میراتھن ریس رکوانے کیلیے جماعت اسلامی کے وفدکی کمشنر سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
میرپورخاص(نمائندہ جسارت)جماعت اسلامی میرپورخاص کے نمائندہ وفد نے امیر جماعت اسلامی میرپورخاص شکیل احمد فہیم کی قیادت میں کمشنر میرپورخاص فیصل احمد عقیلی سے ڈویژنل انتظامیہ کے تحت خلاف شریعت مجوزہ خواتین میرا تھن ریس کو منعقد نہ کرنے کے حوالے سے کمشنر آفس میں ملاقات کی۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی ضلع میرپورخاص حاجی نور الٰہی مغل اور نیاز درانی بھی ان کے ساتھ تھے۔جماعت اسلامی کے وفد نے ملاقات کے دوران کہا کہ اسلام میں خواتین کا دائرہ کار اور ذمے داریاں واضح طور بیان ہے خواتین اسلام اور طالبات کو مردوں کے ہوتے ہوئے عام شاہراہوں پر دوڑانا اور ڈور کے مقابلے کروانا شریعت اسلامی کی کھلی خلاف ورزی اور مردوں کی ہوس بھری نظروں کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ڈویژنل انتظامیہ طالبات اور خواتین کی معیار زندگی کو بہتر کرنے انہیں جدید تعلیمی و ووکیشنل تربیتی سہولیات مہیا کرنے کے بجائے سڑکوں پر دوڑانے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آج بھی میرپورخاص و قرب وجوار کی خواتین بنیادی طبی سہولیات سے محروم اور سول اسپتال میں زچگی کے دوران جدید سہولتیں نہ ہونے کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں مگر ڈویژنل انتظامیہ سب اچھا ہے کا راگ الاپتی ہے۔پرائیوٹ اور سرکاری اسکولز و کالج کی انتظامیہ کو سرکاری احکامات کے ذریعے خواتین میراتھن ریس میں شرکت کا کہا جارہا ہے۔وفدنے مزید کہا کہ میرپورخاص کے غیور مسلمان اس خلاف شریعت اور غیر اخلاقی خواتین میرا تھن ریس کو قبول نہیں کریں گے۔وفد نے کمشنر میرپورخاص سے مطالبہ کیا کہ مجوزہ خواتین میراتھن ریس کو فوری طور پر منسوخ کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-6
سید آصف محفوظ
پاکستان کی سیاسی اور فکری تاریخ میں جماعت ِ اسلامی ہمیشہ ایک اصولی اور نظریاتی تحریک کے طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی مدرسہ ہے۔ جس کا نصب العین دینِ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے۔
قیام اور نظریاتی بنیاد: 26 اگست 1941ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اْس وقت برصغیر میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، مگر مولانا مودودی نے ان سب سے ہٹ کر ایک نیا زاویہ فکر پیش کیا: ’’اسلامی انقلاب‘‘۔ ان کے نزدیک سیاست، معیشت، اخلاق اور سماج سب کچھ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت ِ اسلامی کے منشور اور تحریک کی اساس بنی۔
تحریک سے جماعت تک: قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے نئے ملک کو ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ قرار دیا اور اس کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں، مزدور و طلبہ ونگ؛ سب اسی فکر کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ایک متوازن اور باوقار آواز کے طور پر ابھری۔ آمریت کے خلاف، بدعنوانی کے مقابل، اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے۔
قیادت کا تسلسل: سید مودودیؒ سے میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن تک جماعت کی قیادت نے نظریے کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ یہ قیادت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و تربیتی بھی ہے۔ جماعت ہمیشہ کردار کو اقتدار پر مقدم رکھتی آئی ہے۔
اجتماعِ عام 2025: حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام 21 تا 23 نومبر 2025ء کو مینارِ پاکستان، لاہور میں منعقد ہوگا۔ موضوع ہے: ’’بدل دو نظام‘‘ جو محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم کا اظہار ہے۔ یہ اجتماع پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کے پس منظر میں اسلامی نظامِ عدل و انصاف کی طرف دعوت ہے۔
مقاصدِ اجتماع: 1۔ عوام میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا شعور بیدار کرنا۔ 2۔ نوجوانوں کو زمانے کے بدلتے حالات تعلیم، قیادت اور اخلاقی کردار کے لیے تیار کرنا۔ 3۔ پرامن، منظم اور اصولی جدوجہد کی راہ دکھانا۔ 4۔ آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ زندگی کی اصلاح۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنان اس اجتماع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہر ضلع، ہر یونٹ، ہر ونگ اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکنوں کے مطابق یہ اجتماع محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ’’تحریکی تجدید‘‘ ہے، جہاں نظریہ، تنظیم، اور عوامی رابطہ تینوں کا حسین امتزاج دکھائی دے گا۔
جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وقتی مفادات نہیں، اصولوں کی سیاست کرتی ہے۔ اجتماعِ عام ’’بدل دو نظام‘‘ اسی تسلسل کی نئی کڑی ہے۔ ایک اعلان کہ تبدیلی تب آتی ہے جب ایمان، کردار اور قیادت ایک سمت میں چلیں۔ ممکن ہے کہ نومبر 2025 کا یہ اجتماع پاکستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب جہاں سیاست نظریے کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مفاد کی۔