سے استدعا کی آئین کے تحفظ کےلیے ہر جمہوریت پسند کو اکٹھا چلنا پڑے گا، جو ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں ان کو اب اکٹھے بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مولانا نے توجہ سے ہماری بات سنی، آگے بڑھنے کے بہت امکانات ہیں، مزید نشست کریں گے اور ایک لائحہ عمل مرتب کریں گے۔ ماہ رنگ بلوچ سے ملاقات ہوگی پوری قوم ہمارا ساتھ دے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: حکومت کے ساتھ مذاکرات مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی نے کہا کہ عمر ایوب
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی