Jasarat News:
2025-09-18@02:17:36 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

اسلامی معاشرت سہیل وڑائچ اور میڈیا

گزشتہ دنوں وسط دسمبر اور اوائل جنوری میں دو مرتبہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا اتفاق ہوا، 21 ویں صدی میں 19 ویں صدی کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سہولتوں کو دیکھ کر ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ آثار قدیمہ کے شوقین کسی آثار قدیمہ جا کر اپنا وقت ضائع کریں۔ دونوں بار واش روم جانے کے لیے اجڑے ہوئے مردانہ ویٹنگ روم کے باہر انگریزی زبان میں ایک نوٹس آویزاں دیکھا کہ مینٹیننس کی وجہ سے ٹکٹ ویٹنگ ہال کا واش روم استعمال کیا جائے جس کے لیے پچاس روپے وصول کیے جا رہے تھے، خواتین ویٹنگ روم کے حمام کی حالت ناگفتہ اور مسلسل پانی کا زیاں ہو رہا تھا، کار پارکنگ سے باہر نکلتے وقت ایک صاحب گاڑیاں روک کر پارکنگ رسید بٹور رہے تھے، ان واپسی رسیدوں کا مصرف سمجھنا زیادہ دقت طلب امر نہیں ہے۔ کاش اسلام آباد ائر پورٹ بھی آثار قدیمہ کے شائقین کے لیے اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا تاکہ کچھ تو ائر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن کا آپس میں موازنہ ہوتا۔ حسب معمول پلیٹ فارم پر کھڑی ٹرین روانگی کے لیے تاخیر کا شکار تھی اور میرے سامنے کھڑے دو تین افراد نظر بازی میں مصروف جن کا ارتکاز قریب کھڑی خواتین تھیں۔ آپ راول ڈیم جائیں، کراچی ساحل سمندر جائیں یا کسی چڑیا گھر یا بازار یا کوئی بس ویگن کا اڈہ ہو آپ کو اس طرح نظر بازی کے مناظر بار بار نظر آئیں گے۔ ایسے میں ٹی وی چینل پر جانے پہچانے سہیل وڑائچ اپنے مقبول پروگرام’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ یاد آگئے، گزشتہ دنوں کراچی سے ان کے مہمان پیپلز پارٹی کے قبضہ مئیر مرتضیٰ وہاب تھے۔ دوران پروگرام سفر کرتے ہوئے انہوں نے مرتضیٰ وہاب سے کچھ سوالات کیے، سوالات کے ساتھ جوابات بھی شاہکار تھے، مختصراً آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

خوبصورتی میں انسانی حسن میں کیا پسند ہے؟۔ آنکھیں؛
حسن پرست آدمی ہوں دیکھتا ہوں اچھی چیز نظر آتی ہے ایڈمائر کرتے ہیں اس کو؛
حسن پرست، تو پھر حسن کو چھونے کی حسن کو پانے کی بھی خواہش کرتا ہے؟
حسن کو پا لیا بیگم صاحبہ ہیں زندگی میں؛
اور کوئی دوسرا حسن کبھی آ کے ڈسٹرب تو نہیں کرتا؟
اگر ڈسٹرب کرتا بھی تو ٹی وی پہ تو نہیں کہوں گا (مشترکہ قہقہے)
یہ کس طرح قابو پاتے ہیں؟

یہ کیمرہ بڑی زبردست چیز ہے ہر جگہ ہمارے ساتھ تو اب کیمرہ چل رہا ہوتا ہے تو اب تو دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے (دوبارہ مشترکہ قہقہے)

اخلاقی زوال کی یہ انتہا ہے کہ اگر خوف ہے تو بس کیمرے کی آنکھ کا، یہ جملہ شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے، سہیل وڑائچ جو استاد جیسے معزز پیشے سے وابستہ بھی رہے ہیں، ان کا مرتضیٰ وہاب سے یہ مکالمہ دیکھیں، کیا یہ کھلم کھلا نظر بازی کی اشتہا کے حوالے سے گفتگو نہیں؟، احکام الٰہی اور تعلیمات رسول کریمؐ سے متصادم اس طرح کے سوالات کے کیا کچھ مقاصد ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو ہم سہیل وڑائچ اور ٹی وی چینلز پر انٹرٹینمنٹ پروگرام کرنے والے خاص کر تابش ہاشمی اور دیگر سے یہ ہی التماس کریں گے کہ آپ خرافات اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے ناظرین کو ہنسنے، قہقہے لگانے اور دلچسپی فراہم کرنے کے لیے اپنے پروگرام میں ’’بے حیا باتوں کے ٹوٹے‘‘ لگانے پر کیوں مصر ہیں؟۔ کم از کم آپ جیسے آسودہ حال لوگوں کی معاش کے حوالے سے اپنے اپنے چینلز کی خلاف اسلام پالیسیوں کی تعمیل مجبوری نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میڈیا کے ہماری ثقافت پر ہر طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑے بڑے مالز کا حال احوال کیا بتایا جائے اب تو گلی محلوں میں چھوٹے بازار اور مارکٹوں میں آنے والی خواتین خاص کر بچیوں کے پہناوے دیکھیں، کیا یہ سب مغربی اقدار کی نقالی میڈیا کے زیر اثر نہیں اور کیا یہ سب ان برائیوں کے ایک بڑے اسباب میں نہیں جو آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ خبروں میں آئے دن کیسے کیسے دلخراش واقعات سنائی دیتے ہیں اور نظر بازی کیا یہ اسی شاخسانہ کا ایک بد نما باب نہیں جس کا ذکر ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے کیا گیا۔ اسی طرح ایک ڈھولک بجانے والی ’’ڈھولچن‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام میں سہیل وڑائچ نے اس کی ایک روز کی آمدنی کا تخمینہ لگایا تو کیا اس ڈھولچن کی ایک دن کی ہوشربا آمدنی دیکھ اور سن کر کتنی بچیوں کا دل نہیں مچلا ہو گا کہ کاش وہ بھی ڈھولچن بن جائیں۔ آپ ہماری اخلاقی گراوٹ کا اندازہ کریں کہ سہیل وڑائچ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ڈھولچن کے وارڈ روب میں ان کے لباس اور جم میں مرد ٹرینر کے ساتھ ورزش کا سیشن بھی شامل پروگرام کر لیا۔ آخر وہ اس طرح کی ڈھولچن اور دیگر ڈانسرز کے ساتھ پروگرام کرکے نوجوان نسل کو کہاں لے جانا چاہ رہے ہیں؟، معاشرہ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟، ایک معلم اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے اور تجزیہ پیش کرنے والے فرد کا اس طرح کا رویہ اسلامی معاشرت کی اقدار کے قطعی منافی ہے۔

