Jasarat News:
2025-06-09@13:50:55 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

گزشتہ دنوں وسط دسمبر اور اوائل جنوری میں دو مرتبہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا، 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سہولتوں کو دیکھ کر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ آثار قدیمہ کے شوقین کسی آثار قدیمہ جا کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں بار واش روم جانے کے لیے اجڑے ہوئے مردانہ ویٹنگ روم کے باہر انگریزی زبان میں ایک نوٹس آویزاں دیکھا کہ مینٹیننس کی وجہ سے ٹکٹ ویٹنگ ہال کا واش روم استعمال کیا جائے جس کے لیے پچاس روپے وصول کیے جا رہے تھے، خواتین ویٹنگ روم کے حمام کی حالت ناگفتہ اور مسلسل پانی کا زیاں ہو رہا تھا، کار پارکنگ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب گاڑیاں روک کر پارکنگ رسید بٹور رہے تھے، ان واپسی رسیدوں کا مصرف سمجھنا زیادہ دقت طلب امر نہیں ہے۔ کاش اسلام آباد ائر پورٹ بھی آثار قدیمہ کے شائقین کے لیے اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا تاکہ کچھ تو ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کا آپس میں موازنہ ہوتا۔ حسب معمول پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین روانگی کے لیے تاخیر کا شکار تھی اور میرے سامنے کھڑے دو تین افراد نظر بازی میں مصروف جن کا ارتکاز قریب کھڑی خواتین تھیں۔ آپ راول ڈیم جائیں، کراچی ساحل سمندر جائیں یا کسی چڑیا گھر یا بازار یا کوئی بس ویگن کا اڈہ ہو آپ کو اس طرح نظر بازی کے مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ ایسے میں ٹی وی چینل پر جانے پہچانے سہیل وڑائچ اپنے مقبول پروگرام’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ یاد آگئے، گزشتہ دنوں کراچی سے ان کے مہمان پیپلز پارٹی کے قبضہ مئیر مرتضیٰ وہاب تھے۔ دوران پروگرام سفر کرتے ہوئے انہوں نے مرتضیٰ وہاب سے کچھ سوالات کیے، سوالات کے ساتھ جوابات بھی شاہکار تھے، مختصراً آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورتی میں انسانی حسن میں کیا پسند ہے؟۔ آنکھیں؛
حسن پرست آدمی ہوں دیکھتا ہوں اچھی چیز نظر آتی ہے ایڈمائر کرتے ہیں اس کو؛
حسن پرست، تو پھر حسن کو چھونے کی حسن کو پانے کی بھی خواہش کرتا ہے؟
حسن کو پا لیا بیگم صاحبہ ہیں زندگی میں؛
اور کوئی دوسرا حسن کبھی آ کے ڈسٹرب تو نہیں کرتا؟
اگر ڈسٹرب کرتا بھی تو ٹی وی پہ تو نہیں کہوں گا (مشترکہ قہقہے)
یہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟

یہ کیمرہ بڑی زبردست چیز ہے ہر جگہ ہمارے ساتھ تو اب کیمرہ چل رہا ہوتا ہے تو اب تو دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے (دوبارہ مشترکہ قہقہے)

