مدرسہ قاسم العلوم گلگشت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے، معاشی طور پر ریاست عدم استحکام کا شکار ہے، بلوچستان میں بھی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں بلوچوں نے اپنا ترانہ اور پرچم بنایا ہے، منظور پشتین نے کہا کہ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے کب تک چلنا ہے۔  اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ملک کو بچانے کے لیے دینی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ دینی جماعتیں ہی ملک کو بچا سکتی ہیں، جمہوریت میں الیکشن ہوتے ہیں مگر یہاں سلیکشن ہے، 8 فروری 2024 کو انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا، ہم نے 9 فروری کو ہی الیکشن کو مسترد کرکے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا تھا، جمہوریت میں الیکشن ہوتے ہیں اسلامی ریاست کا تصور تو بالکل ختم ہو گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدرسہ قاسم العلوم گلگشت میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر جے یو آئی کے ضلعی ناظم مفتی عامر محمود، جنرل سیکریٹری نور خان ہانس ایڈوکیٹ، ضلع ناظم اطلاعات رانا محمد سعید سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
 
 مولانا عبدالغفور حیدری نے مزید کہا کہ حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے معاشی طور پر ریاست عدم استحکام کا شکار ہے، بلوچستان میں بھی ریاست نام کی کوئی چیز نہیں، جہاں بلوچوں نے اپنا ترانہ اور پرچم بنایا ہے، منظور پشتین نے کہا کہ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے کب تک چلنا ہے، آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کا حق ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں، بامقصد اور بااختیار مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں، ہم اپوزیشن میں ہیں ہمیں ملک کی فکر ہے، ملک معاشی طور پر عدم استحکام سے دوچار ہے جبکہ امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہے، کیا کچے کے ڈاکو ہماری فورسز سے زیادہ طاقتور ہیں؟ کچے کے ڈاکو لوگوں کو انکے اہل خانہ کے ہمراہ اغوا کررہے ہیں، حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔

 انہوں نے پیکا ایکٹ کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر قدغن قرار دیا اور کہا کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی مجاز نہیں کیونکہ ہمارا آئین ہمیں آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کو بھی کہا کہ ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں، آخر یہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی ہے، ہم اپوزیشن میں ہیں اور ہمیں پریشانی ہے ان بڑے بڑے لوگوں کو منتخب کیا  جاتا ہے، جن کا پارلیمنٹ سے کوئی تعلق تک نہیں ہے جو بدتمیزی آج دیکھنے میں آئی ہے اس سے پہلے نہ تھی، ہم دوبارہ الیکشن کے انعقاد پر آج بھی قائم ہیں، آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دینی جماعتیں متحد ہوں جس طرح 26 ویں ترمیم پر دینی جماعتیں متحد ہوئیں اور قائد مولانا فضل الرحمن پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نام کی کوئی چیز دینی جماعتیں کہا کہ ہم نے کہا

پڑھیں:

ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے

لاہور:

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری اور کاروبار شروع کرنے میں طرح طرح کی ایسی مشکلات کہ اللہ کی پناہ، اگر کسی طریقے سے کاروبار شروع ہو جائے تو درجنوں ادارے تنگ کرنے پہنچ جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کی قیمتوں نے پوری کر دی۔

بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم دلانا مشکل اور مہنگا ترین کام، اگر تعلیم مکمل ہو جائے تو اس حساب سے نہ ملازمت اور نہ تنخواہیں، انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی اپنے بہن، بھائی اور والدین سمیت دیگر عزیز و اقارب کو روتے دھوتے ملک چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے جن میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

ایکسپریس نیوز کو محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/GOlYfc9G-jBGrqoj9.html

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔

باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔

خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی ولی عہد 22 ستمبر کو فلسطینی ریاست پر خوشخبری دیں گے، طاہر اشرفی کا دعویٰ
  • سعودی  ولی عہد  محمد بن سلمان 22 ستمبر کو فلسطینی ریاست پر خوشخبری دیں گے، مولانا طاہر اشرفی کا دعویٰ
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے