Express News:
2025-11-03@19:13:58 GMT

ہم انسان ہی نہیں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون علی کا تعلق لاہور سے ہے‘ یہ لوگ لاہور ائیرپورٹ کے ذریعے 30 دسمبر 2024کو عمرے کے لیے سعودی عرب گئے‘ ان کے ساتھ خاندان کے لوگ بھی تھے‘ یہ لوگ جدہ ائیرپورٹ پر اترے‘ سامان اٹھایا‘ ائیرپورٹ سے باہر آئے اور مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے‘ عمرہ کیا اور درمیانے سے ہوٹل میں رہائش پذیر ہو گئے‘ ان کا زیادہ وقت حرم شریف میں گزرتا تھا‘ فرحانہ خاتون تیسرے دن حرم سے واپس آئی تو ہوٹل میں پولیس اس کا انتظار کر رہی تھی‘ پولیس نے اسے دیکھتے ہی گرفتار کر لیا‘ اسے بتایا گیا ائیرپورٹ پر آپ کا بیگ رہ گیا تھا‘ اس میں سے منشیات نکل آئی ہیں لہٰذا آپ کو منشیات اسمگلنگ کے جرم میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

 یہ خبر خاتون کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی‘ سعودی عرب میں منشیات فروشی اور اسمگلنگ میں سزائے موت دے دی جاتی ہے‘ کیس کا فیصلہ بہت اسپیڈ سے ہوتا ہے اور اس کے بعد مجرم کو چوک میں بٹھا کر اس کی گردن کاٹ دی جاتی ہے‘ خاتون نے یہ خبریں سن رکھی تھیں چناں چہ اس کا دل بیٹھ گیا‘ خاندان کے دوسرے افراد بھی گرفتار کر لیے گئے اور انھیں حوالات میں بند کر دیا گیا‘ تفتیش شروع ہوئی تو خاتون کے سامنے ایک بیگ رکھا گیا‘ بیگ پر خاتون کے نام کا ٹیگ لگا تھا‘ خاتون سے پوچھا گیا ’’کیا یہ آپ کا بیگ ہے؟‘‘ خاتون نے فوراً انکار کر دیا‘ اس کا کہنا تھا ہم نے چھ بیگ بک کرائے تھے اور ہم نے جدہ میں یہ سارے وصول کر لیے تھے۔

 ہمارا کوئی ساتواں بیگ نہیں تھا‘ خاتون سے پوچھا گیا ’’پھر اس بیگ پر آپ کا ٹیگ کیوں ہے؟‘‘ خاتون کا جواب تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی‘‘ وہ تھوڑا سا رکی اور پھر سوچ کر بولی ’’ہم نے جب جدہ ائیرپورٹ سے اپنے بیگ لیے تھے تو میرے ایک بیگ پر ٹیگ نہیں تھا‘ میں نے اپنا بیگ پہچان کر بیلٹ سے اٹھا لیا تھا اور اسے بھی دوسرے بیگز کے ساتھ مکہ لے آئی تھی‘ تفتیشی نے خاتون کے بیان کی تصدیق کرائی تو یہ صحیح نکلی‘ اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے‘ ائیر لائین نے بھی ان کے صرف چھ بیگ بک کیے تھے اور ان بیگز پر بکنگ سٹکرز بھی موجود تھے‘ جدہ ائیرپورٹ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی بیان کی تصدیق ہو گئی لہٰذا کیس الجھ گیا‘ سعودی عرب اور پاکستان کی اینٹی نارکوٹیکس فورس کے درمیان رابطہ ہوا اور سعودی اے این ایف نے پاکستانی اے این ایف کو لکھ دیا‘ اب یہاں سے خاتون کی لک اسٹارٹ ہوتی ہے۔

