کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں طیاروں کو فلائٹ کے دوران جی پی ایس سگنل میں دشواری کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
کراچی(آئی این پی) لاہور، اسلام آباد اور کراچی ایئر پورٹس کی حدود میں جی پی ایس سگنل میں دشواری رپورٹ ہونے کا انکشاف سامنے آیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی، لاہور اور اسلام آباد ایئر پورٹس کی حدود میں جی پی ایس سگنل میں دشواری پر پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی نینوٹس جاری کردیا۔نوٹم میں کہا گیا ہے کہ سونا ٹیکل میل ایریا میں طیاروں کو فلائٹ کے دوران جی پی ایس سگنل میں دشواری رپورٹ ہوئی ہے۔
پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی نے ہدایت کی تمام پائلٹس تفصیلات کیساتھ جی پی ایس سگنل دشواری سے متعلق فوری طور پر اے ٹی سی کو رپورٹ دیں۔نوٹم میں مزید کہنا تھا کہ پائلٹس نیوی گیشن میں دشواری کی صورت میں اے ٹی سی کو مدد کے لیے مطلع کریں، جی پی ایس سگنل میں مداخلت اوردشواری طیاروں کو فلائٹ کے دوران مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
سونا سستا ، قیمت آسمان چھونے کے بعد نیچے آ گئی, چاندی کی قیمت بھی گر گئی
اتھارٹی نے کہا کہ جی پی ایس سگنل دشواری سے پروازوں کے روٹ سے ہٹنے کے سبب مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