Islam Times:
2025-04-25@09:34:21 GMT

3 شعبان۔۔۔ ولادتِ محبوبِ عالم، حسین ابن علیؑ مبارک

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

3 شعبان۔۔۔ ولادتِ محبوبِ عالم، حسین ابن علیؑ مبارک

اسلام ٹائمز: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسینیت کیا ہے؟ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حسینیت ایک نظریہ ہے، ایک انقلاب ہے، حسینت ایک ایسا نور ہے، جو ظلمت کے ہر اندھیرے میں روشنی بن کر چمکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی فرد، قوم یا ملت کسی ظالم کیخلاف اٹھتی ہے، حق کیلئے آواز بلند کرتی ہے اور باطل کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے تو دنیا کہتی ہے کہ یہی حسینیت ہے۔ ہماری زندگیوں میں حسینیت اسی وقت جگمگا سکتی ہے، جب ہم امام حسینؑ کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتاریں۔ حسینیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: حق پر ڈٹے رہو، چاہے پوری دنیا مخالفت کرے۔ ظلم کو قبول نہ کرو، چاہے قیمت جان دینی پڑے۔ مظلوم کا ساتھ دو، چاہے خود مشکلات میں پڑ جاو۔ باطل کیخلاف کھڑے ہو جاؤ، چاہے تنہاء رہ جاؤ۔" تحریر: محمد حسن جمالی

ماہِ شعبان کے تیسرے دن محبوب عالم، سید الشہداء حسین ابن علی کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کی ولادت سے مدینے کی فضاؤں میں نکہتِ رحمت بکھر گئی اور زمین و آسمان نے مسرت کے نغمے گائے۔ تین شعبان کی مبارک ساعتیں تھیں، جب سیدہ کائناتؑ کی آغوش میں وہ ماہِ کامل جلوہ گر ہوا، جسے دنیا "حسینؑ ابن علیؑ" کے نام سے جانتی ہے۔ یہ دن صرف اہلِ بیتؑ کے گھرانے کے لیے خوشی کا دن نہ تھا، بلکہ یہ دن انسانیت کے لیے رحمت، عزیمت اور حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے والے امام کی آمد کا دن تھا۔ حسینؑ صرف علیؑ و بتولؑ کے بیٹے نہ تھے، بلکہ وہ پوری امت کے لیے رہبر اور ہر مظلوم کے لیے امید کی کرن تھے۔ جب آپ دنیا میں تشریف لائے تو رحمت عالمین سرور کائنات نے نومولود کو اپنی گود میں لے کر فرمایا: "حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں، اللّٰہ اس سے محبت کرے گا، جو حسینؑ سے محبت کرے۔"

یہ محض ایک فرمان نہ تھا، بلکہ اعلانِ ازل تھا کہ حسینؑ صرف ایک نام نہیں، بلکہ وفا کی وہ جیتی جاگتی تصویر ہیں، جسے کائنات کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مدینہ کی گلیوں میں جب یہ نوخیز چراغ روشنی بکھیرنے لگا تو ہر آنکھ اسے حسن و جلال پر نثار ہونے لگی۔ حسینؑ ابن علیؑ وہ چہرۂ انور تھے، جس میں نبیؐ کی مشابہت تھی، وہ لب تھے، جہاں سے صداقت جھلکتی تھی، وہ آنکھیں تھیں، جو حق کی روشنی سے منور تھیں اور وہ دل تھا، جو سراپا ایثار تھا۔ حسینؑ وہ تھے، جن کی مسکراہٹ میں نانا کی شفقت، ماں کی عظمت اور بابا کی جرات نمایاں تھی۔ وہ میدانِ کربلا کے شہسوار تو بعد میں بنے، بچپن ہی سے ان کی پیشانی پر سعادت کی روشنی چمک رہی تھی۔ وہ بچپن ہی سے سخاوت، شجاعت اور حلم کا پیکر تھے۔

تاریخِ انسانیت میں ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں، جو اپنی شخصیت، کردار، قربانی اور اصولوں کی بنا پر ہر مذہب، ہر عقیدے اور ہر دور کے انسانوں کے لیے محبوب اور مثالی بن گئے۔ امام حسینؑ فرزندِ علیؑ و بتولؑ ایسی ہی ایک ہستی ہیں، جو محبت، ایثار، صبر اور حق پرستی کی علامت بن کر عالمِ انسانیت کے دلوں میں بستے ہیں۔حسینؑ کی محبوبیت کا سب سے بڑا سبب ان کی وہ عظیم قربانی ہے، جو انہوں نے حق و صداقت کی راہ میں دی۔ 61 ہجری میں کربلا کے تپتے ریگزار میں جب یزیدیت نے اسلام کی اصل روح کو مٹانے کی کوشش کی تو حسینؑ نے اپنے خاندان اور جانثار ساتھیوں سمیت ایک ایسا موقف اختیار کیا، جو رہتی دنیا تک آزادی، عدل اور حق کی علامت بن گیا۔

انہوں نے بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرکے اپنے بچوں، بھائیوں اور دوستوں کو قربان کر دیا اور بالآخر اپنی جان دے کر یہ پیغام دیا کہ سچائی اور انصاف کے لیے مرنا قبول ہے، مگر باطل کے آگے جھکنا گوارا نہیں۔ حسینؑ صرف مسلمانوں کے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے محبوب ہیں۔ دنیا کے بڑے مفکرین، دانشور اور رہنماء ان کی قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ مشہور برطانوی مصنف چارلس ڈکنز نے کہا: "اگر امام حسینؑ کی قربانی کا مقصد دنیاوی خواہشات حاصل کرنا ہوتا، تو میں سمجھ نہیں پاتا کہ وہ اپنی بہنوں، بچوں اور عزیزوں کو خطرے میں کیوں ڈالتے؟ مجھے تو حسینؑ کی قربانی ایک عظیم قربانی لگتی ہے، جو صرف اور صرف انسانیت کی بقا کے لیے تھی۔"

محبوب وہ ہوتا ہے، جو دلوں پر راج کرے اور حسینؑ ابن علیؑ آج بھی کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ہر سال محرم آتا ہے تو دنیا بھر میں حسینؑ کے چاہنے والے ان کی قربانی کو یاد کرتے ہیں، ان کے اصولوں کو اپنانے کا عہد کرتے ہیں اور ظالموں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینؑ ایک فرد کا نہیں، بلکہ ایک نظریئے کا نام ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو ظالم کے خلاف ڈٹ جانے، مظلوم کا ساتھ دینے اور ہر حال میں حق کی راہ پر چلنے کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسینؑ صرف تاریخ کا حصہ نہیں، بلکہ ہر دور میں جبر کے خلاف مزاحمت کی سب سے بڑی علامت اور پوری انسانیت کے محبوب بن چکے ہیں۔ حسینؑ ابن علیؑ وہ عظیم المرتبت شخصیت کا نام ہے، جن کی محبت کسی مخصوص قوم، مذہب یا خطے تک محدود نہیں، بلکہ وہ محبوبِ عالم ہیں۔

ان کی زندگی انسانیت کے لیے ایک مکمل درس ہے۔ ان کی محبوبیت کا راز صرف ان کی نسبی عظمت نہیں، بلکہ یہ ان کے کردار کی رفعت میں پوشیدہ ہے۔ حسینؑ نے صرف قول نہیں، بلکہ عمل سے دکھایا کہ محبت، ایثار اور قربانی کی معراج کیا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ہر گوشے میں، ہر زبان میں، ہر مذہب کے لوگوں کے دلوں میں حسینؑ کے لیے محبت ہے۔ حسینؑ صرف مدینہ کی گلیوں میں نہیں،بلکہ کربلا کے تپتے ریگزار میں بھی زندہ رہے۔ تین شعبان کو جو چراغ مدینہ میں جلا تھا، وہ 10 محرم کو بجھایا نہیں جا سکا، بلکہ اس کی روشنی تاقیامت عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ یہ تین شعبان کی ولادت تھی، جس نے 10 محرم کو قیامت تک کے لیے حق اور باطل کی پہچان واضح کر دی۔