اخلاقی زوال کی یہ انتہا ہے کہ اگر خوف ہے تو بس کیمرے کی آنکھ کا، یہ جملہ شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے، سہیل وڑائچ جو استاد جیسے معزز پیشے سے وابستہ بھی رہے ہیں، ان کا مرتضیٰ وہاب سے یہ مکالمہ دیکھیں، کیا یہ کھلم کھلا نظر بازی کی اشتہا کے حوالے سے گفتگو نہیں؟، احکام الٰہی اور تعلیمات رسول کریمؐ سے متصادم اس طرح کے سوالات کے کیا کچھ مقاصد ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ہم سہیل وڑائچ اور ٹی وی چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام کرنے والے خاص کر تابش ہاشمی اور دیگر سے یہ ہی التماس کریں گے کہ آپ خرافات اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے ناظرین کو ہنسنے، قہقہے لگانے اور دلچسپی فراہم کرنے کے لیے اپنے پروگرام میں ’’بے حیا باتوں کے ٹوٹے‘‘ لگانے پر کیوں مصر ہیں؟۔ کم از کم آپ جیسے آسودہ حال لوگوں کی معاش کے حوالے سے اپنے اپنے چینلز کی خلاف اسلام پالیسیوں کی تعمیل مجبوری نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میڈیا کے ہماری ثقافت پر ہر طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑے بڑے مالز کا حال احوال کیا بتایا جائے اب تو گلی محلوں میں چھوٹے بازار اور مارکٹوں میں آنے والی خواتین خاص کر بچیوں کے پہناوے دیکھیں، کیا یہ سب مغربی اقدار کی نقالی میڈیا کے زیر اثر نہیں اور کیا یہ سب ان برائیوں کے ایک بڑے اسباب میں نہیں جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ خبروں میں آئے دن کیسے کیسے دلخراش واقعات سنائی دیتے ہیں اور نظر بازی کیا یہ اسی شاخسانہ کا ایک بد نما باب نہیں جس کا ذکر ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے کیا گیا۔ اسی طرح ایک ڈھولک بجانے والی ’’ڈھولچن‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام میں سہیل وڑائچ نے اس کی ایک روز کی آمدنی کا تخمینہ لگایا تو کیا اس ڈھولچن کی ایک دن کی ہوشربا آمدنی دیکھ اور سن کر کتنی بچیوں کا دل نہیں مچلا ہو گا کہ کاش وہ بھی ڈھولچن بن جائیں۔ آپ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ سہیل وڑائچ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ڈھولچن کے وارڈ روب میں ان کے لباس اور جم میں مرد ٹرینر کے ساتھ ورزش کا سیشن بھی شامل پروگرام کر لیا۔ آخر وہ اس طرح کی ڈھولچن اور دیگر ڈانسرز کے ساتھ پروگرام کرکے نوجوان نسل کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں؟، معاشرہ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟، ایک معلم اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے اور تجزیہ پیش کرنے والے فرد کا اس طرح کا رویہ اسلامی معاشرت کی اقدار کے قطعی منافی ہے۔

قرآن کریم میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچی رکھنے، غض بصر اور خواتین کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنے اور قدم زور سے مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ ان کی زینت نہ ظاہر ہو جائے، ابھی چند دنوں پہلے کراچی میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا گیا، اس میں خواتین جن حلیوں میں کْل عالم کے سامنے دوڑ رہی تھیں اور میڈیا سے جیسی کوریج ہو رہی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں، یہی حال خواتین کرکٹ ٹیم کا ہے ان کے منتظمین اور کوچ مرد ہوتے ہیں، ان کے غیر ملکی دورے ہوں یا ملک میں کرکٹ مقابلے، ان کی لائیو کوریج کی جاتی ہے اور کْل عالم یہ نظارے دیکھتا ہے۔ خدانخواستہ اس کا کوئی مطلب یا شائبہ بھی نہ لیا جائے کہ خواتین کو کھیل کود سے دور رکھا جائے، بجا طور سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن خواتین کے کھیل خواتین تک ہی محدود رکھے جائیں چاہے وہ انتظامیہ ہو کوچ ہوں یا شائقین تو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے رسول کریمؐ کا اسوہ دیکھیے آپؐ کے ارشادات مبارک سنیے، احادیث مبارکہ میں نبی کریمؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیر محرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ آپؐ نے فرمایا جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے، ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی وہاں پر نظر دوڑائے، رسول کریمؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ نے عقائد کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ توجہ اصلاح معاشرہ پر دی اور اس میں بھی شرم اور حیا کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ رسول کریمؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے، اگر آپؐ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرہ مبارک پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے، آج ان اقدار کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کیا ہم پر بھی ان رویوں پر کبھی ناگواری کی کیفیت طاری ہوتی ہے؟، دراصل بحیثیت مجموعی ہم ان اقدار سے نہ صرف دور ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا ہے جو شرم، حیا، لباس اور حجاب کے حوالے سے مغربی معاشرت کے اثرات کے تحت اس رو میں بہنے کے لیے مائل و آمادہ ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایک ایسا طبقہ اثر انداز اور قابض ہو چکا ہے کہ جس کا اسلامی تعلیمات اور عقائد سے دور دور کا واسطہ نہیں، یہ اسلامی اقدار کے تمسخر اور خلاف اسلام نظریات کے ابلاغ پر ایک بڑی اُجرت اور ایک ایجنڈے پر باقاعدہ مامور ہیں۔ آج کے نوجوان کو ’’طاؤس و رباب‘‘ میں گم کر دیا گیا ہے اور عوام بسم اللہ کے گنبد میں بند تو پھر ہماری معاشرت اسلامی معاشرت میں کیسے ڈھل سکتی ہے، جب کہ غار حرا سے پھوٹنے والی روشنی سے نہ جانے کیوں ہم اپنے در و دیوار اور مکینوں کے دل و دماغ روشن کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے اپنے رویوں پر مصر ہیں؟، شاید اسی سوال میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجوہات اور دیگر مسائل میں گھرے اہل وطن کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے رسول کریم کے لیے ا کے ساتھ کیا یہ

پڑھیں:

ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)

گزشتہ بار افریقی نوجوانوں میں مقبول گنی بساؤ کے صدر کیپٹن ابراہیم ترورے کی سوشل میڈیا پر وائرل تقریر کا پہلا حصہ پیش کیا گیا۔یہ دوسرا حصہ پڑھیے اور اگلی بار تیسرا اور آخری حصہ۔

میرے افریقیو ،

گھانا تا زیمبیا اور سینیگال تا کینیا ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے۔حکومتوں کو پانی کی نجکاری پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ غیر ملکی کمپنیاں منافع کما سکیں۔سستی درآمدات کے ذریعے کسانوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔مقامی صنعتوں پر پھلنے سے پہلے ہی قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے۔مشورہ دیا جاتا ہے کہ بجٹ کو متوازن بنانے کے لیے ترقیاتی بجٹ کم کریں تاکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائی بروقت ہو سکے۔

عجیب بات ہے کہ یہ ادائی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔اگر ہم اس کے خلاف مزاحمت کی جرات کریں ، آپ کے تجویز کردہ نسخوں پر سوال اٹھائیں یا تجاویز نہ مانیں تو ہم بلیک لسٹ ہو جاتے ہیں ، ہماری کریڈٹ ریٹنگ نیچے آ جاتی ہے ، ہماری کرنسی کی قدر پر حملہ ہوتا ہے اور ہمارے رہنماؤں کو نام نہاد بین الاقوامی میڈیا انتہا پسند ، سنکی اور پاپولسٹ قرار دے کر مطعون کرتا ہے۔

اس سے بڑی انتہاپسندی کیا ہوگی کہ ایک ملک کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے عوام کا پیٹ بھرنے سے پہلے قرض کا سود چکانے کی فکر کرے۔ چنانچہ ہماری نئی نسل کا اپنے روزگاری مستقبل اور سیاست پر سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ ان کی قیادت عوام کو جواب دینے سے پہلے بینکوں کو جوابدہ ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ آپ ہمارے خوابوں کو بھی ویٹو کرتے ہو۔آپ افریقی پالیسی بنانے والے غیر منتخب گورنر ہو۔ ہم کب تک برداشت کریں کہ ہمیں ہی دیے گئے قرضوں سے بھاری مشاہرہ پانے والے بین الاقوامی مشیر ہماری پالیسیاں بنائیں جب کہ ہمارے اساتذہ کو تنخواہ کے لالے پڑے ہوں۔ہم ان اداروں کے آگے مزید کیوں جھکیں جو ہمارے شہریوں کے بجائے اپنے شیئر ہولڈرز کو جوابدہ ہوں۔

میں آئی ایم ایف سے صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنا اقتدارِ اعلیٰ واپس لینا چاہتے ہیں بھلے اس کا مطلب آپ کے قرضوں کے بغیر ہماری شرح ترقی میں سست رفتار اضافہ کی کیوں نہ ہو۔مگر تب یہ ہماری شرحِ ترقی ہو گی۔وقتی تکلیف تو ہو گی مگر یہ آزاد ہونے کا درد ہو گا۔افریقہ کو آقا نہیں شراکت دار چاہئیں۔

ہم اس نظام میں پیدا ہوئے ہیں جو ہم نے نہیں بنایا۔یہ نظام معاہدوں ، من مانے قوانین اور اداروں کا جال ہے۔جب نوآبادکار رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے شفافیت کے بجائے ایسا نظام چھوڑ گئے جو انھیں مسلسل فائدہ پہنچاتا رہے۔

مسئلہ صرف آئی ایم ایف میں اصلاحات کا نہیں بلکہ تجارتی ، مالیاتی ، قرضہ جاتی قوانین کے ڈھانچے میں سدھار کا ہے۔موجودہ مالیاتی ڈھانچہ خدائی یا فطری منصوبہ نہیں بلکہ طاقتور انسانوں کا مسلط کردہ ہے۔ وہی طاقت ور تعین کرتے ہیں کہ کس شے کی کیا قیمت ہو اور کسے ملنی چاہیے۔

کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایسا براعظم جس کی ساٹھ فیصد زمین زرخیز ہے اب تک خوراک میں خود کفیل کیوں نہیں ؟ ہم سونے ، ہیروں ، تیل اور لیتھیم کے ذخائر پر بیٹھنے کے باوجود بھی محتاج کیوں ہیں ؟ کیونکہ کھیل کبھی شفاف نہیں تھا۔

ہمیں صنعتی مصنوعات بنانے کے بجائے خام مال پیدا کرنے والے خطے میں تبدیل کر دیا گیا۔ہمیں عالمی معیشت میں ایک مخصوص کردار دیا گیا جیسے کسی المیہ کھیل میں اداکار کو دیا جاتا ہے۔یعنی تم صرف اگاؤ گے ، پروسیسنگ ہم کریں گے ، تم ہاتھ پھیلاؤ گے ہم قرضہ دیں گے۔جب بھی ہم اس کھیل کا اسکرپٹ دوبارہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو جرمانہ بھرنا پڑتا ہے ، کریڈٹ ایجنسیز ہماری ریٹنگز گھٹا دیتی ہیں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لابی پابندیوں کی دھمکی دیتی ہے ، ہائی ٹیک کمپنیاں اپنا سرمایہ نکال لیتی ہیں۔آپ کا میڈیا ہمیں پاگل کہتا ہے۔

مگر اس سے زیادہ غیر مستحکم دنیا اور کیا ہو گی کہ ایک اعشاریہ چار ارب انسانوں کا براعظم ماحولیات کی ابتری میں سب سے کم اور اس کے نقصانات میں سب سے زیادہ حصہ دار ہے۔اس سے زیادہ غیر منطقی کیا ہو گا کہ پوری دنیا کے لیے کوکا اگانے والے کسان خود اپنے بچوں کے لیے چاکلیٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔اس سے بڑی ناانصافی کیا ہو گی کہ جن ممالک نے ہمیں ماضی میں نوآبادی بنایا آج وہی ہمیں گڈ گورننس کا لیکچر دے رہے ہیں اور دوسری جانب افریقی اشرافیہ کی چرائی ہوئی دولت بنا کوئی سوال پوچھے اپنے بینکوں میں رکھ رہے ہیں۔اور وہ اس نظام کو میریٹوکریسی بھی کہتے ہیں۔

وہ ہم سے کہتے ہیں محنت کرو ، شفاف بنو اور مزید سرمایہ کاری کے مواقع بڑھاؤ۔مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ عالمی تجارتی قوانین کبھی بھی شفاف نہیں رہے۔ عالمی ادارہِ تجارت ( ڈبلیو ٹی او ) عالمی بینک اور آئی ایم ایف جیسے ریفریز انھیں ٹیموں کے طرف دار ہیں جو ہمیشہ جیتتی ہیں۔

مثلاً جب ہم نے اپنے کسانوں کو سبسڈی دینے کی کوشش کی تو ہمیں کہا گیا کہ اس سے کھلی مارکیٹ پر منفی اثر پڑے گا۔مگر امریکا اور یورپ اپنے کسانوں کو اربوں ڈالر کی سبسڈی دے رہے ہیں اور اسے تحفظ کا نام دیتے ہیں۔جب ہم نے روزگار پیدا کرنے کے لیے سرکاری شعبے میں صنعتیں لگانے کی کوشش کی تو ہمیں بتایا گیا کہ اس سے معاشی جمود بڑھے گا۔جب کہ ان کی امیر ترین نجی کارپوریشنز سرکاری پیسے سے چلنے والے ناسا ، سرکاری جنگوں ، سرکاری ٹھیکوں اور سرکاری ریسرچ اداروں کی تحقیق سے پورا تجارتی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔جب ہم کانکنی کے استحصالی معاہدوں پر نظرِ ثانی کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم کاروبار دشمن ہیں۔مگر اس سے بڑی دشمنی کیا ہو گی کہ آپ سو ڈالر مالیت کی معدنیات نکالیں اور ہمیں تین ڈالر رائلٹی دے کر چلتے بنیں۔

