صدر ٹرمپ اور امریکا کا نظام
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، مسلسل غیرمعمولی اقدامات کررہے ہیں۔انھوں نے ایران اور عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردی ہیں، عرب میڈیا کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران پر ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جن سے اس کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان پابندیوں کا جواز یہ بتایا گیاہے کہ ایران تیل کی آمدنی اپنے جوہری، میزائل اور ڈرونز پروگرامز پرخرچ کر رہا ہے، ایران اپنی تیل کی آمدنی کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کررہا ہے لہٰذا غیرقانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔
ایران نے امریکی پابندیوں کو بحری قزاقی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو مزید بڑھایا ہے۔ اس دوران میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دی ہیگ کی عدالت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ امریکی صدر نے آئی سی سی کے اہلکاروں، ملازمین اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ ساتھ کسی ایسے شخص کے اثاثے منجمد کرنے اور سفری پابندیوں کا بھی حکم دیا جس نے عدالت کی تحقیقات میں مدد کی ہو۔
عالمی فوجداری عدالت نے پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ عدالت نے اپنے رکن ممالک سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ہرحال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کونسل کے سربراہ نے ایکس پر لکھا کہ آئی سی سی پر پابندیوں سے عدالت کی آزادی کو خطرہ ہے اور یہ عالمی فوجداری انصاف کے نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔یورپی کمیشن نے بھی حکم نامے پر افسوس کا اظہار کیا۔
صدر ٹرمپ پے درپے ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے تقریباً ساری دنیا کے ممالک متاثر ہوئے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکا میں غیرقانونی طور پر داخل ہونیوالے زیر حراست 770 بھارتی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، ان افراد کو تین امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے بھارت روانہ کیا جائے گا، اس سے پہلے بھی بھارتی تارکین وطن زبردستی بھارت پہنچائے گئے ہیں۔
ان سب کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا، بھارتی اپوزیشن مودی حکومت پر زبردست تنقید کررہی ہے۔ادھر امریکا کا نظام انصاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو روکنے کی کوشش کررہا ہے ۔ امریکی عدالت نے سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا ہے، تاریک وطن کے حوالے سے بھی امریکی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو اور ریاست الینوائے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے وہاں کی انتظامیہ تارکین وطن کی ملک بدری میں تعاون نہیں کر رہی، واشنگٹن میں نیشنل پریئر بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنائیں گے، آزادی اظہارِ رائے کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا ہوگا، انھوں نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ غزہ کے حوالے سے ان کی پیش کردہ تجویز میں امریکا کو کسی فوجی کی ضرورت نہ ہوگی۔
خطے میں استحکام آئے گا، اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کر دے گا، فلسطینیوں کوخطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت کمیونٹیز میں دوبارہ آباد کیا جا ئے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف عائد کر چکے ہیں، وہ کئی بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔ اس سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ اور عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جس انداز میں وہ اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس سے بے چینی پیدا ہونا لازمی ہے۔
چین اور کینیڈا ڈبلیو ٹی او کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں امریکا کے صدر کے اقدام اور اس کے جواب میں اٹھائے گئے اقدامات سے دنیا کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یورپی یونین نے بھی صدر ٹرمپ کے درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ٹرمپ مسلسل ایسے بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی طرز کے سامراج کی بنیاد رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ وہ پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا، پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے اعلان سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا تھا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا لیکن اب وہ دوبارہ وہی کام کرنے جارہے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان نے فلسطینیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔عالم اسلام بھی حیران ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اسے عالمی سطح پر بھی ناپسند کیا گیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ تجویز کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس قسم کے اعلانات تنازع فلسطین کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بن سکتے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔
اسرائیل نے جب غزہ جنگ شروع کی تھی تو اس وقت سے اسرائیلی پالیسی سازوں کے ایسے بیانات آرہے ہیں، جن سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی کا مقصد ہی وہ تھا جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ یعنی مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنا ۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کا حامی امریکی اور اسرائیلی طبقہ مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا ارینجمنٹ قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ غزہ پر براہ راست امریکا خود کنٹرول رکھنا چاہتا ہے تاکہ بحیرہ روم اور مشرقی وسطیٰ کی تجارت کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔
فلسطین میں دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا فارمولہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد تھی لیکن اسرائیلیوں اور امریکیوں کو یہ قبول نہ تھا اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔
1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔
جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی ایک دو لاکھ سے زائد نہ تھے جب کہ فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ لیکن آج اس خطے میں یہودی آبادی تیس پینتیس لاکھ سے بھی زائد ہوچکی ہے۔
لیکن یہاں نسل در نسل آباد فلسطینیوں کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے ۔ اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد بیانات کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔
صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی اپنے منصوبوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، اس کا پتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چلتا جائے گا لیکن آثار یہی نظر آرہے ہیں کہ دنیا کا مستقل شاید ایسا نہ ہو جیسا عالمی امن کے پیامبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا کا نظام اور جمہوری کلچرکتنا مضبوط ہے اور وہ صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے اقدامات کی کس حد تک مزاحمت کرتا ہے، اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی فوجداری امریکی صدر امریکا کے عدالت نے سے زیادہ ٹرمپ اور کے حوالے ٹرمپ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے کہ ا لیکن ا دیا ہے گیا ہے اور اس اور ان
پڑھیں:
فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-7
امیر محمد کلوڑ
فلم میں ننھا کیوین (Kevin) نیویارک کے ایک شاندار ہوٹل (Plaza Hotel) میں داخل ہوتا ہے وہ ایک شخص سے راستہ پوچھتا ہے وہ شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہوتا ہے، ٹرمپ فخریہ انداز میں گردن سیدھی رکھ کر، غرور سے مسکرا کر کہتا ہے: ’’Down the hall and to the left‘‘ یہ سین چند سیکنڈ کا ہے مگر اس میں ہی ٹرمپ کا غرور، خود اعتمادی اور طاقت کا اظہار واضح نظر آتا ہے۔ یہ ان کی ’’ریئل لائف پالیسی‘‘ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ سیاست میں بھی ’’ہوٹل پلازہ‘‘ والا رویہ صدر بننے کے بعد بھی ٹرمپ نے برقرار رکھا، ہمیشہ خود کو مرکز ِ توجہ رکھا۔ جیسے فلم میں ہوٹل ان کا تھا، ویسے ہی صدر کے طور پر وہ اکثر ملک کو اپنی ذاتی سلطنت سمجھتے ہیں ان کے فیصلے اور انداز کچھ اس طرح کے لگتے ہیں کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں: ’’یہ سب کچھ میرے کنٹرول میں ہے‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے Home Alone 2 کے صرف چند سیکنڈز درحقیقت ان کی پوری شخصیت کا ٹریلر ہیں ایک خوداعتماد، خودپسند، طاقتور، اور ڈرامائی انسان۔ وہ چاہے بزنس ہو، ٹی وی ہو یا سیاست ہر جگہ وہ ہیرو اور اسٹیج کے مالک بن کر رہتے ہیں۔
آئیے ان کا موازنہ موجودہ دور میں کرتے ہیں یعنی ان کی سیاست (2025) میں بھی وہ ’’فلمی اسکرپٹ‘‘ والا انداز استعمال کر رہے ہیں؟ یعنی ان کی ریلیاں اور بیانات بھی کسی ’’شو‘‘ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے جلسے روایتی سیاست نہیں، بلکہ ڈرامائی تقریبات ہوتے ہیں۔ روشنیوں، موسیقی، اور بڑے بڑے اسکرینوں کے ساتھ وہ داخل ہوتے ہیں۔ ان کی تقریریں پہلے سے طے شدہ ’’مکالموں‘‘ جیسی لگتی ہیں۔ ہر جملے پر سامعین سے ’’ریہرسل شدہ‘‘ نعرے لگتے ہیں: ’’USA! USA! یا Build the wall‘‘ وہ اکثر ہاتھ کے اشارے، چہرے کے تاثرات، اور وقفوں کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے ایک اداکار سامعین کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا ان کے جلسوں کو ’’Trump Show‘‘ کہتا ہے۔
حال ہی میں کولا لمپور ائرپورٹ پر ٹرمپ کو ملائیشین روایتی رقاص گروپ کے ساتھ دیکھا گیا جہاں انہوں نے ڈھول کی تھاپ پر ہلچل بھری حرکات کیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی، جہاں لوگوں نے اس کو ’’توانائی کا مظاہرہ‘‘ کہا تو کچھ نے اسے ’’ذاتی زیاد اعتماد (over confidence)‘‘ کا اظہار قرار دیا۔ ایک ملائیشیا نیوز پورٹل نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ رویہ ’’صدر کے وقار‘‘ کے مطابق نہیں تھا۔ یعنی وہ خود کو نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ پرفارمنر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ ہمیشہ میڈیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن (Villain) بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بار بار کہتے ہیں: ’’Fake News Media!‘‘ ہر سوال کو ذاتی حملہ بنا کر ڈرامائی ردعمل دیتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج، لہجہ اور غصہ فلم کے سین جیسا لگتا ہے جس کا ٹریلر آپ نے وہائٹ ہائوس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ دیکھ لیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے: (ٹرمپ میڈیا کے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، بلکہ ان کے لیے ’’پرفارم‘‘ کرتے ہیں۔) 2024-2025 میں ٹرمپ پر کئی مقدمات چلے، مگر انہوں نے ان سب کو سیاسی مظلومیت کے ڈرامے میں بدل دیا۔ ارمانی اور بربری کے کپڑے اور ایریزونا کے جوتے (اپنے برانڈ کے) ٹرمپ مارک کے گالف شوز اور ’’ٹرمپ سگنیچر‘‘ ان کا اپنا برانڈ کولون پرفیوم استعمال اور رولیکس اور پاٹیک فلپ گھڑیوں کے شوقین 79 سالہ ٹرمپ جنہوں نے تین شادیاں کیں جن سے ان کو پانچ بچے ہیں اور اس وقت صدر ٹرمپ ذاتی طور پر 2.5 بلین ڈالر کے مالک ہیں۔
یہ تو ہوا اس کا فلمی کردار اور اب آتے ہیں کہ وہ کس طرح امریکا کو زوال کی جانب لے جارہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’’America First‘‘ کا نعرہ دے کر کئی بین الاقوامی معاہدوں سے علٰیحدگی اختیار کی، جیسے پیرس ماحولیاتی معاہدہ، ایران نیوکلیئر ڈیل، اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے فنڈز روکنا۔ اس سے امریکا کی ’’عالمی قیادت‘‘ والی ساکھ کمزور ہوئی، اور چین و یورپ نے خلا پْر کرنا شروع کیا۔ اور اس کے علاؤہ صدر ٹرمپ نے اتحادی ممالک سے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا اور ناٹو ممالک سے کہا کہ ’’زیادہ پیسہ دو ورنہ ہم دفاع نہیں کریں گے‘‘ اس سے اتحادی ممالک (جرمنی، فرانس وغیرہ) ناراض ہوئے۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح چین پر بھی ٹیکس اور ٹیرف لگانے سے امریکی کمپنیوں کی لاگت بڑھی۔ کئی امریکی کسانوں اور صنعتوں کو نقصان ہوا۔ ان کی سیاست نے ملک کو اندرونی طور پر بھی نقصان پہچایا اور نسلی اور سیاسی لحاظ سے زیادہ منقسم کیا۔
’’کیپٹل ہل حملہ (2021)‘‘ کو بہت سے سیاسی ماہرین ’’جمہوری اداروں پر حملہ‘‘ کہتے ہیں۔ امریکی معاشرہ اس وقت انتہائی منقسم ہے۔ ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان شہری اور دیہی علاقوں میں سفید فام اور غیر سفید فام آبادی کے درمیان۔ ٹیکساس اور کیلی فورنیا میں کچھ گروپوں نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ اگر وفاقی حکومت ان کے مفادات کے خلاف گئی تو وہ ’’الگ ملک‘‘ بننے کی مہم شروع کریں گے۔ سول نافرمانی اور تشدد کے ایک تازہ سروے میں تقریباً 58 فی صد امریکیوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ’’کسی نہ کسی درجے کی خانہ جنگی‘‘ ہو سکتی ہے۔ لیکن ماہرین جیسے Prof. Francis Fukuyama اور Thomas Friedman کا کہنا ہے کہ: ’’امریکا اداروں کا ملک ہے۔ اتنی آسانی سے ٹوٹ نہیں سکتا، مگر اندرونی کمزوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے‘‘۔ دنیا کے مؤقر جریدوں نے ان حالات پر مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں۔
دی اکنامسٹ (2025)؛ ٹرمپ کا دور ’’جمہوری نظام کے لیے سب سے بڑا امتحان‘‘ ہے، مگر ٹوٹنے کا امکان نہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن؛ ’’اگر ادارے (عدلیہ، کانگریس، میڈیا) اپنی آزادی برقرار رکھیں، تو امریکا متحد رہے گا۔ ’’الجزیرہ انگلش‘‘ امریکا میں سماجی بگاڑ بڑھ رہا ہے، مگر ملک کے ٹوٹنے سے زیادہ خانہ جنگی جیسے تنازعات کا خطرہ ہے‘‘۔