ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، وعدے اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ڈونلڈٹرمپ کے بطورصدرانتخاب نے نہ صرف امریکی سیاست بلکہ عالمی تعلقات میں بھی ایک نئی بحث کوجنم دیاہے۔ان کابے خوف اورغیرروایتی رویہ، مختلف معاملات پرسخت بیانات،اورفیصلے کرنے کامنفرد انداز دنیابھرکے ممالک کے لئے حیرانی کاباعث بن رہاہے۔ ان کی صدارت کے پہلے دورمیں گرین لینڈکوخریدنے کی پیشکش اوراب اس پر عسکری طاقت کے زورپر امریکا میں شامل کرنا،پاناما کینال اورکینیڈاپرسخت بیانات،غزہ کوپاک کرنے کے منصوبے کومصراوراردن کی جانب سے مستردکیاجانااور ٹی وی پرسی این این کی جگہ فاکس نیوزکے غالب آنے جیسے عوامل نے عالمی سیاست پرگہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
صحافیوں کے ساتھ 20منٹ کی گفتگوکے دوران ٹرمپ نے تصدیق کی کہ انہوں نے رات گئے کئی سرکاری اداروں کے آزاد نگرانوں کوبرطرف کردیا ہے۔ اس اقدام نے امریکی سیاسی نظام میں نگرانی اورتوازن کے اصول کوکمزورکیا۔مزید برآں انہوں نے کہاکہ امریکا گرین لینڈکواپنی سرزمین کے طورپرحاصل کرے گا، جس سے ان کے عالمی جغرافیائی عزائم ظاہرہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے مصراوراردن سے مزید فلسطینیوں کوپناہ دینے کامطالبہ کیا،جوبظاہرپورے فلسطین کواسرائیل میں ضم کرنے کی ایک خواہش کا عکاس ہے۔اس نے مشرق وسطی میں کشیدگی کومزیدبڑھادیاہے اورمسلم ممالک کے ساتھ امریکاکے تعلقات کومزیدپیچیدہ بنایاہے۔
ٹرمپ کابے خوف رویہ اورغیرروایتی سیاست امریکی تاریخ کاایک منفردباب ہے۔ان کے دور حکومت نے عالمی سیاست میں ہلچل مچائی اورامریکا کے اندرونی اوربیرونی تعلقات کونئی جہت دی ہے تاہم ان کی پالیسیوں کے طویل المدتی اثرات کااندازہ لگاناابھی باقی ہے۔کیاان کا دورحکومت امریکاکوایک مضبوط اور خودمختارملک بنائے گایایہ عالمی سیاست میں امریکاکے کردارکوکمزور کرے گا؟یہ سوال وقت کے ساتھ مزید واضح ہوگا۔
سوال یہ ہے کیاٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پرچین خاموشی اختیار کرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھر شمالی کوریاکاخطرہ سامنے آکرٹرمپ کوپسپائی اختیار کرنے پرمجبورکردے گا۔ کیا چین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااورایران،افغانستان کے علاوہ روس کی مدد سے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرورسوخ مزید بڑھا دے گا؟
سوال یہ ہے کیاٹرمپ کاموجودہ دورِاقتدار امریکاکومضبوط کرے گایامزیدکمزورکردے گا؟دنیاکے مختلف حصوں میں جاری جنگ کے شعلوں کوبجھانے کی کوشش ہوگی یاپھراس پر مزید تیل چھڑک کرٹرمپ اپنے مقاصدکی تکمیل کے خواہاں ہیں؟کیا35ممالک سے زائد ممالک میں امریکی جارحیت کے جواب میں امریکا کے حصے میں جورسوائی آئی ہے،اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی یاامریکاکی مضبوط لابی ٹرمپ کوجاری پالیسیوں کے تسلسل سے پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دے گی؟یہ وہ تمام سوالات ہیں،جن کاآج کے مضمون میں جائزہ لینے کی کوش کرتے ہیں۔
صدرٹرمپ کااپنی مرضی سے دنیاکوچلانے کا خواب،ان کی پالیسیوں،بیانات اورعالمی تعلقات پر واضح جھلکتاہے تاہم،دنیاایک پیچیدہ اورکثیرالجہتی نظام پرمبنی ہے جہاں طاقتور ریاستوں کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے، علاقائی اتحاد،اورعوامی رائے بھی اہم کرداراداکرتے ہیں۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ اپنی خارجہ اورداخلی پالیسیوں کے ذریعے امریکا کی طاقت کوبلندکریں اوردنیاکے معاملات پراپنی مرضی مسلط کریں لیکن عالمی ردعمل،اندرونی مزاحمت اورعالمی نظام کی حقیقت ان کے راستے کی آہنی دیواریں ثابت ہوسکتی ہیں۔
