Express News:
2025-06-11@23:15:10 GMT

صدر ٹرمپ اور امریکا کا نظام

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، مسلسل غیرمعمولی اقدامات کررہے ہیں۔انھوں نے ایران اور عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردی ہیں، عرب میڈیا کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران پر ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جن سے اس کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 

ان پابندیوں کا جواز یہ بتایا گیاہے کہ ایران تیل کی آمدنی اپنے جوہری، میزائل اور ڈرونز پروگرامز پرخرچ کر رہا ہے، ایران اپنی تیل کی آمدنی کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کررہا ہے لہٰذا غیرقانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔

ایران نے امریکی پابندیوں کو بحری قزاقی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو مزید بڑھایا ہے۔ اس دوران میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دی ہیگ کی عدالت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ امریکی صدر نے آئی سی سی کے اہلکاروں، ملازمین اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ ساتھ کسی ایسے شخص کے اثاثے منجمد کرنے اور سفری پابندیوں کا بھی حکم دیا جس نے عدالت کی تحقیقات میں مدد کی ہو۔

عالمی فوجداری عدالت نے پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ عدالت نے اپنے رکن ممالک سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ہرحال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کونسل کے سربراہ نے ایکس پر لکھا کہ آئی سی سی پر پابندیوں سے عدالت کی آزادی کو خطرہ ہے اور یہ عالمی فوجداری انصاف کے نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔یورپی کمیشن نے بھی حکم نامے پر افسوس کا اظہار کیا۔

صدر ٹرمپ پے درپے ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے تقریباً ساری دنیا کے ممالک متاثر ہوئے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکا میں غیرقانونی طور پر داخل ہونیوالے زیر حراست 770 بھارتی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، ان افراد کو تین امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے بھارت روانہ کیا جائے گا، اس سے پہلے بھی بھارتی تارکین وطن زبردستی بھارت پہنچائے گئے ہیں۔

ان سب کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا، بھارتی اپوزیشن مودی حکومت پر زبردست تنقید کررہی ہے۔ادھر امریکا کا نظام انصاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو روکنے کی کوشش کررہا ہے ۔ امریکی عدالت نے سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا ہے، تاریک وطن کے حوالے سے بھی امریکی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو اور ریاست الینوائے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے وہاں کی انتظامیہ تارکین وطن کی ملک بدری میں تعاون نہیں کر رہی، واشنگٹن میں نیشنل پریئر بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنائیں گے، آزادی اظہارِ رائے کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا ہوگا، انھوں نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ غزہ کے حوالے سے ان کی پیش کردہ تجویز میں امریکا کو کسی فوجی کی ضرورت نہ ہوگی۔

خطے میں استحکام آئے گا، اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کر دے گا، فلسطینیوں کوخطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت کمیونٹیز میں دوبارہ آباد کیا جا ئے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف عائد کر چکے ہیں، وہ کئی بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔ اس سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ اور عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جس انداز میں وہ اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس سے بے چینی پیدا ہونا لازمی ہے۔

چین اور کینیڈا ڈبلیو ٹی او کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں امریکا کے صدر کے اقدام اور اس کے جواب میں اٹھائے گئے اقدامات سے دنیا کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی یونین نے بھی صدر ٹرمپ کے درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ٹرمپ مسلسل ایسے بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی طرز کے سامراج کی بنیاد رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ وہ پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا، پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے اعلان سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا تھا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا لیکن اب وہ دوبارہ وہی کام کرنے جارہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان نے فلسطینیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔عالم اسلام بھی حیران ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اسے عالمی سطح پر بھی ناپسند کیا گیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ تجویز کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس قسم کے اعلانات تنازع فلسطین کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بن سکتے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔

اسرائیل نے جب غزہ جنگ شروع کی تھی تو اس وقت سے اسرائیلی پالیسی سازوں کے ایسے بیانات آرہے ہیں، جن سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی کا مقصد ہی وہ تھا جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ یعنی مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنا ۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کا حامی امریکی اور اسرائیلی طبقہ مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا ارینجمنٹ قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ غزہ پر براہ راست امریکا خود کنٹرول رکھنا چاہتا ہے تاکہ بحیرہ روم اور مشرقی وسطیٰ کی تجارت کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔

فلسطین میں دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا فارمولہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد تھی لیکن اسرائیلیوں اور امریکیوں کو یہ قبول نہ تھا اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

 جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی ایک دو لاکھ سے زائد نہ تھے جب کہ فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ لیکن آج اس خطے میں یہودی آبادی تیس پینتیس لاکھ سے بھی زائد ہوچکی ہے۔

لیکن یہاں نسل در نسل آباد فلسطینیوں کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے ۔ اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد بیانات کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ 

صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی اپنے منصوبوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، اس کا پتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چلتا جائے گا لیکن آثار یہی نظر آرہے ہیں کہ دنیا کا مستقل شاید ایسا نہ ہو جیسا عالمی امن کے پیامبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا کا نظام اور جمہوری کلچرکتنا مضبوط ہے اور وہ صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے اقدامات کی کس حد تک مزاحمت کرتا ہے، اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی فوجداری امریکی صدر امریکا کے عدالت نے سے زیادہ ٹرمپ اور کے حوالے ٹرمپ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے کہ ا لیکن ا دیا ہے گیا ہے اور اس اور ان

پڑھیں:

کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟

جب سےڈونلڈ ٹرمپ امریکا کےصدر بنے ہیں، انہوں نے غالباً یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی دن چین وسکون سےخود گزارنا ہے نہ کسی اور کو گزارنے دینا ہے۔ پہلے کینیڈا کو کہا کہ امریکا کا صوبہ بن جاو، گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دے کر ڈنمارک اور پورے یورپ کو پریشان کردیا۔

یوکرائن کے معاملے پر اچھا خاصا بڑا یوٹرن لے کر یورپی ممالک کو ہکابکا کردیا۔ چین کے ساتھ تو ٹیرف کے معاملے پر آمنے سامنے کی جنگ والی کیفیت پیدا کردی گئی۔ ایپل اور دیگر بڑی کمپنیوں کو باقاعدہ دھمکیاں دے کر امریکا میں انویسٹمنٹ کے لیے کہنا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

ابتدا ہی میں صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو ڈوج نامی محکمے کا سربراہ بنایا تاکہ اخراجات کم ہوں۔ مسک نے ہزاروں لوگ فارغ کرائے، کئی محمکے بیک جنبش قلم بند کرا دیے۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی حکومتی اخراجات میں برائے نام ہی کمی ہوئی۔ پھر اسی ایلون مسک کے ساتھ ٹرمپ نے جنگ چھیڑدی۔

اب اچانک صدر ٹرمپ نے امریکا کی سب سے خوشحال ریاست کیلی فورنیا میں ایسی زبردست مداخلت کی باقاعدہ خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے لاس اینجلس اور کیلی فورنیا کے دیگر شہروں میں ہنگامے ہو رہے ہیں، گاڑیاں جلائی گئی ہیں اور معاملہ کرفیو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکی نیشنل گارڈز(ریزرو آرمی)سڑکوں پر تعینات ہوچکی ہے وہ بھی منتخب ریاستی گورنر کی مرضی کے خلاف۔

یوں ایک ایسی ہنگامی صورتحال بن چکی ہے جو اگر بدترین شکل اختیار کرگئی تو امریکی تاریخ میں شاید پہلی بار مارشل لا یا مِنی مارشل لا کی سی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس پوری صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، مگر پہلے تھوڑا کیلی فورنیا ریاست کے بارے میں جان لیتے ہیں۔

کیلی فورنیا اور اس کی اہمیت

کیلی فورنیا امریکا کی آبادی اور اکانومی کےاعتبار سے سب سے بڑی ریاست ہے۔ 2020 کی مردم شماری کے مطابق، کیلیفورنیا کی آبادی تقریباً 39.5 ملین (4کروڑ کے لگ بھگ) ہے۔