یہ لوگ دین دار اور پرہیز گار ہیں‘ خاتون نے رو رو کر اللہ سے مدد مانگنی شروع کر دی‘ اللہ نے مہربانی کی اور اسے پہلے سعودی عرب میں اچھی تفتیشی ٹیم مل گئی‘ اس ٹیم نے اس کے بیان کی باقاعدہ تصدیق کرائی اور اس دن کی ائیرپورٹ کی فوٹیج بھی دیکھی‘ ائیرپورٹ کے کیمروں میں اس کے تمام بیگ بھی آ گئے اور کیمرے میں یہ بھی نظر آ گیا خاتون نے منشیات کے بیگ کی طرف دیکھا اور نہ اسے پہچاننے کی کوشش کی تھی جب کہ وہ اس کے سامنے بیلٹ پر چل رہا تھا‘ پاکستان میں بھی اسے اچھی ٹیم مل گئی‘ پاکستانی ٹیم نے بھی سر درد لیا‘ یہ بھی لاہور ائیرپورٹ گئی اور 30 دسمبر کی ساری فوٹیج نکلوا لی‘ خاتون کا نصیب اچھا تھا‘ اس دن ائیرپورٹ کے سارے کیمرے کام کر رہے تھے اور ان کیمروں میں خاتون‘ ان کی فیملی اور تمام بیگ ریکارڈ ہو گئے تھے‘ فوٹیج بار بار دیکھی گئی تو پتا چلا خاتون سچ کہہ رہی ہے۔

 اس کے پاس واقعی چھ بیگ تھے اور منشیات کا بیگ انھوں نے بک کرایا تھا اور نہ ائیرلائین نے بک کیا تھا‘ اب سوال پیدا ہو گیا یہ بیگ پھر کہاں سے آ گیا‘ اسے کس نے بک کیا اور اس پر خاتون کا ٹیگ کیسے لگ گیا؟ ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش کے لیے جب لاہور ائیرپورٹ کی مزید فوٹیجز دیکھی گئیں تو ملزم سامنے آ گیا‘ پتا چلا بیگز جب بکنگ کے بعد جہاز کی طرف لے جائے جا رہے تھے اس وقت ائیرپورٹ کے ایک پورٹر نے خاتون کے بیگ کا ٹیگ اتارا اور اپنے پاس موجود بیگ پر وہ ٹیگ لگا کر اسے جہاز کے سامان کے خانے میں رکھوا دیا‘ اے این ایف نے پورٹر کی شناخت کی اور اسے گرفتار کر لیا‘ وہ مکر گیا لیکن جب اسے فوٹیج دکھائی گئی تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ مزید تفتیش ہوئی تو پتا چلا یہ ایک منظم گروہ ہے جو اسی طرح دوسرے مسافروں کے ٹیگز اتار کر منشیات کے بیگز پر لگا دیتا ہے یوں یہ بیگ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں۔

 مسافر اسے اپنا سمجھ کر جدہ ائیرپورٹ سے باہر لے جاتے ہیں اگر اس دوران بیگ پکڑا جائے تو بے گناہ اور معصوم مسافر گرفتار ہو جاتا ہے اور اگر خوش قسمتی سے مسافر بیگ لے کر باہر آ جائے تو یہ لوگ کوریڈورز یا ٹیکسی اسٹینڈ پہنچ کر مسافر کو روکتے ہیں‘ ان سے معذرت کرتے ہیں اور پھر اسے بتاتے ہیں آپ غلطی سے ہمارا بیگ اٹھا لائے ہیں‘ مسافر فوراً مان جاتا ہے اور ان کا بیگ ان کے حوالے کر دیتا ہے اور یوں منشیات سعودی عرب پہنچ جاتی ہیں‘ بہرحال قصہ مختصر پورٹر کی نشان دہی پر 9 اسمگلر گرفتار ہو گئے‘ انھوں نے جرم کا اعتراف بھی کر لیا جس کے بعد رپورٹ‘ فوٹیجز اور مجرموں کا اعترافی بیان مکہ مکرمہ بھجوا دیا گیا جس کے بعد سعودی حکومت نے فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگوں کو رہا کر دیا لیکن مہینے بھر کی جیل میں خاندان نے جس مشکل میں وقت گزارہ اس کا اندازہ صرف یہی لوگ کر سکتے ہیں‘ آپ خود سوچیے آپ ایک عام لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوں۔

