3 شعبان۔۔۔ ولادتِ محبوبِ عالم، حسین ابن علیؑ مبارک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسینیت کیا ہے؟ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حسینیت ایک نظریہ ہے، ایک انقلاب ہے، حسینت ایک ایسا نور ہے، جو ظلمت کے ہر اندھیرے میں روشنی بن کر چمکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی فرد، قوم یا ملت کسی ظالم کیخلاف اٹھتی ہے، حق کیلئے آواز بلند کرتی ہے اور باطل کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے تو دنیا کہتی ہے کہ یہی حسینیت ہے۔ ہماری زندگیوں میں حسینیت اسی وقت جگمگا سکتی ہے، جب ہم امام حسینؑ کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتاریں۔ حسینیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: حق پر ڈٹے رہو، چاہے پوری دنیا مخالفت کرے۔ ظلم کو قبول نہ کرو، چاہے قیمت جان دینی پڑے۔ مظلوم کا ساتھ دو، چاہے خود مشکلات میں پڑ جاو۔ باطل کیخلاف کھڑے ہو جاؤ، چاہے تنہاء رہ جاؤ۔" تحریر: محمد حسن جمالی
ماہِ شعبان کے تیسرے دن محبوب عالم، سید الشہداء حسین ابن علی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کی ولادت سے مدینے کی فضاؤں میں نکہتِ رحمت بکھر گئی اور زمین و آسمان نے مسرت کے نغمے گائے۔ تین شعبان کی مبارک ساعتیں تھیں، جب سیدہ کائناتؑ کی آغوش میں وہ ماہِ کامل جلوہ گر ہوا، جسے دنیا "حسینؑ ابن علیؑ" کے نام سے جانتی ہے۔ یہ دن صرف اہلِ بیتؑ کے گھرانے کے لیے خوشی کا دن نہ تھا، بلکہ یہ دن انسانیت کے لیے رحمت، عزیمت اور حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے والے امام کی آمد کا دن تھا۔ حسینؑ صرف علیؑ و بتولؑ کے بیٹے نہ تھے، بلکہ وہ پوری امت کے لیے رہبر اور ہر مظلوم کے لیے امید کی کرن تھے۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائے تو رحمت عالمین سرور کائنات نے نومولود کو اپنی گود میں لے کر فرمایا: "حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں، اللّٰہ اس سے محبت کرے گا، جو حسینؑ سے محبت کرے۔"
یہ محض ایک فرمان نہ تھا، بلکہ اعلانِ ازل تھا کہ حسینؑ صرف ایک نام نہیں، بلکہ وفا کی وہ جیتی جاگتی تصویر ہیں، جسے کائنات کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مدینہ کی گلیوں میں جب یہ نوخیز چراغ روشنی بکھیرنے لگا تو ہر آنکھ اسے حسن و جلال پر نثار ہونے لگی۔ حسینؑ ابن علیؑ وہ چہرۂ انور تھے، جس میں نبیؐ کی مشابہت تھی، وہ لب تھے، جہاں سے صداقت جھلکتی تھی، وہ آنکھیں تھیں، جو حق کی روشنی سے منور تھیں اور وہ دل تھا، جو سراپا ایثار تھا۔ حسینؑ وہ تھے، جن کی مسکراہٹ میں نانا کی شفقت، ماں کی عظمت اور بابا کی جرات نمایاں تھی۔ وہ میدانِ کربلا کے شہسوار تو بعد میں بنے، بچپن ہی سے ان کی پیشانی پر سعادت کی روشنی چمک رہی تھی۔ وہ بچپن ہی سے سخاوت، شجاعت اور حلم کا پیکر تھے۔
تاریخِ انسانیت میں ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں، جو اپنی شخصیت، کردار، قربانی اور اصولوں کی بنا پر ہر مذہب، ہر عقیدے اور ہر دور کے انسانوں کے لیے محبوب اور مثالی بن گئے۔ امام حسینؑ فرزندِ علیؑ و بتولؑ ایسی ہی ایک ہستی ہیں، جو محبت، ایثار، صبر اور حق پرستی کی علامت بن کر عالمِ انسانیت کے دلوں میں بستے ہیں۔حسینؑ کی محبوبیت کا سب سے بڑا سبب ان کی وہ عظیم قربانی ہے، جو انہوں نے حق و صداقت کی راہ میں دی۔ 61 ہجری میں کربلا کے تپتے ریگزار میں جب یزیدیت نے اسلام کی اصل روح کو مٹانے کی کوشش کی تو حسینؑ نے اپنے خاندان اور جانثار ساتھیوں سمیت ایک ایسا موقف اختیار کیا، جو رہتی دنیا تک آزادی، عدل اور حق کی علامت بن گیا۔
انہوں نے بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرکے اپنے بچوں، بھائیوں اور دوستوں کو قربان کر دیا اور بالآخر اپنی جان دے کر یہ پیغام دیا کہ سچائی اور انصاف کے لیے مرنا قبول ہے، مگر باطل کے آگے جھکنا گوارا نہیں۔ حسینؑ صرف مسلمانوں کے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے محبوب ہیں۔ دنیا کے بڑے مفکرین، دانشور اور رہنماء ان کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ مشہور برطانوی مصنف چارلس ڈکنز نے کہا: "اگر امام حسینؑ کی قربانی کا مقصد دنیاوی خواہشات حاصل کرنا ہوتا، تو میں سمجھ نہیں پاتا کہ وہ اپنی بہنوں، بچوں اور عزیزوں کو خطرے میں کیوں ڈالتے؟ مجھے تو حسینؑ کی قربانی ایک عظیم قربانی لگتی ہے، جو صرف اور صرف انسانیت کی بقا کے لیے تھی۔"
محبوب وہ ہوتا ہے، جو دلوں پر راج کرے اور حسینؑ ابن علیؑ آج بھی کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ہر سال محرم آتا ہے تو دنیا بھر میں حسینؑ کے چاہنے والے ان کی قربانی کو یاد کرتے ہیں، ان کے اصولوں کو اپنانے کا عہد کرتے ہیں اور ظالموں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینؑ ایک فرد کا نہیں، بلکہ ایک نظریئے کا نام ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو ظالم کے خلاف ڈٹ جانے، مظلوم کا ساتھ دینے اور ہر حال میں حق کی راہ پر چلنے کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینؑ صرف تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ ہر دور میں جبر کے خلاف مزاحمت کی سب سے بڑی علامت اور پوری انسانیت کے محبوب بن چکے ہیں۔ حسینؑ ابن علیؑ وہ عظیم المرتبت شخصیت کا نام ہے، جن کی محبت کسی مخصوص قوم، مذہب یا خطے تک محدود نہیں، بلکہ وہ محبوبِ عالم ہیں۔
ان کی زندگی انسانیت کے لیے ایک مکمل درس ہے۔ ان کی محبوبیت کا راز صرف ان کی نسبی عظمت نہیں، بلکہ یہ ان کے کردار کی رفعت میں پوشیدہ ہے۔ حسینؑ نے صرف قول نہیں، بلکہ عمل سے دکھایا کہ محبت، ایثار اور قربانی کی معراج کیا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ہر گوشے میں، ہر زبان میں، ہر مذہب کے لوگوں کے دلوں میں حسینؑ کے لیے محبت ہے۔ حسینؑ صرف مدینہ کی گلیوں میں نہیں،بلکہ کربلا کے تپتے ریگزار میں بھی زندہ رہے۔ تین شعبان کو جو چراغ مدینہ میں جلا تھا، وہ 10 محرم کو بجھایا نہیں جا سکا، بلکہ اس کی روشنی تاقیامت عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ یہ تین شعبان کی ولادت تھی، جس نے 10 محرم کو قیامت تک کے لیے حق اور باطل کی پہچان واضح کر دی۔
یہ وہی حسینؑ ہیں، جو نبی کے سینے پر کھیلتے رہے، مگر کربلا میں نیزے کی انی پر سوار ہو کر بھی دنیا کو سکھا گئے کہ سر دینا قبول ہے، مگر سر جھکانا قبول نہیں۔آج جب دنیا ظلم و جبر کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، جب حق کی آواز دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو حسینؑ ابن علیؑ ہر مظلوم کے لیے امید کا استعارہ بن کر زندہ ہیں۔ فلسطین، شام، لبنان سے لیکر غزہ پاکستان پاراچنار تک ہر ظالم کے خلاف اٹھنے والی آواز میں حسینؑ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ تین شعبان کا دن فقط حسینؑ کی ولادت کا دن نہیں، بلکہ وہ دن ہے، جب حق کو ایک ایسی طاقت میسر آئی، جو رہتی دنیا تک یزیدیت کے خلاف اعلانِ جنگ بنی رہے گی۔ حسینؑ ابن علیؑ صرف ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک پیغام اور ایک انقلاب ہیں۔
ہر سال جب 3 شعبان کا دن آتا ہے تو دنیا بھر میں چراغاں ہوتا ہے، عاشقانِ حسینؑ ان کے میلاد کی خوشی میں محبت کے نذرانے پیش کرتے ہیں، یہ مستحسن عمل ضرور ہے مگر کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینؑ کی ولادت کا جشن منانے کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ ظاہری خوشی کے ساتھ ان کے اصولوں پر عمل کیا جائے، سچائی کے راستے پر چلا جائے اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے۔ پس تین شعبان کی خوشی صرف اس دن تک محدود نہ رہے، بلکہ ہماری زندگیوں میں حسینیت کی روشنی ہمیشہ جگمگاتی رہے، کیونکہ حسینؑ ابن علیؑ صرف محبوبِ اہلِ اسلام نہیں، بلکہ محبوبِ عالم ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ دنیا کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں، جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتے بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید روشن ہوتے جاتے ہیں۔حسین ابن علیؑ کا نام انہی میں سے ایک ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کا ذکر آتے ہی قربانی، صداقت، جرات اور انسانیت کے اعلیٰ ترین اصول ذہن میں آجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسینیت کیا ہے؟ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حسینیت ایک نظریہ ہے، ایک انقلاب ہے، حسینت ایک ایسا نور ہے، جو ظلمت کے ہر اندھیرے میں روشنی بن کر چمکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی فرد، قوم یا ملت کسی ظالم کے خلاف اٹھتی ہے، حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے اور باطل کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے تو دنیا کہتی ہے کہ یہی حسینیت ہے۔ ہماری زندگیوں میں حسینیت اسی وقت جگمگا سکتی ہے، جب ہم امام حسینؑ کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتاریں۔ حسینیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: حق پر ڈٹے رہو، چاہے پوری دنیا مخالفت کرے۔ ظلم کو قبول نہ کرو، چاہے قیمت جان دینی پڑے۔ مظلوم کا ساتھ دو، چاہے خود مشکلات میں پڑ جاو۔ باطل کے خلاف کھڑے ہو جاؤ، چاہے تنہاء رہ جاؤ۔"
کیا آج کی دنیا میں ہمیں ان اصولوں کی ضرورت نہیں۔؟ کیا آج سچائی دبائی نہیں جا رہی۔؟ کیا آج مظلوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا آج ظالم طاقتور اور مظلوم کمزور نہیں دکھائی دیتا۔؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی حسینیت کی روشنی کی ضرورت ہے اور یہی روشنی ہماری زندگیوں میں تب جگمگائے گی، جب ہم خود کو حسینؑ کے کردار کا عکس بنا لیں گے۔ توجہ رہے کہ حسینیت صرف عزاداری نہیں، کردار بھی ہے۔ جب محرم آتا ہے تو ہم حسینؑ کا غم مناتے ہیں، عزاداری کرتے ہیں، مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری اور باعثِ ثواب ہے، لیکن ہماری عزاداری کا مقصد تب پورا ہوگا، جب ہم کردار حسینی کو اپنی زندگی کے لئے چراغ راہ قرار دیں گے۔
اگر ہم کسی ظالم کی حمایت کر رہے ہیں تو کیجئے، ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم کسی مظلوم کی فریاد کو نظر انداز کر رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم سچ بولنے سے گھبرا رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم حق کے بجائے مفادات کے راستے پر چل رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ حسینیت ہمیں صرف آنسو بہانے کی نہیں، بلکہ عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ حسینیت کا پیغام ہے کہ: "ظالم کے خلاف لڑنا صرف کربلا تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر دور میں لازم ہے۔ آج جب دنیا میں ناانصافی، ظلم، کرپشن اور خود غرضی عام ہوچکی ہے، ایسے میں حسینیت ہی وہ راستہ ہے، جو ہمیں ان اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں حسینیت کی روشنی جگمگائے تو ہمیں عملی طور پر بدلنا ہوگا۔ حسینیت ذمہ داری نبھانے کا نام ہے۔ حسین ابن علیؑ کی ذات صرف ماضی کا ایک روشن ستارہ نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی مینارہ نور ہے۔ولادت باسعادت حضرت امام حسین علیہ السلام مبارک۔۔
مبارک ہو اے اہلِ ایمان سبھی کو
یہ آیا ہے میلاد شبیرؑ کا دن
خوشی میں مہکنے لگا ہے مدینہ
چمکنے لگا آسمانِ مدینہ
چراغِ ہدایت، سفیرِ شرافت
حسین ابنِ حیدرؑ امامِ شہادت
چمکنے لگے ہیں ستارے فلک پر
نبیؐ نے کہا مرحبا مرحبا
نبیؐ نے لیا گود میں اور فرمایا
حسینؑ و علیؑ حق کا محور رہیں گے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہم حسینیت سے دور ہیں مظلوم کا ساتھ حسین ابن علی ظالم کے خلاف انسانیت کے رہے ہیں تو ہے تو دنیا تو ہم حسین تین شعبان کے اصولوں حسینیت کی کی قربانی کی روشنی کرتے ہیں کی ولادت ایک ایسا یہ ہے کہ ہے کہ آج باطل کے کو اپنی کرتی ہے کا نام کے لیے کیا آج اگر ہم آج بھی
پڑھیں:
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔
حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔
جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔
یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔
اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔
لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔
دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔
تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔
مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم