امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی ایوی ایشن ذہنی مریضوں اور نفسیاتی افراد کو نوکریاں دیتی ہے۔ انہوں نے واشنگٹن میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے تصادم کا ذمہ دار ایوی ایشن اتھارٹی اور ملٹری کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہترین نگاہ رکھنے والے لوگوں کو کچھ نظر نہیں آیا اور ہیلی کاپٹر طیارے سے جا ٹکرایا۔ حادثے سے بچا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ آپریشن اب ریکوری مشن میں تبدیل ہوگیا ہے۔ افسوس کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ کوئی زندہ نہیں بچا۔  ایوی ایشن،  ٹرانسپورٹ اور فوج مکمل اور جامع تحقیقات کر رہی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا’ امریکی ایوی ایشن ذہنی مریضوں اور نفسیاتی افراد کو نوکریاں دیتی ہے۔ یہ حیرت انگیز ہے۔ کچھ لوگوں کو پتہ تھا کہ کیا ہورہا ہے لیکن انہوں نے دیر سے خبردار کیا۔ ملٹری ہیلی کاپٹر والے کہاں جا رہے تھے،  میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ بہترین نگاہ رکھنے والے دیکھ نہ سکیں کہ ان کے سامنے کیا ہو رہا ہے۔‘

صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے کیسے نتیجہ نکالا کہ ایوی ایشن اس کی ذمہ دار ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا’ کیونکہ میرے پاس کامن سینس ہے، بدقسمتی سے اکثر لوگوں میں نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز واشنگٹن ڈی سی میں امریکن ایئرلائنز کا ایک طیارہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر سے ٹکرا کر دریائے پوٹومیک میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں عملے سمیت تمام مسافر ہلاک ہو گئے ہیں۔

طیارہ وچیٹا، کنساس سے آیا تھا اوراس میں 60 مسافراور عملے کے 4 ارکان سوار تھے۔ جبکہ فوجی ہیلی کاپٹر میں 3 فوجی سوار تھے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر ایوی ایشن

پڑھیں:

اوہام میں گرفتار حکمران

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔ تحریر: محمد صدرا مرادی
 
ایران کے شہید صدر ابراہیم رئیسی کی پہلی برسی کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک اہم تقریر کی جس میں دو ٹوک انداز میں یورینیم افزودگی کے حق پر زور دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد امریکہ کے کچھ مرکزی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف شدید میڈیا جنگ کا آغاز کر دیا۔ سی این این نے اس جنگ کا آغاز کرتے ہوئے وائٹ ہاوس کے بعض حکام کے بقول اعلان کیا کہ ٹرمپ حکومت کو ایسی دستاویزات موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول دعوی کیا کہ حاصل ہونے والی نئی معلومات سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس چینل نے مزید کہا کہ فی الحال واضح نہیں ہے کہ اسرائیلی حکام نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کر لیا ہے یا نہیں۔
 
سی این این نے آگاہ ذرائع کے بقول یہ دعوی بھی کیا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی ایسا جوہری معاہدہ طے پا جاتا ہے جس میں ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کے مکمل خاتمے کی ضمانت فراہم نہ کی گئی ہو تو اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا امکان مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس امریکی چینل نے دعوی کیا کہ اسرائیل کے اعلی سطحی حکام کی باہمی بات چیت  اور اسرائیل کی فوجی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حملہ عنقریب انجام پانے والا ہے۔ سی این این نے دو ذرائع کے بقول یہ دعوی کیا ہے۔ اس خبر کا رہبر معظم انقلاب کی اہم تقریر کے چند گھنٹے بعد شائع ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکی حکمرانوں نے ایران کے خلاف ہمیشہ کا کھیل ایک بار پھر شروع کر دیا ہے۔
 
وہ اس میڈیا جنگ کے ذریعے ایران کو یہ پیغام منتقل کرنا چاہتے ہیں کہ یورینیم افزودگی مکمل طور پر نہ روکنے کی صورت میں اس کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل حملے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ دھمکی ایران اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان موجود زمینی حقائق سے بالکل تناسب نہیں رکھتی۔ صیہونی رژیم اس وقت طوفان الاقصی آپریشن سے پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن "وعدہ صادق 1 اور 2" انجام دیے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف مغربی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لیے ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایران کے مقابلے میں مکمل طور پر بے دفاع ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں امریکی حکمران اب تک یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فوجی حملے کی دھمکیاں دے کر ایران کو خوفزدہ کر سکتے ہیں؟
 
اس سوال کا جواب مزید کئی ایسے سوالات کا جواب بھی فراہم کر دے گا جو ایران سے جوہری مذاکرات میں امریکی حکمرانوں کے ہر لمحہ بدلتے موقف کی وجوہات کے بارے میں پیش آتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کی طاقت نیز ایران کے جوہری پروگرام سے متعلقہ زمینی حقائق کے بارے میں شدید اوہام کا شکار ہے۔ اگرچہ ایران سے مذاکرات کے آغاز میں امریکی حکمرانوں نے کچھ حد تک معقول رویہ اختیار کیا تھا لیکن اس کے بعد ٹرمپ حکومت کے پاس ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں تھا۔ خاص طور پر گذشتہ تین ہفتوں کے دوران امریکی حکمرانوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ ایران کو یورینیم افزودگی مکمل طور پر ختم کر دینی چاہیے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کے چوتھے مرحلے میں امریکہ کے نمائندے ویٹکوف نے یہ موقف بیان بھی کیا لیکن اسے ایران کی جانب سے دو ٹوک موقف کا سامنا کرنا پڑا۔
 
امریکی حکمرانوں کی جانب سے بدلتے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خود ساختہ اوہام میں گرفتار ہیں۔ ان اوہام کی بنیادی وجہ ان کا یہ خیال باطل ہے کہ ایران اس وقت کمزور پوزیشن میں ہے لہذا وہ فوجی حملے کی دھمکی دے کر اس سے ہر قسم کا مطالبہ منوا سکتے ہیں۔ یہ خیال باطل سب سے پہلے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پیش کیا تھا۔ اگرچہ ان دنوں امریکی ذرائع ابلاغ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے بارے میں امریکی حکمرانوں کی ذہنیت بہت حد تک نیتن یاہو کے افکار و تصورات سے متاثر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ویٹکوف اور روبیو اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ایران پر دباو ڈال کر اس سے مزید مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کا تصور ہے کہ ایران ہر قیمت پر امریکہ سے معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور موقف دونوں میں اصلاح کرنی پڑے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے واضح اور دوٹوک موقف کے بارے میں امریکی حکام کا پہلا ردعمل انتہائی کمزور اور غیر معیاری تھا۔ انہوں نے ہمیشہ والا کھیل دوبارہ کھیلا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو زمینی حقائق اچھی طرح دیکھنے پڑیں گے۔ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا پڑے گا کہ ایران این پی ٹی معاہدے کا رکن ہے اور اس معاہدے میں رکن ممالک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس کے پاس ایران کے مسلمہ حقوق ضائع کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ موجود نہیں ہے۔ نہ فوجی دھمکی اور نہ ہی مذاکرات ناکام ہو جانے کی دھمکی ایران کے خلاف موثر واقع نہیں ہو سکتی۔ گیند ٹرمپ کے گراونڈ میں ہے۔ اسے ایران سے معاہدے کے لیے حقیقی ارادہ ظاہر کرنا پڑے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ذہنی صحت : ایک نظرانداز شدہ بحران
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوج کو طاقتور بنانے کا کریڈٹ خود کو دیدیا
  • امریکا کا بھارت میں تیارہونے والے آئی فون پرنیا ٹیکس عائد
  • ایپل کے بعد سام سنگ کو بھی امریکی صدر کی وارننگ
  • ٹرمپ کی یکم جون سے یورپی یونین سے درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف کی دھمکی
  • روس، یوکرین کے درمیان قیدیوں کا بڑا تبادلہ ہوا ہے، ٹرمپ کا دعویٰ
  • اگر بھارت میں آئی فون بنائے تو 25 فیصد ٹیرف عائد ہوگا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کردیا
  • اوہام میں گرفتار حکمران
  • سب سے خوش اور پریشان رکھنے والی نوکریاں کونسی؟ سائنسدانوں نے بتا دیا
  • محترم ڈونلڈ ٹرمپ، میں شرمندہ ہوں، آپکو جہاز تحفے میں نہیں دے سکتا