قرآن کریم میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچی رکھنے، غض بصر اور خواتین کو سینوں پر اوڑھنیاں ڈالنے اور قدم زور سے مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہے کہ ان کی زینت نہ ظاہر ہو جائے، ابھی چند دنوں پہلے کراچی میں میراتھن دوڑ کا اہتمام کیا گیا، اس میں خواتین جن حلیوں میں کْل عالم کے سامنے دوڑ رہی تھیں اور میڈیا سے جیسی کوریج ہو رہی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں، یہی حال خواتین کرکٹ ٹیم کا ہے ان کے منتظمین اور کوچ مرد ہوتے ہیں، ان کے غیر ملکی دورے ہوں یا ملک میں کرکٹ مقابلے، ان کی لائیو کوریج کی جاتی ہے اور کْل عالم یہ نظارے دیکھتا ہے۔ خدانخواستہ اس کا کوئی مطلب یا شائبہ بھی نہ لیا جائے کہ خواتین کو کھیل کود سے دور رکھا جائے، بجا طور سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن خواتین کے کھیل خواتین تک ہی محدود رکھے جائیں چاہے وہ انتظامیہ ہو کوچ ہوں یا شائقین تو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے رسول کریمؐ کا اسوہ دیکھیے آپؐ کے ارشادات مبارک سنیے، احادیث مبارکہ میں نبی کریمؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیر محرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ آپؐ نے فرمایا جس مسلمان کی نگاہ کسی عورت کے حسن پر پڑے اور وہ نگاہ ہٹا لے تو اللہ اس کی عبادت میں لطف اور لذت پیدا کر دیتا ہے۔ کسی آدمی کے لیے یہ بات حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے، ایک دفعہ اچانک نظر پڑ جائے تو وہ معاف ہے لیکن یہ معاف نہیں ہے کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی وہاں پر نظر دوڑائے، رسول کریمؐ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا ہے۔

نبی کریمؐ نے عقائد کی اصلاح کے بعد سب سے زیادہ توجہ اصلاح معاشرہ پر دی اور اس میں بھی شرم اور حیا کو بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ رسول کریمؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا دار تھے، اگر آپؐ کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرہ مبارک پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے تھے، آج ان اقدار کو دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں کیا ہم پر بھی ان رویوں پر کبھی ناگواری کی کیفیت طاری ہوتی ہے؟، دراصل بحیثیت مجموعی ہم ان اقدار سے نہ صرف دور ہو چکے ہیں بلکہ ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آگیا ہے جو شرم، حیا، لباس اور حجاب کے حوالے سے مغربی معاشرت کے اثرات کے تحت اس رو میں بہنے کے لیے مائل و آمادہ ہے۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر زیادہ تر ایک ایسا طبقہ اثر انداز اور قابض ہو چکا ہے کہ جس کا اسلامی تعلیمات اور عقائد سے دور دور کا واسطہ نہیں، یہ اسلامی اقدار کے تمسخر اور خلاف اسلام نظریات کے ابلاغ پر ایک بڑی اُجرت اور ایک ایجنڈے پر باقاعدہ مامور ہیں۔ آج کے نوجوان کو ’’طاؤس و رباب‘‘ میں گم کر دیا گیا ہے اور عوام بسم اللہ کے گنبد میں بند تو پھر ہماری معاشرت اسلامی معاشرت میں کیسے ڈھل سکتی ہے، جب کہ غار حرا سے پھوٹنے والی روشنی سے نہ جانے کیوں ہم اپنے در و دیوار اور مکینوں کے دل و دماغ روشن کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے اپنے رویوں پر مصر ہیں؟، شاید اسی سوال میں بارشوں کے نہ ہونے کی وجوہات اور دیگر مسائل میں گھرے اہل وطن کے مسائل کا حل پنہاں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے رسول کریم کے لیے ا کے ساتھ کیا یہ

پڑھیں:

زمین کے ستائے ہوئے لوگ

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

 

کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
  • مجھ پر انڈوں سے حملہ کرنے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا: علیمہ خان
  • سربراہ سی سی ڈی سہیل ظفر چٹھہ کی برطرفی کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • دوران آپریشن نرس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے والا ڈاکٹر دوبارہ جاب کیلئے اہل قرار
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • کمیٹیاں بلدیاتی اداروں پر عوام کا دباؤ بڑھائیں گی‘ وجیہہ حسن
  • عمرشاہ کی انتقال سے پہلے اپنے بھائی احمد کے ہمراہ چاچو سے فرمائش کی آخری ویڈیو وائرل
  • دوحہ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی ملاقات
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • یہ وہ لاہور نہیں