اکانومی کے اعتبار سے بھی کیلیفورنیا امریکا کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کی اکانومی دنیا کی چند سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے اور اگر کیلیفورنیا کو ایک الگ ملک تصور کیا جائے تو یہ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ کیلیفورنیا کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ٹیکنالوجی، تفریح، زراعت، اور سیاحت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا مجموعی جی ڈی پی (GDP) دنیا کے بڑے اور خوشحال طاقتور ممالک کے مساوی ہے، جیسے فرانس یا برطانیہ۔

کیلی فورنیا کے بڑے اور نمایاں شہروں میں لاس اینجلس، سان ڈیاگو اور سان فرانسسکو وغیرہ شامل ہیں۔ لاس اینجلس میں ہالی وڈ ہے، دنیا کی سب سےبڑی فلم انڈسٹری اور ٹی وی ڈرامے کا مرکز، سان فرانسسکو کے قریب سیلیکون ویلی دنیا کا سب سے بڑا ٹیکنالوجی ہب ہے، جہاں گوگل، ایپل، فیس بک جیسی عالمی کمپنیاں قائم ہیں۔ سان فرانسسکو کی مالی مارکیٹس اور وال اسٹریٹ کا مضبوط تعلق ہے۔

کیلیفورنیا امریکا کی سب سے بڑی زرعی پیداوار فراہم کرنے والی ریاست ہے۔ یہاں کی زرعی صنعت دنیا بھر میں مشہور ہے، خاص طور پر سبزیوں، میٹھے پھلوں، بادام وغیرہ کی پیداوار۔ یہاں بے تہاشا اورنج فارمز ہیں اور اورنج جوس بنانے کی عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں۔

کیلی فورنیا کی ایک اور سیاسی اہمیت یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے لوئر ہاوس میں سب سے زیادہ نشستیں یہاں سے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیلی فورنیا ہمیشہ سے ڈیموکریٹ پارٹی کا مضبوط علاقہ رہا ۔ یہاں سے اکثر ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جیتتے اور ریپلکن ہار جاتے ہیں۔

صدر ٹرمپ دو ہزار سولہ اور دو ہزار بیس میں بھی یہاں سے ہار گئے تھے اور پچھلے سال نومبر کے صدارتی انتخابات میں بھی انہیں شکست فاش ہوئی ۔ ٹرمپ کے مقابلے میں کاملا ہیرس نے بڑی واضح اکثریت سےجیت حاصل کی اور اٹھاون فیصد کے قریب ووٹ لیے، ٹرمپ کا ووٹ اڑتیس فیصد کے قریب رہا۔

جبکہ جو بائیڈن نے توکیلی فورنیا سے ٹرمپ کے مقابلے میں 63فیصد کے لگ بھگ ووٹ لیے تھے۔اس سے پہلے ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن سے کیلی فورنیا میں شکست کھائی تھی۔ یعنی یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتی۔

کیلی فورنیا کی سیاست، معیشت اور ثقافت پر ڈیموکریٹک پارٹی کا غلبہ اور گہرا اثر ہے۔ لاس اینجلس کی خاتون میئر بھی ڈیموکریٹک پارٹی کی ہے اور کیلی فورنیا کے منتخب گورنر گیون نیوسم (Gavin Newsom)کا تعلق بھی صدر ٹرمپ کی حریف ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔

کیلی فورنیا میں احتجاج اور ہنگامے کیوں شروع ہوئے؟

حالیہ ہنگاموں کی سب سے بڑی وجہ آئس (ٰice) ہے۔ یہ امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ کا مخفف ہے۔ یہ فیڈرل لاانفورسمنٹ ایجنسی ہے جو یوایس ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی کے انڈر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ فیڈرل حکومت یعنی صدر امریکا کے ماتحت آتا ہے۔ آئی سی ای (ICE) کا ڈائریکٹر صدر امریکا کا نامزد کردہ ہے جسے سینیٹ سےمنظوری لینا پڑتی ہے، تاہم اس وقت سینیٹ اور صدر دونوں ایک ہی جماعت ری پبلکن کے ہیں تو یہ منظوری اب فارمیلیٹی بن کر رہ گئی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کچھ عرصے سے امریکا میں موجود تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ آئی سی ای کے اہلکار مختلف شہروں میں ریڈ کرکے دھڑا دھڑ تارکین وطن ایشیائی، لاطینی امریکی اور ہسپانوی نژاد لوگوں کو پکڑ پکڑ کر ڈی پورٹ کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیےاب وہ مختلف تجارتی مراکز، دفاتر، فیکٹریوں وغیرہ پر بھی چھاپے مار رہے ہیں۔

