ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کو ملکیت میں لینے کی تجویز پر دنیابھر میں شدید ردعمل پرامریکا کی پسپائی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 فروری ۔2025 )غزہ کو ملکیت میں لینے کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد امریکی انتظامیہ پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ غزہ کے باشندوں کی کوئی بھی منتقلی عارضی ہو گی جبکہ وائٹ ہاﺅس نے اصرار کیا کہ امریکی فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی وعدہ نہیں ہے.
(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقے میں نسل کشی کے خلاف متنبہ کیا ہے جبکہ فلسطینیوں، عرب حکومتوں اور عالمی راہنماﺅں کی جانب سے بھی امریکی صدر کی تجویز پر تنقید کی گئی ہے تاہم ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ہر کوئی وہ منصوبہ پسند کرتا ہے جس کا اعلان انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاﺅس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا. امریکہ 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو کس طرح بےدخل کر سکتا ہے یا جنگ زدہ علاقے کو کنٹرول کر سکتا ہے اس بارے میں تفصیلات پیش کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا اور ہم یہاں تعمیراتی کام کریں گے ہم اس کے مالک ہوں گے وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ یہ خیال مخاصمانہ ارادے سے پیش نہیں کیا گیا تھا اور اسے ایک فراخ دلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیر نو ان کی نگرانی کی ذمہ داری لینے کی پیشکش تھی بعد ازاں وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری کارولن لیویٹ نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان 15 ماہ سے زائد عرصے کے تنازعے کے بعد غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی اعانت فراہم نہیں کرے گا. لیوٹ نے کہا کہ امریکہ کی شمولیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فوجی تعینات کیے جائیں یا امریکی ٹیکس دہندگان اس کوشش کو مالی اعانت فراہم کریں گے ادھر اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی نسل کشی کے مترادف ہو گی سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اپنی زمین پر ایک عام انسان کی طرح جینے کا حق حاصل ہونا چاہیے اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بھی کہا کہ کسی بھی قوم کو جبری طور پر بےدخل کرنا نسل کشی کے مترادف ہے فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں اور مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے فلسطینی سرزمین پر قبضے اور عوام کی بےدخلی کی کسی بھی کوشش کو مسترد کر دیا. اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں تاہم ریاض نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور کسی بھی جبری بے دخلی کو مسترد کرتا ہے یورپی یونین نے کہا کہ غزہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا ایک اٹوٹ انگ ہے متحدہ عرب امارات اور چین نے بھی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا امریکی عہدیدار لیوٹ نے کہا کہ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینیوں کو عارضی طور پر غزہ سے نکالنے کے متعلق ہے تاہم فلسطینی حکام، عرب راہنماﺅں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز قرار دے کر مسترد کر دیا ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ تجویز امریکہ کو جنگی جرائم میں براہ راست شریک بنا دے گی. ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ اسرائیل کی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ عمارتوں اور انفااسٹریکچر کو تباہ کرکے غزہ کو ناقابل رہائش بنایا جائے جس پر اس نے ایک سال کے دوران عمل کیاواضح رہے کہ اسرائیلی حملوں میں غزہ میں47ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر مانتی ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ نے کہا کہ کہ غزہ
پڑھیں:
ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