ان کی پالیسیاں جیسے مسلم ممالک پرسفری پابندیاں،ایران پرسخت پابندیاں،اوراتحادی ممالک کے ساتھ کشیدگی پیداکرنا،دنیاکے مختلف خطوں میں امریکا کے اثرورسوخ کومحدودکر رہی ہیں۔چین اورروس جیسے طاقتور ممالک اس خلاکوپرکرنے کے لئے آگے آ رہے ہیں۔ موجودہ حالات بھی اس کااشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی سیاست میں بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کومکمل طور پر نافذکرنا ممکن نہیں۔کانگریس،عدلیہ،اورعوامی دبائو جیسے عوامل ان کے اختیارات کومحدودکرتے ہیں۔
دنیاکوچلانے کے لئے نہ صرف طاقت،بلکہ تعاون، اعتماد،اورانصاف پرمبنی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ٹرمپ کے اقدامات، جیسے کہ فلسطین کے مسئلے پریکطرفہ اسرائیل کی حمایت ،اوراتحادیوں کومالی دبائومیں لانا، ان عناصرکے خلاف ہیں۔اس مضمون میں،ہم ان موضوعات کاتفصیل سے جائزہ لیں گے اوریہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ٹرمپ کاموجودہ دور اقتدارامریکاکو مضبوط کرے گایاکمزور۔
ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسی پالیسیوں کاوعدہ کیاجوامریکی عوام کی ترجیحات کوسامنے رکھتی تھیں۔’’امریکا فرسٹ،سب سے پہلے امریکا‘‘ کے نعرے نے عوام کویہ تاثردیاکہ ٹرمپ امریکاکوعالمی معاملات سے دوررکھتے ہوئے قومی مفادات پرتوجہ مرکوز کریں گے۔تاہم،ان کے اقدامات اوربیانات نے ایک مختلف تصویرپیش کی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے ڈنمارک کوگرین لینڈ خریدنے کی پیشکش ایک غیرروایتی اورغیرمتوقع اقدام تھا۔اس پیشکش کوعالمی سطح پر حیرت اورمذاق کے ساتھ دیکھاگیا،لیکن اس نے امریکاکی جغرافیائی اوراقتصادی اسٹریٹجی پرروشنی ڈالی۔گرین لینڈقدرتی وسائل سے مالامال ہے اوراس کی جغرافیائی حیثیت چین اورروس کے اثرورسوخ کے خلاف ایک اہم دفاعی چوک ہے۔تاہم، ڈنمارک اور گرین لینڈکے حکام نے اس پیشکش کوسختی سے مستردکیا،جس سے ٹرمپ کومایوسی کاسامناکرناپڑا۔
برطانیہ کے مشہوراخبار’’فنانشل ٹائمز‘‘کے رچرڈ ملنز نے اپنے مضمون میں اس معاملے کی حساسیت اوراہمیت پرٹرمپ پالیسیوں پرمتنبہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ڈنمارک کے وزیراعظم میٹ فریڈرکسن کے ساتھ 45منٹ کی فون کال کی، جسے پانچ موجودہ اورسابق سینئر یورپی حکام نے فنانشل ٹائمزکوآگ اور تصادم کے طورپر بیان کیا۔حکام نے کہاکہ ڈنمارک کی حکومت’’بحران کے موڈ‘‘میں ہے جب ٹرمپ کی جانب سے نیٹوکے اتحادی سے علاقہ چھیننے کے لئے فوجی کارروائی کو مسترد کرنے سے انکار کرنے اوراس کے خلاف ٹارگٹ ٹیرف کی دھمکی دینے کے بعدغیرمعمولی قدم اٹھایا گیا۔ جزیرے کے شمال میں گرین لینڈ میں امریکاکاپہلے ہی واحدفوجی اڈہ موجودہے۔
وہ اپنے مضمون میں آگے چل کرلکھتے ہیں، یورپی ممالک ڈنمارک کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں پر خوداس کے کراس ہیئرزمیں شامل ہوئے بغیرردعمل ظاہرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کچھ لوگوں نے فریڈرکسن پرزوردیاہے کہ وہ امریکی صدرکے خلاف ’’لڑائی‘‘کریں۔اب تک،ڈنمارک کے وزیراعظم نے اصرارکیا ہے کہ گرین لینڈ فروخت کے لئے نہیں ہے لیکن انہوں نے آرکٹک میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی کا خیرمقدم کیاہے۔
گرین لینڈ،پاناما کینال اورکینیڈاکے متعلق ٹرمپ کے بیان اورجوابی ردعمل پرپاناماکینال کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل میں تفصیلا ً لکھ چکاہوں۔پاناماکینال جوکہ عالمی تجارت کے لئے ایک اہم راستہ ہے،پرٹرمپ کے بیانات نے عالمی تجارتی نظام میں امریکاکی بالادستی کے بارے میں ان کے خیالات کوظاہرکیااورکینیڈا کے بارے میں سخت بیانات اورتجارتی معاہدوں پردوبارہ مذاکرات کے مطالبات نے امریکاکے شمالی ہمسائے کے ساتھ تعلقات کوکشیدہ کرنے کے اقدامات ایک ایسے صدرکی عکاسی کرتے ہیں جو امریکاکے معاشی مفادات کوہرقیمت پرتحفظ دیناچاہتاہے،چاہے اس کے لئے دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی طرح اپنی انتخابی مہم میں ہی ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کے حق میں کھل کرحمایت کامظاہرہ کرکے اپنی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کاعندیہ دے دیا تھا، جس کاثبوت یروشلم کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے اورامریکی سفارتخانے کووہاں منتقل کرنے میں نظرآیا تھا۔ اب غزہ کو’’پاک‘‘کرنے کے منصوبے نے مشرق وسطیٰ میں مزیدتنازعات کوجنم دے دیاہے۔مصراوراردن جیسے اہم عرب ممالک نے اس منصوبے کومستردکردیاہے جوکہ فلسطینی عوام کے حقوق کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔ان ممالک کے ردعمل نے ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں پرسوالیہ نشان لگادیے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی پالیسیوں میں امریکا گرین لینڈ کرتے ہیں ممالک کے کی کوشش ٹرمپ کی کے ساتھ کرنے کے ٹرمپ کے کے خلاف کے لئے کرے گا
پڑھیں:
ماہ نور چمیہ کا عالمی ریکارڈز کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ قابلِ فخر ہے، وزیر اعظم
طالبہ ماہ نور چیمہ نے اے لیول میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اے لیول کا امتحان 24 اے گریڈز کے ساتھ پاس کر کئی عالمی ریکارڈ توڑ دیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ہونہار طالبہ ماہ نور کو زبردست خراج تحسین پیش کیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ماہ نور کی غیر معمولی کامیابی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
I fondly recall meeting Mahnoor, a young and gifted mind, alongside my Quaid and elder brother Mian Nawaz Sharif.
Her remarkable achievement of 24 A-Level distinctions, breaking 4 world records, and securing admission to a prestigious seat of learning, is truly inspirational.… pic.twitter.com/hUXfLVkOug
وزیراعظم نے کہا کہ ماہ نور کی عالمی ریکارڈز کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ قابلِ فخر ہے، ماہ نور سے قائد نواز شریف کے ہمراہ ملاقات آج بھی یاد ہے، ہم سب کو تم پر فخر ہے، ماہ نور،
جب آپ اپنی قوم کے بچوں کی مثبت انداز میں رہنمائی کریں تو پھر دنیا میں ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ ماہ نور چیمہ نے اے لیول میں 24 اے حاصل کر کے ملک کا نام روشن کیا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے نوجوانوں کو ڈنڈے نہیں بلکہ لیپ ٹاپ تھمائے pic.twitter.com/fP0OHuiRaP
— Rashid Nasrullah (@RashidNasrulah) August 16, 2025برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 18 برس کی ماہ پاکستانی نژاد برطانوی طالبہ ماہ نور چیمہ کو شاندار کامیابی کے سبب آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور ایگزیٹر کالج میں داخلہ مل گیا ہے۔ ماہ نور چیمہ نے اے لیول کے امتحان میں عالمی سطح 4 اور جی سی ایس ای کو ملا کر متعدد عالمی سطح کے ریکارڈ بنائے ہیں۔
پاکستانی نجی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہ نور چیمہ کے والد بیرسٹر عثمان چیمہ نے کہا کہ ماہ نور نے اے لیول امتحان میں 4 عالمی ریکارڈز بنائے، ان کی بیٹی کیلئے میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنا خواب تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ماہ نور چیمہ نے اپنی تعلیمی قابلیت کا لوہا منوایا ہے اس سے قبل 16 سال کی عُمر میں بھی ماہ نور چیمہ نے ایک منفرد تعلیمی اعزاز حاصل کیا تھا کہ جب انھوں نے جی سی ایس سی (جنرل سرٹیفیکٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن) کے 34 مضامین میں 99 فیصد ’اے سٹارز‘ حاصل کیے تھے۔
’مجھے کتابیں پڑھنے اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا جنون تھا جبکہ میرے ہم عمروں کی دلچسپی اور زندگی کے مقاصد مختلف تھے۔‘
ماضی میں طالب علم کل نمبروں کو بڑھانے کے لیے بورڈز کے امتحان میں مضامین کو دہرایا کرتے تھے، لیکن ماہ نور چیمہ نے مجموعی طور پر 19 اے اسٹار اور اے گریڈز حاصل کیے، ان کا یہ نتیجہ اعلیٰ تعلیمی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔
ماہ نور چیمہ نے دوسرا نیا عالمی ریکارڈ اے لیول کے امتحان میں سب سے زیادہ اے اسٹار اور اے گریڈز لے کر بنایا۔ ماہ نور چیمہ کا تیسرا عالمی ریکارڈ سی ایس ای، او لیول اور اے لیول میں سب سے زیادہ اے گریڈز حاصل کرنے کے حوالے سے ہے۔
پاکستانی نژاد طالبہ کا چوتھا عالمی ریکارڈ یہ ہے کہ انھوں نے 24 اے لیول اور 34 جی سی ایس ای کے امتحان میں 58 مضامین کا انتخاب کیا۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہ نور چیمہ نے کہا کہ ’آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے میڈیسن میں داخلے کی پیشکش پر بہت خوش ہوں، بچپن کا خواب پورا ہوتے دیکھ کر خود کو چاند پر محسوس کررہی ہوں، اکتوبر میں آکسفورڈ یونیورسٹی جاؤں گی، زندگی کا نیا باب شروع ہونے پر خوش ہوں۔‘
کیمبرج سسٹم میں او لیول کے برابر اس تعلیم میں اکثر بچے زیادہ سے زیادہ 11 مضامین میں پاس ہونا کافی سمجھتے ہیں۔ مگر ماہ نور نے فلکیات سے لے کر ریاضی اور انگلش سے لے کر لاطینی زبان، ان تمام تر مضامین کے امتحانات میں نمایاں نمبر حاصل کیے جن میں ان کی دلچسپی تھی۔
انھوں نے سنہ 2023 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انھیں شروع میں ہی یہ معلوم ہوگیا تھا کہ وہ دوسرے بچوں سے الگ ہیں کیونکہ ان کے شوق عام لوگوں جیسے نہیں۔‘
’مجھے کتابیں پڑھنے اور نت نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا جنون تھا جبکہ میرے ہم عمروں کی دلچسپی اور زندگی کے مقاصد مختلف تھے۔‘
شاید یہی وجہ تھی کہ سکول میں پڑھنے کا ان کا تجربہ کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ ’جو سبق کلاس میں پڑھایا جاتا، میں وہ پہلے پڑھ چکی ہوتی تھی اور اس سے آگے کا جاننا چاہتی تھی۔‘
ماہ نور چاہتی تھیں کہ وہ 50 مضامین میں بہترین کامیابی حاصل کرتیں تاہم برطانیہ کے نظام تعلیم کے قوائد کے تحت انھوں نے سکول میں 10 مضامین منتخب کر کے پڑھے اور باقی مضامین کا پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر امتحان دیا۔ یوں دو سالوں میں انھوں نے 34 مختلف مضامین میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔
یعنی ماہ نور غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والی طالبہ تھیں اور شاید اسی وجہ سے ان کے والدین کے لیے بھی ان کی پرورش ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔
ماہ نور کے والدین اپنے تین بچوں میں سب سے بڑی بیٹی ماہ نور کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ مگر انھوں نے ان کی ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین تعلیم فراہم کرنے پر اپنا قیمتی وقت اور وسائل صرف کیے ہیں۔
ان کی والدہ طیبہ چیمہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ماہ نور شروع سے ہی ان کے بقیہ دو بچوں سے کافی مختلف رہیں اور اسی وجہ سے ان کو ماہ نور پر خاص توجہ دینا پڑی۔‘
ماہ نور کے بچپن کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو مطالعے کا غیر معمولی حد تک جنون تھا اور ’وہ جو بھی پڑھتی انھیں وہ یاد ہوجاتا۔‘
’ہم جب بھی کتابیں لینے جاتے تو وہ پوری پوری سیریز خریدنے پر مصر رہتی۔ مجھے لگتا تھا کہ اس کو ختم ہونے میں 10 سے 12 دن لگیں گے مگر وہ دو دن میں سب ختم کر لیتی تھی اور پھر دوسری کتابیں لے لیتی تھی۔‘
ماہ نور کے ریڈنگ کے شوق کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ ’جب میتھ بھی پڑھتی تھی تو اپنی بریک کے دوران کتاب اُٹھا کر پڑھنے میں مشغول رہتی۔‘
طیبہ کے مطابق غیر معمولی ذہین بچہ اپنی عمر سے آگے کا سوچتا ہے۔ وہ سوال کرتا ہے اور اپنی رائے بھی دیتا ہے۔
’ماہ نور کو پالنا دیگر بچوں کے مقابلے مشکل تھا۔ ایسے جینیئس بچے کو آپ باتوں سے نہیں بہلا سکتے۔ آپ نے انھیں منطق سے سمجھانا ہوتا ہے اور انھیں جواز دیے بغیر مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’پہلے مجھے لگتا تھا کہ بچوں کو ہر بات میں اتنی مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ میں نے جان لیا اور ہم ایک ہی پیج پر آ گئے۔‘
طیبہ کی یہی کوشش رہی کہ ماہ نور کو زیادہ توجہ ملنے سے ’باقی بچوں کو اپنے اندر کمی محسوس نہ ہو۔۔۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی کو بھی کسی پر سبقت نہ دی جائے۔‘
ماہ نور نے دو سال کا کورس ’تین ماہ میں یاد کر لیا‘ماہ نور کی ذہانت ان کے والدین کے سامنے روز اول سے عیاں تھی۔
طیبہ چیمہ نے بتایا کہ انھوں نے جب اپنے ایک عزیز کے بچوں کی ریاضی کی کتاب دیکھی تو انھیں وہ کورس بہت پسند آیا اور انھوں نے سوچا کہ وہ اپنے بچوں کو یہی کورس پڑھائیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ماہ نور جب ڈیڑھ سال کی تھی تو میں اپنی ایک فیملی فرینڈ کے پاس گئی۔ وہ اپنی بیٹی کو 11 پلس (گرائمر سکولز میں داخلے کے لیے لازمی ٹیسٹ) کی تیاری کروا رہے تھے تو ان کتابوں نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں نے اپنے بچوں کے لیے بھی ایسا سوچا۔‘
وہ اس وقت پاکستان میں تھے تو انھوں نے 2014 میں 11 پلس کی تیاری کروانے کے لیے انگلینڈ سے کتابیں منگوائیں۔
’اس وقت ماہ نور کی عمر سات سال تھی۔ پاکستان میں او لیول میں پڑھایا جانے والا میتھ کا کورس، جو ڈی ون سے ڈی فور تک ہوتا ہے، وہ ماہ نور نے سات سال کی عمر میں ہی ختم کر لیا۔ جتنا بھی اسے پڑھایا جاتا وہ اس کو فوری سمجھ کر ذہن نشین کر لیتی۔‘
2016 میں ماہ نور کے والد اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر برطانیہ منتقل ہو گئے تاکہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکیں۔
طیبہ نے بتایا کہ برطانیہ آمد کے بعد ماہ نور نے وہ کورس تین ماہ میں مکمل کر لیا جس کے لیے عموماً دو سال درکار ہوتے ہیں۔ ’آہستہ آہستہ ماہ نور آگے بڑھتی گئی اور چھ ماہ میں ڈکشنری پر بھی عبور حاصل کر لیا۔‘