جہاں عام طور سے تارکین وطن چھوٹی موٹی جاب کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اہلکار ضرورت سے زیادہ سختی سے کام لے رہے ہیں، جن کے کاغذات ہیں مگر چھوٹا موٹا قانونی سقم ہے، انہیں بھی پکڑ دھکڑ میں لایا گیا، رویہ بڑا درشت ہے اور اس حوالے سے معمولی سا احتجاج بھی نہیں برداشت کیا جارہا۔ کئی جگہوں پر لیبر یونین کے رہنمائوں نے اس جارحانہ اور سخت رویہ کے خلاف پرامن احتجاج کی کوشش کی تو انہیں بھی زمین پر گرا کر ہتھکڑیاں لگا کر حراستی مراکز میں قید کر دیا گیا۔

امریکا میں یہ سب پہلی بار ہو رہا ہے۔ کئی عشروں سے امریکا میں ایسا نہیں ہوا۔ ایسے رویے کے عام امریکی بھی عادی نہیں۔ وہاں تارکین وطن اکثر تب ہی گرفت میں آتے جب وہ مقامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے تھے، ورنہ راہ چلتے کسی فرد سے کبھی کسی حکومتی اہلکار نے کاغذات دکھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اس قدر جارحانہ رویہ کی وجہ سے لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ تارکین وطن بھی پروٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ عام امریکی، سول سوسائٹی تنظیمیں بھی ان کے ساتھ احتجاج میں شامل ہیں۔

اس احتجاج کےدوران اکا دکا پرتشدد واقعہ بھی ہوا، مگر مقامی پولیس اور کیلی فورنیا کی ریاستی انتظامیہ ان چیزوں کو ڈیل کر رہی تھی، وہ سلیقے سے ان معاملات سے نمٹنا چاہتے تھے۔

کیلی فورنیا میں نیشنل گارڈز کی آمد

اچانک ہی کیلی فورنیا پر ایک بڑا بم شیل گرا جب صدر ٹرمپ نے بغیر سوچے سمجھے دو ہزار امریکی نیشنل گارڈز (ریزرو آرمی) کو کیلی فورنیا میں تعینات کردیا کہ مظاہرین بغاوت پر اتر آئے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ امریکی پس منظر میں کسی ریاست یعنی صوبے میں فوج کا تعینات ہونا بہت بڑی اور حیران کن بات ہے۔

ایسا امریکی ماڈرن تاریخ میں بہت کم ہوا۔ پچاس باون سال قبل صدر نکسن نے نیشنل گارڈز کو ڈاک تقسیم کرنے کی ڈیوٹی دی تھی کہ شہروں میں ڈاک تقسیم کی جائے کیونکہ تب پوسٹل سروس والے ایک بڑی ہڑتال پر چلے گئے تھے اور کئی دن گزر جانے سے لوگوں کی اہم ذاتی اور دفتری خط کتابت رک گئی تھی۔ تاہم تب بھی مختلف ریاستوں کے منتخب گورنروں کی منظوری اور مشاورت سے ایسا کیا گیا۔

صدر ٹرمپ نے کیا غلطی کی؟

صدر ٹرمپ نے دو غلط کام کیے، ایک تو نیشنل گارڈز کو کیلی فورنیا جیسی ریاست میں تعینات کردیا۔ اوپر سے وہ اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکی میرین فوجی بھی بھیج دیں گے۔ دوسرا وہ کیلی فورنیا کے منتخب گورنر گیون نیوسیم کو گرفتار کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں۔ یہ بذات خود ایک بہت بڑی اور ماورائے قانون دھمکی ہے۔ کسی منتخب گورنر کو کبھی کسی امریکی صدر نے گرفتار کرنے کی بات نہیں کہی۔ لاس اینجلس کی سیاہ فام میئر کیرن بیس کو بھی گرفتار کرنے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔

اس سب کی شدید مذمت ہو رہی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ کانگریس میں مختلف ڈیمو کریٹک ارکان اسمبلی نے کھل کر صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کیلی فورنیا کےگورنر نے صدر کے خلاف عدالت میں جانےکا اعلان کیا ہے۔ کیلی فورنیا کےاٹارنی جنرل نے صدر ٹرمپ اور فیڈرل حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئےکہا ہے کہ انہیں کوئی اختیار نہیں کہ وہ منتخب ریاستی گورنر کو گرفتار کرسکیں۔ گورنر نیوسیم کا کہنا ہے کہ یہ میری ذات کا معاملہ نہیں، اصل مسئلہ ہے کہ صدر ٹرمپ مطلق العنانیت کی راہ پر چل نکلے ہیں، انہیں جمہوری روایات، قانون کا کوئی احترام نہیں۔

ریٹائر فوجیوں کی طرف سے ردعمل

امریکا میں ایک بڑا حلقہ نیشنل گارڈز کی تعیناتی کی اس لیے مخالفت کر رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک انتہائی متنازع سیاسی ایشو میں ریزرو فوجیوں کو انوالو کر دیا ہے جس میں ریاستی گورنر اور انتظامیہ بھی مخالف ہے۔ لوگ اسےفوج کوسیاست میں آلودہ کرنے کے مترادف قرار دےرہے ہیں۔ معروف برطانوی اخبار گارڈین نے چند ریٹائرڈ امریکی جرنیلوں سے بات کرکے ان کے تحفظات ایک رپورٹ میں بیان کیے ہیں، ان سینئر ریٹائرڈ امریکی جنرلز کو لگتا ہے کہ اس سے امریکی آرمی پولیٹیسائز ہوگی ۔ ان کا کہنا ہے کہ نیشنل گارڈز یا میرین فوجیوں کو سیاسی مظاہروں کےخلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام مقامی پولیس، انتظامیہ اور ریاستی گورنر کے مشاورت سےہونا چاہیے۔

دوسری طرف ری پبلکن پارٹی صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ کئی ری پبلکن ارکان نے کھل کر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کےاقدامات کی حمایت کی ہے۔ تاہم امریکا میں بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر ٹکرائو مزید بڑھا اور صدرٹرمپ نے میرین فوجی تعینات کر دیے، کیلی فورنیا کےگورنرکو گرفتار کرنا پڑا اور مظاہرین کےخلاف زیادہ سخت ایکشن ہوا تو معاملہ اتنا بگڑ نہ جائے کہ بعض امریکی ریاستوں اور شہروں میں مارشل لا یا مِنی مارشل لا لگانا پڑے۔

اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی جمہوری ، قانونی روایات کےلیے نہایت تباہ کن ہوگا۔ تاہم صدر ٹرمپ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کا طرز گورننس سب سے مختلف اور جدا ہے۔ وہ اپنے احکامات پر ہر حال میں عمل درآمد چاہتے ہیں بےشک اس سے کچھ روایات اور قوانین مسمار ہوتے ہیں تو ہوجائیں۔ دیکھیں ٹرمپ کے امریکا میں ہمیں اور کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

امریکا ایلون مسک ڈونلڈ ٹرمپ کیلی فورنیا مارشل لا

متعلقہ مضامین

  • چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پا گیا؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران کا مسئلہ بمباری سے نہیں بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہوں؛ ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایلون مسک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان برف پگھلنے لگی،جھگڑے پرافسوس کا اظہار
  • گورنر کیلیفورنیا نے فوجی تعیناتی پر ٹرمپ کیخلاف مقدمہ دائر کر دیا
  • ایران سے جوہری معاہدے کے امکانات ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو سے گفتگو
  • ایران سے جوہری معاہدے کے امکانات ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو سے ٹیلیفونک گفتگو
  • کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا لاس اینجلس میں مظاہروں پر قابو پانے کے لیے فوجی اہلکار تعینات کرنے کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حادثے سے بال بال بچ گئے
  • ٹرمپ کی غزہ پر نظر برقرار، ایک بار پھر امریکی تحویل میں لینے کا اشارہ دے دیا