Nai Baat:
2025-09-18@22:59:58 GMT

پنجاب سول سروس کے انتخابات

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

پنجاب سول سروس کے انتخابات

گزرے ہفتہ کی شب چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز دوست سینئرکالم نگار ملک سلمان کافون آیا ،سر جی کل پی ایم ایس ایسوسی ایشن کے انتخابات ہیں ، ہم دونوں کو انہوں نے اپنے الیکشن کے لئے انڈیپنڈنٹ آبزرور کے طور پر نوٹیفائی کیا ہوا ہے،بتائیں کتنے بجے چلیں اور جانے سے پہلے کہیں سے دیسی ناشتہ ہی کر لیں؟ملک سلمان کو ناشتوں ،کھانوں اور میزبانی کا بہت شوق ہے ، کوٹ رادھا کشن کے گلاب جامن ،ایک وقت میں میاں نواز شریف کو پسند تھے تو اب وہ سلمان کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ،وہ ہر وقت ہر کسی سے رابطے میںر ہتا ہے ،پاکستان کے تمام علاقوں میں ہونے والے فیسٹول اسے زبانی یاد ہیں ، وہاں کے لیے ٹور اور وہ بھی فری میں ارینج کرنا بھی اس کا کمال ہے،سلمان جیسے لوگ اب خال خال ہی ملتے ہیں ، میں نے کہا یار ناشتہ گھر سے کر کے آؤں گا اور گیارہ بجے کے قریب پلاک کے دفتر یعنی پولنگ سٹیشن پر ملتے ہیں۔ پروونشل مینجمنٹ سروس ،پنجاب کے افسروں کی تنظیم ہے اور اس کا ہونا صوبائی افسروں کے لئے کسی نعمت غیر مترکبہ سے کم نہیں،پچیس تیس سال قبل جب میں نے بیوروکریسی کے معاملات پر لکھنا شروع کیا تو ایک افسر چودھری کبیر ہمیں ملے بڑے ملنسار ہنس مکھ، وہ اس وقت صوبائی افسروں کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری تھے ،ان سے ہمیں صوبائی افسروں کے مسائل کا علم ہوا،بعد میں چودھری صدیق بھی ملے جو اس وقت سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور صوبائی افسروں کے صدر تھے ۔
ایک طویل عرصہ بعد رائے منظور ناصرنے صوبائی افسروں کی ایسوسی ایشن میں جان ڈالی مگر وہ ٹریک سے اتر گئے اور لگا کہ یہ افسروں کی ایسوسی ایشن نہیں کوئی ٹریڈ یونین ہے ،یہ صوبائی سروس کا غصہ اور غبار تھا جسے جائز بھی قرار دیا جا سکتا تھا مگر یہ صوبائی افسروں کے شایان شان نہیں تھا ،رائے منظور ناصر اب ایک منجھے ہوئے افسر بن چکے ہیں اور اپنی سروس کے ساتھ ساتھ انکی خدمات قرآن،حدیث اور اخلاقی لحاظ سے بھی قابل تحسین ہیں۔

وفاقی سروس اور خصوصی طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس جو پہلے ڈی ایم جی کہلاتی تھی اس کا ملک کے تمام بڑے اداروں پر ہولڈ ہے وفاق اور صوبوں میں تمام کلیدی عہدوں پر ان کا قبضہ ہے،ایک وقت میں انہیں ایسے برہمن گردانا جاتا تھا جو صوبائی افسروں کو شودر سمجھتے تھے،حالانکہ دونوں سروسز کے افسران مقابلے کا امتحان پاس کر کے سروس میں آتے ہیں ، ایک بنیادی طور پر وفاق اور وفاقی پوسٹوں اور دوسری صوبوں اور صوبائی پوسٹوں کے لیے سلیکٹ ہوتی ہے ،اب حالات مکمل نہیں مگر قدرے مختلف ہیں اور صوبائی افسروں کو ان کا مناسب حق ملنا شروع ہو گیا ہے، صوبائی سروس کے لئے آنے والا سٹف کسی طور بھی وفاقی سروس سٹف سے کم درجہ نہیں ہے ،میں بہت سے ایسے صوبائی افسروں کو جانتا ہوں جو پی اے ایس سے زیادہ قابل اور محنتی ہیں اور دوسری طرف ایسے ایسے نالائق پی اے ایس افسر بھی ملتے ہیں جو پتہ نہیں کیسے افسر بن جاتے ہیں،ایسے افسروں کے بارے میں ہی کہا جاتا ہے کہ گھروں میں انہیں ناشتہ بنا کر کوئی نہیں دیتا اور دفتر میں یہ کرسی پر سیدھے ہو کر بھی نہیں بیٹھتے اورآنے والوں سے آدھا ہاتھ ملاتے ہیں۔

پی ایم ایس ،آفیسر ایسوسی ایشن پنجاب کے انتخابات میںیونٹی پروگریس اینڈ ویلفیئرگروپ نے کامیابی سمیٹی اور عمران شمس ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے ، میاں فاروق صادق چیف الیکشن کمشنر تھے، صوبہ بھر میں تعینات پنجاب مینجمنٹ سروس سے تعلق رکھنے والے افسروں کو ان کے دفاتر اور رہائشگاہوں کے قریب ترین ووٹ کا حق استعمال کرنے کی سہولت دی گئی تھی ،پانچ بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، ملتان،فیصل آباد، بہاولپور میں پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ،ڈگنٹی اینڈ جسٹس پینل کی طرف سے صدر کے امیدوار قمر قیصرانی تھے جو فتح یاب نہ ہو سکے مگر وہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک صحت مندانہ مقابلے کی راہ ہموار کی ، نو منتخب صدر عمران شمس اپنی کامیابی کے کو اللہ کا فضل گردانتے ہیںان کا کہنا تھا کہ خدمت کو کامرانی ملی،ہمارا ماضی بے داغ اور مستقبل روشن ہے،عمران شمس ایک محنتی،دیانتدار،فرض شناس،قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے والے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں،پی ایم ایس افسروں نے اپنے حقوق کی نگہبانی کا فریضہ ان کے شانوں پر رکھا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ عمران شمس بہتر طور پر ساتھی افسروں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں گے،وفاقی اور صوبائی سروس دونوں قانون ضابطے کے مطابق معاملات کو چلانے کے لیے ہیں انہیں مل جل کر کام چلانا چاہیے۔
نو منتخب باڈی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں مگر اہم مسئلہ اہم ترین عہدوں پر صوبائی بیوروکریسی کی تعیناتی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں صوبائی بیوروکریسی کے تحفظات ہیں ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تعیناتی وفاق کرتا ہے،جبکہ یہ خالص صوبائی عہدے ہیں اور انہیں صوبائی حکومت یا انتظامیہ سے مشاورت کے بعد صوبائی معاملات کوچلانا چاہئے، صوبائی افسر بھی ایک کڑے اور کٹھن امتحان کے بعد ہی عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں،اہم عہدوں پر تعیناتی ان کاآئینی اور اخلاقی حق ہے،یہ بھی پاکستانی شہری،آئین کے تابع،رولز ریگولیشن میں جکڑے ہوتے ہیں،قابلیت اہلیت میں بھی وفاقی افسروں سے کم نہیں،پھر ان کی حق تلفی سمجھ سے بالا ہے،اس صورتحال کے ازالہ کیلئے پنجاب میں کم از کم ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری پی ایم ایس افسروں سے لینا چاہئے،تاکہ صوبائی معاملات کو صوبے کی سطح پر بہتر انداز سے چلایا جا سکے،ایک وقت تھا جب صوبائی سروس سے تعلق رکھنے والے افسران ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دوسری اہم پوسٹوں پر تعینات ہوتے تھے،اب بھی پنجاب میں بہت سے اہم عہدوں پر صوبائی افسر تعینات ہیں مگر پھر بھی یہ صوبائی بیوروکریسی کا المیہ ہے کہ صوبے میں بھی عموماً انہیںکھڈے لائن لگادیاجاتا ہے،اس وقت بھی پنجاب میں صوبائی سروس کے سینئر ترین افسران سیکرٹری شپ اور دوسری ایسی پوسٹوں پر تعینات ہیں جن کو یا تو غیر اہم گردانا جاتا ہے یا وہاں کوئی وفاقی افسر لگنا پسند نہیں کرتا حالانکہ صوبائی بیوروکریسی کے ایسے ایسے محنتی افسران ہیں جو صوبے کے انتظامی معاملات کو چلانے کیساتھ امن و امان بحال کرنے،جرائم پر قابو پانے ،مہنگائی،چور بازاری،ذخیرہ اندوزی،منافع خوری کو روکنے کے لئے اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔
کوئی صوبائی افسر اپنی تعیناتی کے دوران کتنا بھی ڈیلیور کرے،ملک و قوم کی کیسی بھی خدمت کرے، اعلیٰ ترین سطح پر اس کی وفاداری ہمیشہ مشکوک ہی رہتی ہے، کیوں؟ صوبائی بیوروکریسی میں اعلیٰ دماغ،بہترین تجربہ،جدید تربیت حاصل کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں مگر وفاداری کے اصول بدل گئے،معیار تبدیل ہو گئے،اس لئے قدر، قابلیت اہلیت اور قومی خدمات کی نہیں،پسند وہ خدمت وہ ہے جو حکمرانوں کے لئے کی جائے۔عمران شمس کی قیادت میں پی ایم ایس ایسوسی ایشن انقلابی اقدامات اٹھائے ، صوبائی بیوروکریسی کو اعتماد دے،اس کا مورال بلند کرے، تبادلوں کا خوف دلوں سے نکالے اور تبادلہ کیلئے باقاعدہ ایک طریقہ کار مقرر کرایا جائے، یہ دراصل صوبے اور سروس کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور حقدار کو اس کا حق دلانے کی کامیاب کوشش،ورنہ صوبائی بیوروکریسی یونہی باندی بنی رہے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: صوبائی بیوروکریسی صوبائی افسروں کے صوبائی افسر ایسوسی ایشن اور صوبائی معاملات کو پی ایم ایس پر تعینات افسروں کو اور دوسری افسروں کی ہیں مگر سروس کے ہیں اور کے لئے

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • جامعات کی خود مختاری پر سیاسی کنٹرول
  • جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر سوال اٹھا دیا
  • سب انسپکٹر کی بھرتیاں، پنجاب پبلک سروس کمیشن نے اشتہار جاری کردیا
  • وزیرآباد کیلئے الیکٹرک بس سروس کا افتتاح، سیلاب کے باوجود ترقیاتی کام نہیں روکے: مریم نواز 
  • صوبائی محتسب اعلیٰ کی زیرصدارت اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت سے متعلق اجلاس
  • نوجوانوں کیلئے سنہری موقع، پنجاب پولیس میں سب انسپکٹرز کی بھرتی
  • وزیراعلیٰ پنجاب سرگودہا میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح 19 ستمبرکو کریں گی، کمشنر
  • وزیرآباد میں پہلی بار الیکٹرک بس سروس کا آغاز،گوجرانوالہ میٹروبس منصوبہ جلد شروع ہوگا،مریم نواز
  • صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز