Daily Ausaf:
2025-09-18@20:54:49 GMT

ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ کے حوالے سے بڑی خبر آ گئی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)اسلام آباد میں ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی گئیں۔ذرائع کے مطابق ایس زیڈ بی ایم یونیورسٹی کے ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ کی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں، پی ایم ڈی سی کی خصوصی کمیٹی نے تحقیقات کی ہیں، جس کے لیے 9 رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی گئی تھی۔انکوائری رپورٹ اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی ہے، جو ہائیکورٹ میں جمع کرائی جائے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ میں گریس مارکنگ ثابت نہ ہو سکی، شکایت کنندہ ری ٹیسٹ میں گریس مارکنگ ثابت نہ کر سکے۔یاد رہے کہ ایس زیڈ بی ایم یونیورسٹی نے عدالتی حکم پر ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ کرایا تھا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ری ٹیسٹ کے امیدواران نے گریس مارکنگ کا الزام لگایا تھا، تاہم ری ٹیسٹ میں گریس مارکنگ نہیں ہوئی۔تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایم ڈی سی کونسل بیرسٹر سلطان منصور تھے، جب کہ سرکاری و نجی میڈیکل جامعات کے نمائندے بھی کمیٹی میں شامل تھے، وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر امجد سراج میمن کمیٹی کے رکن تھے۔دیگر کمیٹی ارکان میں وائس چانسلر راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر، پرنسپل آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میجر جنرل سہیل امین، وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر جواد احمد، شفا تعمیر ملت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال خان، رجسٹرار پی ایم ڈی سی ڈاکٹر شائستہ فیصل، ڈائریکٹر امتحانات ڈاکٹر امداد علی، رکن پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ایڈووکیٹ جہانگیر جدون شامل تھے۔رپورٹ کے مطابق پی ایم ڈی سی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس 27 جنوری کو منعقد ہوا تھا جس میں شکایت کنندگان اور زیڈ ایس بی ایم یونیورسٹی کے نمائندے شریک ہوئے تھے، شکایت کنندگان نے تحقیقاتی کمیٹی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، اور گریس مارکنگ کے الزامات لگائے۔30 دسمبر 2024 کو منعقد ہونے والے ایس زیڈ بی ایم یونیورسٹی کے ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ میں ملک بھر سے 12500 امیدوار شریک ہوئے تھے، اس سے قبل ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ 22 ستمبر 2024 کو ہوا تھا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیسٹ اور ری ٹیسٹ میں مقابلے کے امتحان کے مروجہ طریقہ کار اپنائے گئے، اور یونیورسٹی نے ری ٹیسٹ کا پری اور پوسٹ ہاک اینالیسز کرایا، تفصیلی تجزیے میں تمام نکات کا جائزہ لیا گیا، جس میں گریس مارکنگ کی نشان دہی نہیں ہوئی۔رپورٹ کے مطابق ایم ڈی کیٹ ری ٹیسٹ میں 2061 طلبہ نے 170 سے زائد نمبر لیے، پنجاب کے 1496 طلبہ، اسلام آباد کے 123 طلبہ، سندھ کے 29 طلبہ، بلوچستان کے 1496 طلبہ، خیبرپختونخوا کے 179 طلبہ، آزاد کشمیر کے 171 طلبہ، گلگت بلتستان کے 28، اور سابقہ فاٹا کے 14 طلبہ نے 170 سے زائد نمبر لیے۔
مزیدپڑھیں:چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کیخلاف میچ کتنا اہم، بھارتی ہیڈ کوچ اور کپتان کیا کہتے ہیں؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بی ایم یونیورسٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ری ٹیسٹ میں ایم ڈی سی

پڑھیں:

ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-7

 

جاوید احمد خان

ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔

ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔

دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔

بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈی کیٹ امتحان اب ڈومیسائل کی بنیاد پر ہوگا، پی ایم ڈی سی کا فیصلہ
  • امریکی شہریت کا حصول مزید مشکل: ٹیسٹ سخت کر دیا گیا، کیا تبدیل ہوا؟
  • پاکستانی میڈیکل یونیورسٹیز میں ڈاکٹرز اور نرسنگ کے کورس میں اے آئی بھی شامل
  • ایم ڈی کیٹ 2025ء کے لیے 1 لاکھ 40 ہزار امیدواروں کی رجسٹریشن
  • ایم ڈی کیٹ 2025ء: 1 لاکھ 40 ہزار سے زائد امیدواروں کی رجسٹریشن
  • ’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا
  • ریفری اینڈی پائی کرافٹ پاکستان کے خلاف بھارت کا ہتھیار، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے سب راز کھول دیئے
  • قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
  • پٹاخوں کے گودام میں دھماکا‘ہوم سیکرٹری ‘مالکان سے جواب طلب
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید