اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے ججوں کی آمد کے بعد سینئر ترین جج کون ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاہور، سندھ اور بلوچستان سے تین ججوں کے تبادلے کے بعد ججوں کی سینیارٹی لسٹ بھی تبدیل ہوگئی ہے اور لاہور ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے جسٹس سرفراز ڈوگر اب جسٹس محسن اخترکیانی کی جگہ سینئرترین جج ہوں گے۔
صدر مملکت آصف زرداری کی منظوری کے بعد وزارت قانون اور پھر گزٹ نوٹیفکیشن پر تینوں ججوں کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ حتمی شکل اختیار کرگیا اور اس کے ساتھ ججز کی سینارٹی لسٹ بھی تبدیل ہو گئی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اب چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد سینئر ترین جج ہوں گے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں جج تعیناتی کی صورت میں جسٹس سرفراز ڈوگر موسٹ سینئر جج اسلام آباد ہائی کورٹ بن جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور، سندھ اور بلوچستان سے تین ججوں کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ، نوٹیفکیشن جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ آنے والے جسٹس سرفراز ڈوگر 8 جون 2015 کو لاہور ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی 23 دسمبر 2015 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج تعینات ہوئے تھے۔
سپریم کورٹ میں 8 نئے ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 10 فروری کو طلب کیا گیا ہے اوراسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی کی صورت میں نئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے جن تین سینئر ناموں پر غور ہوگا ان میں پہلے نمبر پر جسٹس سرفراز ڈوگر ہوں گے۔
بلوچستان ہائی کورٹ سے آنے والے جج جسٹس محمد آصف حال ہی میں ایڈیشنل جج بنے ہیں اور ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس خادم حسین سومرو دو سال پہلے ہائی کورٹ کے جج بنے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونے والے جسٹس خادم حسین سومرو اسلام آباد ہائی کورٹ کی سینارٹی لسٹ میں جسٹس ثمن رفعت سے سینئر ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی کورٹ ہائی کورٹ میں ہائی کورٹ کے ہائی کورٹ سے والے جسٹس چیف جسٹس ہوں گے کے بعد
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکتے ہوئے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلہ تک بطور جج کام کرنے سے روکنے کا حکم دیدیا اور سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ اور اشتر علی اوصاف کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کرلی۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کے خلاف میاں داؤد کی درخواست پر سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت پیش نہ ہوئے اور معاون وکیل کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، ایسی درخواستوں سے خطرناک ٹرینڈ قائم ہوگا، سپریم کورٹ کے دو فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں، لہٰذا اس درخواست پر اعتراضات برقرار رہنے چاہئیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حق سماعت کسی کا بھی حق ہے لیکن ہمیں آفس کے اعتراضات کو دیکھنا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟، عدالت نے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہونے کے باعث سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک سماعت ملتوی کر دی۔ اسلام آباد بار کونسل نے ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے معاملے پر آج بدھ کو ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے جنرل باڈی اجلاس بھی طلب کرلیا۔ حکمنامہ کے بعد ججز کا نیا ڈیوٹی روسٹر جاری کردیا گیا۔ نئے ڈیوٹی روسٹر میں جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل نہیں ہیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری کا ڈویژن بینچ اور سنگل بنچ بھی ختم کردیا گیا۔ ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس اعظم خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی ہے، جسٹس اعظم خان کی اسلام آباد جوڈیشل سروس میں مستقلی اور بعد ازاں ترقی غیرقانونی ہے۔ جبکہ رولز کے تحت صرف وہی ججز مستقل کیے جا سکتے تھے جو پہلے سے اسلام آباد جوڈیشل سروس میں کام کر رہے تھے۔ بعد میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے ججز کو مستقل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کر دیا گیا جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر معاونت طلب کر لی گئی ہے۔واضح رہے مذکورہ کیس میں فاضل جج کی تعلیمی اسناد کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