افریقہ آپ سے رحم کھانے کو نہیں کہہ رہا۔ہم صرف شفافیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ہم خیراتی اترن نہیں برابری چاہتے ہیں۔ہم اس کرہِ ارض کا سب سے توانا براعظم ہیں۔مگر عالمی معیشت ہم سے ایسا سلوک کر رہی ہے جیسے ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں۔ ہمارے مزدور ، ہماری زمین ، ہماری اقدار ناقص نہیں بلکہ نظام ناقص ہے۔ہم آپ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتے مگر مزید زنجیریں پہننے کو تیار نہیں۔

ہم سنکارا ، نکروما ، لوممبا اور منڈیلا کے بچے ہیں۔ محض زندہ رہنا نہیں چاہتے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔۔اس کے لیے اب ہمیں کسی کی اجازت اور افریقہ کو اب کوئی نیا نجات دھندہ یا تازہ لیکچر یا جکڑبند قرضہ نہیں چاہیے۔ہم خود کو تمہارے برابر تسلیم کروانے کے لیے خوشامد نہیں کریں گے۔ہم شراکت داری کے خلاف نہیں مگر ہم اس کی شرائط ازسرِنو ترتیب دینا چاہتے ہیں۔

کوئی ملک بااختیار نہیں کہلا سکتا اگر اپنے لوگوں کا پیٹ نہ بھر سکے۔ہم کیسے آزاد کہلا سکتے ہیں جب کسی جگہ پڑنے والا قحط ہماری روٹی کی قیمت طے کرے۔نوآبادیاتی نظام نے جو سب سے خطرناک ترکہ چھوڑا وہ بندوق نہیں بلکہ سلیبس ہے۔ایسا نصاب جو ہمیں غیر ملکی بادشاہوں کے بارے میں تو خوب بتاتا ہے مگر ہمارے ہیروز کو نظرانداز کرتا ہے۔نصاب میں غیر ملکی فلسفیوں کی تعریف ہے مگر افریقی دانش کا ذکر غائب ہے۔

ہمیں تعلیمی سلیبس دوبارہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہو سکیں۔اپنی تاریخ پر فخر کر سکیں اور اعتماد کے ساتھ تخلیقی قوت استعمال کر سکیں۔بچوں کو کوڈنگ ضرور سکھائیں مگر علمِ زراعت بھی پڑھائیں۔ہمارے اسکول آزادی کی لیبارٹری ہونے چاہئیں۔ تعلیم محض امتحان میں کامیابی تک محدود نہ ہو بلکہ اپنی قسمت خود تعمیر کرنے کے قابل بنا سکے۔

ہمارا جو خام مال باہر جاتا ہے وہی خام مال کھلی تیار مصنوعات کی شکل میں دس گنا قیمت پر ہمیں لوٹایا جاتا ہے۔ہمیں مقامی صنعت کاری اور ایجاد پسندی کی جانب آنا ہو گا۔صرف معدنیات کی ملکیت کافی نہیں۔منافع کمانے کے لیے ہمیں دھاتوں کی ریفائننگ اور پیکیجنگ کی اپنی صنعت چاہیے۔ہمیں افریقی سرمایہ کاری اور نوزائیدہ صنعتوں کو تحفظ دینا ہو گا اور غیرضروری اشیا کی درآمدی عادت کو کم کرنا ہو گا۔یہی ایک طریقہ ہے روزگار پیدا کرنے اور افریقہ کی دولت افریقیوں کے لیے استعمال کرنے کا۔

منقسم افریقہ ہمیشہ کمزور رہے گا۔ہم چون ممالک الگ الگ آوازوں کی شکل میں دنیا سے اجتماعی سودے بازی نہیں کر سکتے۔ہمیں سیاسی ، اقتصادی ، دفاعی اور سائنسی تعاون کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔اس کے لیے بین ال افریقہ ادارہ سازی کرنا ہو گی۔ہم تب تک آزاد نہیں ہو سکتے جب تک مقامی دانش پر بھروسہ کرنا نہیں سیکھیں گے۔  (جاری ہے)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا
  • بھارتی وفد کا ایجنڈا کسی کو سمجھ نہیں آیا، شیری رحمان
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • سندھ حکومت کے پاس بتانے کو کچھ نہ دکھانے کو، عظمیٰ بخاری
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • ہانیہ عامر کی منیٰ سے حج کی تصاویر وائرل، مداحوں کی دعائیں اور تنقید کا سامنا
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • علی ظفر کی بیدری سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • ایک افریقی سیاسی راک اسٹار کی تقریر (حصہ دوم)