 جیسے تیسے پیسے جمع کر کے عمرے پر گئے ہوں‘ آپ کا زیادہ وقت حرم شریف میں عبادت میں گزرتا ہو اور پھر آپ کو ایک ایسے گھناؤنے جرم میں گرفتار کر لیا جائے جس کی سزا موت ہو تو پھر آپ کی کیا صورت حال ہو گی؟ فرحانہ اکرم اور اس کے خاندان کے لوگ بھی پورے مہینے اسی اذیت اور مشکل کا شکار رہے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا اور یہ لوگ صرف مہینہ بھر کی خواری کے بعد رہا ہو گئے‘ آپ ذرا سوچیے اگر خدانخواستہ اس دن جدہ ائیرپورٹ کا ایک آدھ کیمرہ خراب ہو جاتا یا لاہور ائیرپورٹ کی فوٹیج ضایع ہو جاتی یا کیمرے جواب دے جاتے یا ان لوگوں کو سعودی عرب اور پاکستان میں کوئی سست ٹیم ٹکر جاتی اور یہ لوگ تفتیش اور تصدیق پر وقت ضایع نہ کرتے تو ان لوگوں کا کیا بنتا!یہ اس وقت کہاں ہوتے؟

فرحانہ اکرم کی کہانی ثابت کرتی ہے ہم من حیث القوم کس قدر گر چکے ہیں‘ ہمارے دل میں اس سرزمین کا احترام بھی نہیں رہا جس کی طرف منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں یا جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ ہمارے لوگ کس قدر ظالم اور غلیظ ہیں آپ یہ جاننے کے لیے کسی دن سعودی حکومت سے پوچھ لیجیے‘ آپ کو خود سے گھن آنے لگے گی‘ پاکستانی یا پاکستانی بھیس میں چھپے درندے احرام‘ قرآن مجید‘ جائے نماز اور حج کی چپلوں میں منشیات چھپا کر سعودی عرب لے جاتے ہیں‘ خواتین منشیات کو جسم کے ان حصوں میں چھپا کر حجاز مقدس پہنچ جاتی ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ کام حج اور عمرے کی آڑ میں ہوتا ہے۔

 پاکستان میں بے شمار ایسے گروہ پکڑے گئے ہیں جو غریب اور مسکین لوگوں کو مفت عمرہ یا حج کی آفر کرتے ہیں‘ لوگ خوش ہو کر ان کے رزق اور عمر میں اضافے کی دعائیں کرتے ہیں لیکن جب یہ لوگ جدہ اترتے ہیں تو انھیں اس وقت پتا چلتا ہے ان کے مہربان سخی نے ان کے بیگ میں ہیروئن یا آئس چھپا دی تھی‘ یہ ظالم لوگ بزرگ عورتوں اور معصوم چھوٹے بچوں کے جسم تک میں منشیات چھپا کر سعودی عرب پہنچا دیتے ہیں‘ یہ بے گناہ لوگ بعدازاں پکڑے جاتے ہیں اور پھر ان کے سر اتار دیے جاتے ہیں‘ سعودی عرب‘ یو اے ای اور ایران میں ہر سال پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بھکاری بھی جاتے ہیں اور یہ وہاں مانگ مانگ کر ملک کا نام روشن کرتے ہیں‘ یہ بھکاری جاتے ہیں۔

 چھ ماہ کا سیزن لگاتے ہیں‘ پاکستان واپس آتے ہیں‘ عیاشی کرتے ہیں اور احرام باندھ کر دوبارہ سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں اور پھر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں لوگوں کی عقیدت سے کھیل کر مال سمیٹتے ہیں‘ ہم یو اے ای‘ عراق اور ایران میں بھی یہ گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں اور ہمیں ذرا برابر ملال یا شرمندگی نہیں ہوتی‘ اس وقت بھی ان چاروں ملکوں کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی قید ہیں اور یہ وہاں کی حکومتوں کو بتا رہے ہیں ہم کس قدر غیرت مند اور شان دار قوم ہیں‘ ہم اکثر دنیا سے شکوہ کرتے ہیں دنیا ہماری عزت نہیں کرتی‘ دنیا کیوں عزت کرے گی جب یونان یا اٹلی میں کشتی ڈوبے گی اور اس میں پاکستانی نکلیں گے‘ دنیا کے ہر ائیرپورٹ پر پاکستانی پاسپورٹس پر جعلی ویزے ملیں گے‘ ہم جب بچے اغواء کر کے ملک سے باہر بیچ دیں گے‘ جعلی نکاح ناموں پر امیگریشن اپلائی کر دیں گے۔

 یورپ میں اپنی بیٹیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ڈسٹ بینوں میں پھینک دیں گے‘ ہمارے پائلٹس اور ائیرہوسٹسز اسمگلنگ کرتے پکڑی جائیں گی یا کینیڈا میں غائب ہو جائیں گی یا باہر سے موبائل فون اسمگل کر کے لے آئیں گی اور جب لوگ سرکاری پاسپورٹ پر دوسرے ملکوں میں لینڈ کر کے غائب ہو جائیں گے تو پھر ہماری کیا عزت ہو گی؟ ہم روز اخبارات میں ائیرپورٹ سے ہیومین اسمگلر‘ جعلی ویزہ ہولڈر اور مسافر کے بیگ سے منشیات نکلنے کی خبریں پڑھتے ہیں‘ یہ خبریں دوسرے ملکوں میں بھی پڑھی جاتی ہیں‘ جب صورت حال یہ ہو گی تو پھر عزت کہاں سے آئے گی؟ آپ خود سوچیے جو لوگ عمرہ اور زیارت کو نہیں بخش رہے‘ جو اسے بھی اسمگلنگ اور ڈنکی کے لیے استعمال کر رہے ہیں‘ جو حرم شریف میں کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھیک مانگ لیتے ہیں یا جو دوسرے حاجی کی جیب کاٹ لیتے ہیں‘ کیا آپ ان کی عزت کریں گے؟ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہم مسلمان تو دور ہم دراصل انسان ہی نہیں ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لاہور ائیرپورٹ سعودی عرب پہنچ جدہ ائیرپورٹ ائیرپورٹ کے ائیرپورٹ کی ائیرپورٹ سے فرحانہ اکرم خاندان کے گرفتار کر خاتون نے جاتے ہیں خاتون کے کرتے ہیں تھے اور ہیں اور اور پھر ہو گئے اور یہ کر لیا ہے اور اور ان اور اس کے بیگ بیگ پر کے بعد کا بیگ کے لیے

پڑھیں:

سعودی عرب کو انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سپریم آڈٹ انسٹی ٹیوشنز  کی صدارت مل گئی

سعودی عرب نے انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سپریم آڈٹ انسٹی ٹیوشنز (انٹوسائی ) کی صدارت حاصل کر کے عالمی سطح پر مالی نگرانی اور احتساب کے شعبے میں اپنی قائدانہ حیثیت کو مستحکم کر لیا ہے۔

 یہ اعلان مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ انٹوسائی کی 25ویں جنرل اسمبلی کے دوران کیا گیا، جو مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی سرپرستی میں منعقد ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کا عالمی اعزاز، 2031 سے ’انٹوسائی‘ کی صدارت سنبھالے گا

جنرل اسمبلی نے اعلان کیا کہ سعودی عرب، جس کی نمائندگی جنرل کورٹ آف آڈٹ (GCA) نے کی، 2031 سے تین سالہ مدت کے لیے انٹوسائی کی صدارت سنبھالے گا۔ اس موقع پر سعودی عرب 195 سے زائد ممالک کے اعلیٰ آڈٹ اداروں کے سربراہان کی میزبانی کرے گا، جو عالمی سطح پر شفافیت، گورننس اور سرکاری کارکردگی کو فروغ دینے کی سمت میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔

ڈاکٹر حسام العنقری کا بیان

جی سی اے کے صدر ڈاکٹر حسام العنقری نے اس موقع پر خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی ان کی مسلسل سرپرستی اور تعاون کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا ’یہ اعزاز مملکتِ سعودی عرب کے بین الاقوامی مقام اور عالمی اعتماد کا مظہر ہے، جو اسے دنیا بھر میں احتساب اور آڈٹنگ کے فروغ میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔‘

ڈاکٹر العنقری نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں ادارہ جاتی آزادی، تکنیکی استعداد، انسانی وسائل کی ترقی اور جدید آڈٹ طریقہ کار میں جو اصلاحات کی گئی ہیں، وہ اس عالمی کامیابی کی بنیاد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ’سعودی عرب 2031 میں دنیا کو ریاض میں خوش آمدید کہے گا تاکہ ہم مل کر شفافیت، اچھی حکمرانی اور مؤثر حکومتی نظام پر مبنی مستقبل تشکیل دیں۔‘

بین الاقوامی کردار اور پس منظر

سعودی عرب کی جی سی اے کا انٹوسائی کے ساتھ تعلق 1977 سے ہے، جب وہ تنظیم کی رکن بنی۔ اس کے بعد سے سعودی عرب نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر نمایاں کردار ادا کیا ہے، جن میں:

عرب تنظیم برائے اعلیٰ آڈٹ ادارے (عربوسائی) کی دو مسلسل مدتوں (2022 سے) تک صدارت۔

ایشین تنظیم برائے اعلیٰ آڈٹ ادارے (ایسوسائی) کی آئندہ 2027 سے صدارت شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے سعودی خواتین کے تخلیقی جوہر اجاگر کرنے کے لیے فورم آف کریئٹیو ویمن 2025 کا آغاز

جی سی اے نے انٹوسائی کے مختلف کمیٹیوں اور منصوبوں کی قیادت بھی کی ہے، جن کا مقصد ترقی پذیر ممالک کے آڈٹ اداروں کی صلاحیت سازی اور کارکردگی میں بہتری لانا ہے، جو سعودی عرب کے عالمی احتساب کے فروغ کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

انٹوسائی کیا ہے؟

انٹوسائی گزشتہ 70 سال سے زیادہ عرصے سے دنیا کی سب سے بڑی اور باوقار بین الاقوامی تنظیم ہے جو 195 سے زائد ممالک کے اعلیٰ آڈٹ اداروں کو متحد کرتی ہے۔
اس کا مقصد شفافیت، گورننس، مالی احتساب اور عوامی شعبے کی کارکردگی میں بہتری کو فروغ دینا ہے تاکہ دنیا بھر میں شہریوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔

یہ کامیابی سعودی عرب کے لیے نہ صرف عالمی سطح پر ایک اعتماد کی سند ہے بلکہ مملکت کے 2030 وژن کے تحت شفافیت اور مؤثر طرزِ حکمرانی کے عزم کی عملی تعبیر بھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انٹوسائی سعودی عرب

متعلقہ مضامین

  • سعودی کم خرچ ایئر لائن نے لاہور کے لیے پروازیں شروع کر دیں
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • سعودی عرب کو انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سپریم آڈٹ انسٹی ٹیوشنز  کی صدارت مل گئی
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • تلاش
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • سوشل میڈیا پر وائرل سعودی اسکائی اسٹیڈیم کا راز کھل گیا
  • سعودی عرب کے’اسکائی اسٹیڈیم‘ کی وائرل ویڈیو جعلی نکلی