یہ وہی حسینؑ ہیں، جو نبی کے سینے پر کھیلتے رہے، مگر کربلا میں نیزے کی انی پر سوار ہو کر بھی دنیا کو سکھا گئے کہ سر دینا قبول ہے، مگر سر جھکانا قبول نہیں۔آج جب دنیا ظلم و جبر کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے، جب حق کی آواز دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو حسینؑ ابن علیؑ ہر مظلوم کے لیے امید کا استعارہ بن کر زندہ ہیں۔ فلسطین، شام، لبنان سے لیکر غزہ پاکستان پاراچنار تک ہر ظالم کے خلاف اٹھنے والی آواز میں حسینؑ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ تین شعبان کا دن فقط حسینؑ کی ولادت کا دن نہیں، بلکہ وہ دن ہے، جب حق کو ایک ایسی طاقت میسر آئی، جو رہتی دنیا تک یزیدیت کے خلاف اعلانِ جنگ بنی رہے گی۔ حسینؑ ابن علیؑ صرف ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک پیغام اور ایک انقلاب ہیں۔

ہر سال جب 3 شعبان کا دن آتا ہے تو دنیا بھر میں چراغاں ہوتا ہے، عاشقانِ حسینؑ ان کے میلاد کی خوشی میں محبت کے نذرانے پیش کرتے ہیں، یہ مستحسن عمل ضرور ہے مگر کافی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینؑ کی ولادت کا جشن منانے کا سب سے بڑا طریقہ یہ ہے کہ ظاہری خوشی کے ساتھ ان کے اصولوں پر عمل کیا جائے، سچائی کے راستے پر چلا جائے اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے۔ پس تین شعبان کی خوشی صرف اس دن تک محدود نہ رہے، بلکہ ہماری زندگیوں میں حسینیت کی روشنی ہمیشہ جگمگاتی رہے، کیونکہ حسینؑ ابن علیؑ صرف محبوبِ اہلِ اسلام نہیں، بلکہ محبوبِ عالم ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ دنیا کی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں، جو وقت کے ساتھ مدھم نہیں ہوتے بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید روشن ہوتے جاتے ہیں۔حسین ابن علیؑ کا نام انہی میں سے ایک ہے۔ یہ وہ ہستی ہیں جن کا ذکر آتے ہی قربانی، صداقت، جرات اور انسانیت کے اعلیٰ ترین اصول ذہن میں آجاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسینیت کیا ہے؟ اگر ہم گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حسینیت ایک نظریہ ہے، ایک انقلاب ہے، حسینت ایک ایسا نور ہے، جو ظلمت کے ہر اندھیرے میں روشنی بن کر چمکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی فرد، قوم یا ملت کسی ظالم کے خلاف اٹھتی ہے، حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے اور باطل کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتی ہے تو دنیا کہتی ہے کہ یہی حسینیت ہے۔ ہماری زندگیوں میں حسینیت اسی وقت جگمگا سکتی ہے، جب ہم امام حسینؑ کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتاریں۔ حسینیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: حق پر ڈٹے رہو، چاہے پوری دنیا مخالفت کرے۔ ظلم کو قبول نہ کرو، چاہے قیمت جان دینی پڑے۔ مظلوم کا ساتھ دو، چاہے خود مشکلات میں پڑ جاو۔ باطل کے خلاف کھڑے ہو جاؤ، چاہے تنہاء رہ جاؤ۔"

کیا آج کی دنیا میں ہمیں ان اصولوں کی ضرورت نہیں۔؟ کیا آج سچائی دبائی نہیں جا رہی۔؟ کیا آج مظلوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا آج ظالم طاقتور اور مظلوم کمزور نہیں دکھائی دیتا۔؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی حسینیت کی روشنی کی ضرورت ہے اور یہی روشنی ہماری زندگیوں میں تب جگمگائے گی، جب ہم خود کو حسینؑ کے کردار کا عکس بنا لیں گے۔ توجہ رہے کہ حسینیت صرف عزاداری نہیں، کردار بھی ہے۔ جب محرم آتا ہے تو ہم حسینؑ کا غم مناتے ہیں، عزاداری کرتے ہیں، مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ضروری اور باعثِ ثواب ہے، لیکن ہماری عزاداری کا مقصد تب پورا ہوگا، جب ہم کردار حسینی کو اپنی زندگی کے لئے چراغ راہ قرار دیں گے۔

