مصنوعی ذہانت پر مبنی چینی چیٹ بوٹ نے بڑی امریکی کمپنیوں کا بھٹا بٹھا دیا، ایک کھرب ڈالرز کا نقصان WhatsAppFacebookTwitter 0 28 January, 2025 سب نیوز

نیویارک (آئی پی ایس )مصنوعی ذہانت پر مبنی چینی چیٹ بوٹ ڈیپ سِیک نے بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کا بھٹا بٹھا دیا جس سے امریکی کمپنیوں کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔ڈیپ سِیک امریکا، برطانیہ اور چین میں ایپل کے ایپ اسٹور پر چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ کر ٹاپ ٹرینڈ کرنے والی مفت ایپلیکیشن بھی بن گئی۔برطانوی میڈیا کے مطابق ڈیپ سیک بظاہر امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی کی طرح ہی کارکردگی دکھاتی ہے تاہم یہ چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں بہت کم وسائل کا استعمال کرتی ہے۔

ڈیپ سِیک کی اس صلاحیت کے باعث سرمایہ کاروں کا مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والی بڑی امریکی کمپنیوں پر اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ڈیپ سِیک کی مقبولیت کے بعد گزشتہ روز مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے لیے کمپیوٹر چپس تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی اینویڈیا کے شیئرز کی قیمت میں 17 فیصد کمی ہوئی جس سے کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 600 ارب ڈالر کم ہوگئی، گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کو 100 ارب ڈالرز جبکہ مائیکروسافٹ کو 7 ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

اینویڈیا کو ہونے والا نقصان امریکی اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ میں کسی کمپنی کو ہونے والا سب سے بڑا نقصان قرار دیا جارہا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ڈیپ سِیک کو امریکی صنعتوں کے لیے ایک انتباہ سمجھنا چاہیے۔ٹرمپ نے کہا کہ وہ چین اور اس کی کمپنیوں کے بارے میں پڑھ رہے ہیں، خاص طور پر ایک ایسی کمپنی کے بارے میں جس نے مصنوعی ذہانت کے لیے ایک تیز تر اور کم خرچ طریقہ ایجاد کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا یہ اچھا ہے کیونکہ اس طرح زیادہ رقم خرچ نہیں کرنی پڑے گی، انہوں نے کہا کہ وہ اسے مثبت طور پر دیکھتے ہیں اور ایک اثاثہ سمجھتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت پر کی کمپنیوں کا نقصان ڈیپ س یک

پڑھیں:

