لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2025ء)اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی بلکہ معیشت کی ترقی کے لئے بھی مل کر کام کرنا ہوگا، کراس بارڈر مسائل کوبھی مل کر حل کیاجاسکتا ہے، سی پی اے کانفرنس میں شامل ممالک کے صوبوں کو اکٹھا لے کر چلنا ہوگا، اس وقت دنیا میں گڈ گورننس کے مسائل کا سامنا ہے جسے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے،پاکستان کی ابھرتی ہوئی جمہوریت غربت، ماحولیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل ترقی، اور عوامی صحت جیسے مسائل کے حل کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایشیا ء اور جنوب مشرقی ایشیا ء کی پہلی سی پی اے کانفرنس کے افتتاح کے بعد خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

کانفرنس سے اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان ،سپیکر سری لنکا پارلیمنٹ ڈاکٹر جگت وکرہ ،ملائیشین سینٹ ممبر سینیٹر پیٹر ڈینگم ،ڈپٹی سپیکر مجلس آف مالدیپ احمد ناظم ،سی پی اے ایگزیکٹیو ممبر ڈاکٹر کرسٹوفر اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

ایشیا ء اور جنوب مشرقی ایشیا ء کی پہلی سی پی اے کانفرنس کا تلاوت قرآن پاک سے آغاز ہوا جس میں اراکین پنجاب اسمبلی نے بھی بھرپور شرکت کی ۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کانفرنس کے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج میں دولتِ مشترکہ پارلیمانی ایسوسی ایشن ( سی پی اے ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے پہلے مشترکہ علاقائی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نہایت خوشی محسوس کر رہا ہوں،یہ اجتماع جامع ترقی اور پائیدار مستقبل کے لیے ہماری مشترکہ وابستگی کا مظہر ہے۔

سب سے پہلے، میں معزز اسپیکر پنجاب اسمبلی، ملک محمد احمد خان کو اس شاندار کانفرنس کی میزبانی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد میں اسپیکر پنجاب اسمبلی کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے پنجاب اسمبلی کے قوانین کو قومی اسمبلی کے قوانین کے برابر کیا، اس وقت دنیا میں گڈ گورننس کے مسائل کا سامنا ہے جسے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اس وقت نوجوانوں،خواتین ، اقلیتوں کو مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تین ہزار قومی اسمبلی کے انٹرنیز کو ٹریننگ دی گئی ہے جو قومی اسمبلی میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2019ء میں اسلام آباد میں منعقدہ ہمارے آخری علاقائی اجلاس کے بعد، ہمیں اپنے مقننہ کے درمیان زیادہ روابط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پارلیمانی تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے، علاقائی تعاون کو مزید فروغ دیا جا سکے اور جمہوریت، بہتر طرز حکمرانی، اور پائیدار ترقی کے لیے اجتماعی کوششیں کی جا سکیں۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہم مالدیپ کو دوبارہ دولتِ مشترکہ پارلیمانی برادری میں خوش آمدید کہتے ہیں،پاکستان اور مالدیپ کے درمیان تاریخی پارلیمانی تعاون ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ ان کی شمولیت سے ہمارا مشن مزید مستحکم ہوگا۔اسی طرح پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دیرینہ تعلقات باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہیں۔ ہم امن، تجارت اور شراکت داری کو مزید فروغ دینے کے عزم پر کاربند ہیں۔

پاکستان اور ملائیشیا کی دوستی بھی اقتصادی شراکت داری اور عوامی روابط پر استوار ہے۔ ہمیں علاقائی امن اور ترقی کے فروغ میں ملائیشیا کے کردار کو سراہتے ہیں اور پارلیمانی و اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم بنانے کے خواہاں ہیں۔ہمیں بنگلہ دیش کی غیرموجودگی کا افسوس ہے، لیکن ہمیں ان کی قیادت کی دانش مندی پر یقین ہے اور ہم جمہوری اداروں کی جلد بحالی کے منتظر ہیں۔

انہوںنے کہا کہ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آج ہمارے ساتھ بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ، آزاد جموں و کشمیر، اور گلگت بلتستان کے معزز اسپیکرز موجود ہیں۔صرف دو ماہ قبل میں نے پاکستان کی تمام مقننہ کے 18ویں اسپیکرز کانفرنس کی میزبانی کی تھی، جہاں ہم نے پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اہم فیصلے کیے تھے۔اس کانفرنس کا ایک اہم سنگ میل ’’پاکستان نیشنل گروپ آف کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن‘‘کا قیام تھا، جس کا مقصد پاکستانی مقننہ کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنا اور انہیں دولتِ مشترکہ پارلیمانی برادری میں ایک موثر کردار دلوانا ہے۔

آج دنیا بھر کی جمہوریتیں عوامی توقعات، پولرائزیشن، اور اشرافیہ کے تسلط جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔ عوام کی توقعات میں اضافہ، ایگزیکٹو کی کارکردگی پر سخت عوامی نگرانی،’’اچھی حکمرانی‘‘کی بڑھتی ہوئی بحث،یہ عوامل پارلیمانی نظام میں مزید شفافیت، عوامی شرکت، اور نجی شعبے اور تمام معاشرتی طبقات کی شمولیت کا تقاضا کرتے ہیں۔

پاکستان کی ابھرتی ہوئی جمہوریت غربت، ماحولیاتی تبدیلی، ڈیجیٹل ترقی، اور عوامی صحت جیسے مسائل کے حل کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔اس کا حل ’’مشترکہ حکمرانی‘‘میں ہے، جو اتفاقِ رائے اور اشتراکی نیٹ ورکنگ کے دو اصولوں پر مبنی ہے۔انہوںنے کہا کہ پاکستان میں قومی و علاقائی جماعتوں کا وسیع اتحاد تشکیل پایا، جس نے معیشت کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

حکومت اور سول بیوروکریسی، سول سوسائٹی، اور کمیونٹیز نے عوامی خدمات کی بہتری کے لیے مضبوط نیٹ ورک بنائے۔سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلی نے اعلی تعلیم کے لیے مکمل فنڈڈ اسکالرشپ، کسانوں کے لیے منصوبے، بے گھر افراد کے لیے رہائشی اسکیمیں، اور معذور افراد کے لیے خصوصی اسکیمیں متعارف کروائیں۔ سندھ: صحت اور 2022کے سیلاب متاثرین کے لیے رہائش کے بہترین منصوبے، خیبر پختونخوا: احساس پروگرام کے ذریعے سماجی بہبود کے اقدامات، بلوچستان میں آئی ٹی پر مبنی سروس ڈیلیوری، سستی سولر پینلز، اور جدید مائننگ انڈسٹری کے فروغ کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ،ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنے کے بے شمار مواقع میسر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں زچگی کی دیکھ بھال میں عالمی معیار، جس کی بدولت ماں اور بچے کی شرح اموات دنیا میں سب سے کم ہے، مالدیپ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے پائیدار حکمت عملی اپنائی گئی ، ملائیشیا میں شاندار تکنیکی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ،یہ تمام کامیاب تجربات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ علاقائی چیلنجز اور مشترکہ حل،ہم سب کو درپیش مسائل، ماحولیاتی تبدیلی، معاشی عدم مساوات، عالمی وبائیں،ان کے حل کے لیے سرحدوں سے ماورا تعاون کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں پارلیمانی تبادلے اور بات چیت بہترین پلیٹ فارمز ہیں جو علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔

انہوںنے مزید کہا کہ بطور منتخب نمائندے، ہم سب پر ذمہ داری ہے کہ حکومتوں کو موثر، منصفانہ اور سب کے لیے یکساں بنائیں۔ پاکستان کی وفاقی و علاقائی مقننہ نے خواتین، بچوں، نوجوانوں اور پائیدار ترقی (ایس ڈی جیز ) کے لیے خصوصی پارلیمانی فورمز تشکیل دیے ہیں تاکہ جامع ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔آئیے، ہم مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات، علاقائی امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں، پارلیمانی تعاون اور شفاف طرز حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ اقدامات کریں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب لوگوں کو جو مشترکہ مسائل کاسامنا ہے اس کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی بلکہ معیشت کی ترقی کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا، کراس بارڈر مسائل کوبھی مل کر حل کیاجاسکتا ہے، سی پی اے کانفرنس میں شامل ممالک کے صوبوں کو اکٹھا لے کر چلنا ہوگا۔سپیکر ایاز صادق نے آخر میں کہا کہ میں پنجاب اسمبلی، پنجاب حکومت، اور خاص طور پر لاہور کے پرخلوص اور مہمان نواز عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس کانفرنس کو ایک یادگار موقع بنایا۔آئیے، ہم سب مل کر ایک بہتر اور روشن مستقبل کے لیے قدم بڑھائیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماحولیاتی تبدیلی سی پی اے کانفرنس انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی ایاز صادق نے قومی اسمبلی پاکستان کی کے درمیان ہیں انہوں بھی مل کر ضرورت ہے کا سامنا مسائل کا سامنا ہے معیشت کی ایشیا ء کی ترقی ترقی کے کرنے کی کے لیے

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • اسپیکر قومی اسمبلی کی پارلیمانی وفد کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی
  • پاکستان کی بڑی کامیابی، چیئرمین سینیٹ بین الاقوامی پارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے چیئرمین منتخب
  • این ڈی ایم اے قائمہ کمیٹی کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا: اجلاس میں شکوہ
  • بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
  • پاکستان صحیح سمت میں چل پڑا، سب کو ملکر ترقی میں کردار ادا کرنا ہوگا: نوازشریف
  • موسمیاتی تبدیلی بھی صنفی تشدد میں اضافہ کی وجہ، یو این رپورٹ
  • معیشت کی ترقی کیلئے کاروباری طبقے کے مسائل کا حل ضروری ہے: ہارون اختر خان
  • شادی سے پہلے دلہا دلہن کی مرضی سے کونسا ٹیسٹ ہوگا؟ بل منظور کرلیا گیا