اگر ہم کسی ظالم کی حمایت کر رہے ہیں تو کیجئے، ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم کسی مظلوم کی فریاد کو نظر انداز کر رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم سچ بولنے سے گھبرا رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ اگر ہم حق کے بجائے مفادات کے راستے پر چل رہے ہیں تو ہم حسینیت سے دور ہیں۔ حسینیت ہمیں صرف آنسو بہانے کی نہیں، بلکہ عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ حسینیت کا پیغام ہے کہ: "ظالم کے خلاف لڑنا صرف کربلا تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہر دور میں لازم ہے۔ آج جب دنیا میں ناانصافی، ظلم، کرپشن اور خود غرضی عام ہوچکی ہے، ایسے میں حسینیت ہی وہ راستہ ہے، جو ہمیں ان اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں حسینیت کی روشنی جگمگائے تو ہمیں عملی طور پر بدلنا ہوگا۔ حسینیت ذمہ داری نبھانے کا نام ہے۔ حسین ابن علیؑ کی ذات صرف ماضی کا ایک روشن ستارہ نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی مینارہ نور ہے۔ولادت باسعادت حضرت امام حسین علیہ السلام مبارک۔۔ 

مبارک ہو اے اہلِ ایمان سبھی کو
یہ آیا ہے میلاد شبیرؑ کا دن

خوشی میں مہکنے لگا ہے مدینہ
چمکنے لگا آسمانِ مدینہ

چراغِ ہدایت، سفیرِ شرافت
حسین ابنِ حیدرؑ امامِ شہادت

چمکنے لگے ہیں ستارے فلک پر
نبیؐ نے کہا مرحبا مرحبا

نبیؐ نے لیا گود میں اور فرمایا
حسینؑ و علیؑ حق کا محور رہیں گے

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ہم حسینیت سے دور ہیں مظلوم کا ساتھ حسین ابن علی ظالم کے خلاف انسانیت کے رہے ہیں تو ہے تو دنیا تو ہم حسین تین شعبان کے اصولوں حسینیت کی کی قربانی کی روشنی کرتے ہیں کی ولادت ایک ایسا یہ ہے کہ ہے کہ آج باطل کے کو اپنی کرتی ہے کا نام کے لیے کیا آج اگر ہم آج بھی

پڑھیں:

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے پہلگام واقعے کو بہانا بنایا، مشاہد حسین

مشاہد حسین سید(فائل فوٹو)۔

سیاسی رہنما اور بین الاقوامی امور کے ماہر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے بہانا بنایا، اسکیم کے تحت بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ 

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ سندھ طاس پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے، یو این سیکریٹری جنرل کو آگاہ کیا جائے کہ بھارت کی جانب سےجھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ 

مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت اگر پاکستان کا پانی روکتا ہے تو یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہوگا، بھارت پاکستان یا چین بھارت کا پانی بند کرے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ 

انھوں نے کہا کہ بھارت کو بھرپور جواب دینے کےلیے ہم ہر سطح پر تیار ہیں، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا یو این چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب، بھارتی اقدامات کا خاطر خواہ جواب دیا جائے گا، خواجہ آصف بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، کہیں بھی دہشتگردی ہو مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف بھارت نے پاکستانیوں کے ویزے منسوخ کردیے، 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم

مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت کے مقابلے میں ہمارا کیس مضبوط ہے عالمی سطح پر لیجانا چاہیے، ہمیں یہ معاملہ فوری یو این سیکریٹری جنرل تک پہچانا چاہیے۔ 

پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ جنگیں ہونے کے باوجود فغال رہا ہے۔ معاہدے اس طرح یک طرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں ہوتے۔

سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر نہ معطل اور نہ ہی ختم ہوسکتا ہے، بے چینی پیدا نہیں کرنی چاہیے، بھارت فوری پاکستان کا پانی بند نہیں کرسکتا۔ اس معاہدے میں عالمی بینک اور دیگر قوتیں ضامن رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے بھارت پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا،
بھارت وقف قانون کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج ختم کرنے کیلئے بھی کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔

احمر بلال صوفی نے کہا کہ بھارت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ پانی کے معاہدے کو معطل کرے، معاہدہ میں ایک فریق کو اختیار ہی نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی کرے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • اقوام عالم کے درمیان تعاون، باہمی احترام کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں: یوسف رضا گیلانی
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • مکار ،خون آشام ریاست
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے پہلگام واقعے کو بہانا بنایا، مشاہد حسین
  • پہلگام حملہ فالس فلیگ آپریشن، مقصد اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے، مشاہد حسین سید
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