امارات کے پاکستانی سفیر کو کھلا خط

2025 ء تک، دنیا بھر میں تقریبا 95 لاکھ سے زیادہ پاکستانی اپنے ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی یہ ایک ریکارڈ تعداد ہےجو غیر ممالک میں تعلیم یا روزگار وغیرہ کے سلسلے میں مقیم ہے۔ سعودی عرب میں 26 لاکھ اور متحدہ عرب امارات میں 17 لاکھ پاکستانی ہیں جو زیادہ تر تعمیراتی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تعداد میں ڈاکٹرز، انجنیئرز، طلبا، اساتذہ، ماہرین تعلیم اور ہنرمند و مزدور وغیرہ بھی شامل ہیں۔گزشتہ 6 سالوں میں 28لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرون ملک ہجرت کر گئے جبکہ ملک میں 37فیصد افراد ایسے ہیں جو بیرون ملک جانےکےخواہشمند ہیں، جن میں اکثریت پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہے۔ ایک طرف کم پڑھےلکھےافراد غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جانیں گنواتے ہیں، تو دوسری جانب قانونی طور پرملک سے نکلنے کا رجحان بھی تیزی سےبڑھ رہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 1971ء سے 2025 ء تک 70 لاکھ سےزائدپاکستانیوں نے ملک چھوڑا،جن میں ڈھائی لاکھ اعلی تعلیم یافتہ،ساڑھے 4لاکھ انتہائی ہنرمنداور 53لاکھ پیشہ ور ہنرمند شامل تھے۔ مراعات یافتہ ہونے کے باوجود 36فیصد نوجوانوں نے بیرون ملک جانے کو ترجیح دی۔ موجودہ صورتحال کے مطابق 37فیصد پاکستانی بیرون ملک جا کر بسنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یوں شماریات کے مطابق 30 فیصد نوجوان سعودی عرب، 20فیصد دبئی، 9فیصد برطانیہ، 8فیصد کینیڈا اور امریکہ، جبکہ 5فیصد یورپ جانے کے خواہشمند ہیں۔
خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کےلئےجو زہین پاکستانی طلبا باہر کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں جاتے ہیں اور وہ وطن واپس پلٹنے کی بجائے روزگار وغیرہ کے سلسلے میں مستقل طور پر بیرون ملک قیام کرتے ہیں، اس سے پاکستان ان کی ذہانت سے محروم ہو جاتا ہے۔ پاکستانی ذہین طلبا کو متوجہ کرنے کے لیے امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، کنیڈا اور برطانیہ وغیرہ وظائف اور مفت تعلیم کا پرکشش احتمام کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں کرپشن اور امن و امان کا مسئلہ ہے، معیار زندگی بھی اتنااچھا نہیں ہے، پاکستانی عوام کو دہشت گردی کا بھی سامنا رہتا ہے اورسب سے بڑھ کاجینئس طلبا اپنی تعلیمی ڈگریوں کے مطابق جب نوکریاں اور اچھے سیلری پیکیجز لینے سے محروم رہتے ہیں تو وہ بیرون ملک کی شہریت لینے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ رجحان پاکستان سے باہر ذہانت کے اخراج (Brain Drain) کا باعث بنتا ہے۔ اس میں کچھ انتہائی غیرمعمولی ذہانت کے حامل افراد بھی شامل ہوتے ہیں، جس کی ایک بڑی مثال محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جو پاکستان میں آ کر’’ایٹم بم‘‘ کی تخلیق کرنے سے پہلے ہالینڈ میں مقیم تھے۔
ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرنےوالےایسےتمام افراد جن کو ’’سمندر پار پاکستانی‘‘ کہا جاتا ہے، ان کی مہارت اور ذہانت کے اخراج کو روکنے کے دو ہی طریقے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ ایسے نابغہ روزگار افراد کو پرکشش مراعات دے کر واپس پاکستان لایا جائے اور یا پھر وہ باہر کے ممالک میں بھی مقیم رہیں تو انہیں ایک ایسا ’’پلیٹ فارم‘‘ فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائےکہ ان اوورسیز پاکستانیوں کی صلاحیتوں، فن اور ذہانت کو یکجا کر کے اس سے مستفید ہواجاسکے۔ اس کی کچھ عمدہ مثالیں پاکستان کے بڑے شہروں مثلا لاہور، اسلام آباد اور کراچی وغیرہ میں قائم ’’آرٹ کونسل‘‘ کے ادارےہیں یااس کی ایک اور اعلی مثال لاہور کا ’’پاک ٹی ہائوس‘‘ ہے، جہاں بڑے بڑے نامور ادیب، دانشور اور شعرا وغیرہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ماضی میں پاک ٹی ہاس جو پہلی بار 1940 کو قائم ہوا اسے’’انڈیا ٹی ہائوس‘‘ کہا جاتا تھا لیکن پھر 1950 کے اوائل میں اس کا نام تبدیل کر کے پاک ٹی ہاوس کر دیاگیا اور اس وقت سے لے کر اب تک یہ پاک ٹی ہاوس کے نام سے ہی معروف ہے جس نے فیض احمد فیض، اے حمید، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور انتظارحسین جیسے بڑے ناموں کو جنم دیا۔
دنیا کے تمام ممالک میں سمندر پار پاکستانیوں کے تعلیمی اور علمی معاملات اور مسائل یا ان کی ذہنی صلاحیتوں کو مجتمع کرنے اور فروغ دینے کا فریضہ اس ملک میں قائم پاکستانی سفارت خانے انجام دیتے ہیں۔ اس کا میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ 2001 ء میں انگلینڈ سے شائع ہونے والی میری انگریزی کی کتاب “منفی قوت کا استعمال” (Use of Negative Force) کو لندن میں پاکستانی سفارت خانہ نے سپانسر اور شائع کیا۔ اس وقت دنیا بھر میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ 17لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ دبئی ایک “میٹروپولیٹن سٹی” ہے جہاں روزانہ درجنوں کاروباری اور تعلیمی پروگرامز منعقد ہوتے ہیں لیکن پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیئے پورے متحدہ عرب امارات میں کوئی ایسا علمی پلیٹ فارم یا ادارہ موجود نہیں ہے جہاں عام سمندرپار پاکستانیوں اور ایسے ذہین افراد کو اکٹھا کیاجاسکےجو وہاں جمع ہو کر پاکستانی ثقافت، زبان و ادب، ملکی مسائل اور ان کے حل پر بات کر سکیں یا وہاں جمع ہو کر مختلف علمی موضوعات پر بحث و مباحثہ، سیمینارز اور کانفرنسز وغیرہ کا انعقاد کر سکیں، جبکہ پاکستان کےمقابلےمیں انڈیاکے کئی ایسے غیر منافع بخش ادارے اور ذہنی تنظیمیں (intellectual Organizations) عجمان، شارجہ اور دبئی میں موجود ہیں جو انہی خطوط پر کام کر رہی ہیں۔
اگرچہ دبئی میں “پاکستان ایسوسی ایشن دبئی” (PAD) اور شارجہ میں پاکستان سوشل سنٹر شارجہ (PSCS) موجود ہیں، لیکن ان کے کام کی نوعیت مختلف ہےجو زیادہ تر صرف سوشل تقاریب منعقدکرتے ہیں اور ان کا دانش اور علمی آگاہی کے فروغ (Development of Wisdom and Educational Awareness) سےکوئی لینادینانہیں ہے۔وہاں تعلیمی علمااور دانشوروں کی کوئی ایسی ٹیم نہیں ہےجوحکومت یاپاکستانی سفارت خانہ کو مختلف موضوعات پرخاکہ جات،سمریاں یافزیبلٹی رپورٹس وغیرہ تیارکرکےدےسکے،حالانکہ پاکستان جیسے ترقی پذیرملک کوایسے نابغہ اورجینئس افراد کی اشد ضرورت ہےجو ارباب اختیار کی ہر میدان میں ترقی کے لیے رہنمائی کر سکیں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں میں ذہانت کا ہرگز فقدان نہیں ہے۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں اعلی پائے کے شعرا، ادیب اور محققین موجود مگر ان کے پاس نہ کوئی پلیٹ فارم ہے اور نہ انہیں کوئی آرگنائز کرنے والی ایسی شخصیت ہے کہ ایسے معتبر اور قیمتی پاکستانیوں کی ذہانت سے ملک و قوم کے لیئے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ میں ان سطور کے ذریعے امارات میں تعینات پاکستانی سفیرسے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کہ وہ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے خصوصی طور پر غورکریں اور ایک ایسا رفاعی اور غیر منافع بخش ادارہ قائم کرنے کے لیے سرکاری کھاتے سے فنڈز فراہم کریں جس سے اس تجویز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ذہانت و مہارت سے استفادہ کرنے کا یہ ایک انتہائی مستحسن قدم ہو گا!
اس منصوبے کو کوئی بھی مناسب اور معقول نام دیا جا سکتا ہے جیسا کہ’’پاکستان سمندر پار تھنک ٹینک‘‘یا’’ پاک وزڈم ہائوس‘‘ (PAK WISDOM HOUSE) وغیرہ۔ بہرکیف نام میں کیا رکھا ہے۔ محترم سفیر پاکستان ایک علم دوست شخصیت ہیں اور امید ہے کہ وہ اس تجویز کو ضرور اہمیت دیں گے۔ ساری اہمیت نیت اور کام کی ہے۔ یہ اقدام ایک ایسی بنیاد ہو گی جو سمندر پار پاکستانیوں کے ’’ٹیلنٹ‘‘ کو استعمال کر کے پاکستان کے لیئے کسی بھی تعلیمی، مذہبی اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہونے میں اہم کردار ادا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امارات کے پاکستانی سفیر کو کھلا خط
  • اسپیس ایکس نے امریکی خلائی فوج کے لیے جدید جی پی ایس سیٹلائٹ کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیج دی
  • چینی کمپنی کا انوکھا کارنامہ: گاڑیاں بیچنے والا روبوٹ ’’مورنائن‘‘ متعارف
  • پاکستان کو بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی تعلقات استوار کرنے ہونگے: علی جہانگیر صدیقی
  • غیرملکی طلباء کے ویزہ منسوخ کرنے سے امریکہ خود کو نقصان پہنچا رہا ہے،چینی میڈیا
  • ٹرمپ انتظامیہ کا چین کے طلبہ کے ویزے جارحانہ انداز میں منسوخ کرنے کا اعلان
  • امریکا کا چینی طلبا کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان
  • مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے چین کی  چار نکاتی تجاویز
  • امریکی حکومت نے چینی طلبا کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا
  • امریکی حکومت نے چینی طلباء کے ویزے منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا