Nai Baat:
2025-09-18@13:24:38 GMT

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے!!

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے!!

رفیع سودا کا شعر آج کل ہر طرف رائتے کی طرح پھیلے خطوط کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔سودا کہتے ہیں ۔
تیرا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
نہ جانے کہ اس آغاز کاانجام کیا ہوگا
انجام کا تو شاید کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں لیکن پاکستان میں خط لکھنے کا سلسلہ جو قاضی فائز عیسیٰ صاحب شروع کرگئے تھے وہ ایک وبا کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے پہلے یہ سلسلہ جسٹس منصور علی شاہ سے اسلام آبادہائی کورٹ آیاتو وہاں سے خطوط لکھے گئے۔ ایک خط امریکا سے بھی آیا تھا اُسی خط کو بگاڑ کا بانی بھی کہاجاسکتا ہے ۔اُس خط کا حاحل تو یہ ہوا کہ اس خط کو پڑھ کر بتانے والے عمران خان کیخلاف مقدمہ تک بنایا گیا۔عمران خان کو سزا بھی ہوئی اور وہ بری بھی ہوئے ۔ویسے خط لکھنے پر پرویز مشرف نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کو سزا دلوادی تھی۔ اب بانی پی ٹی آئی کی طرف سے آرمی چیف کو لکھا گیا ایک کھلا خط سامنے آگیا ہے۔
اب خط تو وہ لکھ بیٹھے ہیں اور سوال کرنے والے ایسے ایسے سوال پوچھتے ہیں جیسا کہ احسن مارہروی کہتے ہیں کہ۔
کسی کو بھیج کے خط۔ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے۔ نامہ بر آیا جواب آیا
کچھ کہتے ہیں کہ جواب کی نوبت تو تب آتی اگر خط ان کو ملاہوتا یہاں توصورتحال کو بہرام جی کے اس شعر سے تشبیہہ دی جارہی ہے کہ۔۔
پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا
لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط
خط لکھنے والے عمران خان کے مخالف لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ خط نہیں انہوں نے کوئی معافی نامہ لکھ دیا ہے جیسا نظام رامپوری کہتے ہیں کہ۔
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
اب بات جواب پر رکی ہوئی ہے اور اس پر بھی اپنی خواہشوں کو خبروں کا روپ دینے کا سلسلہ جاری ہے جیسا کہ امیر مینائی نے کہا تھا کہ ۔
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
اگر جواب نہ ہی آئے تو یہ نسخہ بھی استعمال کیاجاسکتا ہے جیسا فہمی بدایونی نے کیا تھا کہ ۔۔
میں نے اس کی طرف سے خط لکھا
اور اپنے ہی پتے پہ بھیج دیا
یاپھر داغ دہلوی کی زبانی کہ۔۔۔
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
ایسا بھی تو ہوتاہے ناں کہ جب سامنے والا خط کا جواب نہ دے یا اس کو پڑھنے میں ہی دلچسپی نہ رکھے اور مختلف ذرائع سے یہی پیغام بھجوائے کہ وہ خط پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اس کے بعد بھی اگر کوئی خط لکھنے سے باز نہ آئے تو صورتحال کچھ یہ بھی ہوسکتی ہے جیسا مومن خان مومن نے کہا تھا کہ ۔۔
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
اب یہاں کسی قاصد کی لاش تو نہیں ہے لیکن جن کو لکھا گیا ہے وہ ماننے کو تیارنہیں کہ ان کو کوئی خط ملا بھی ہے لیکن لکھنے والے خود کو مطمئن کررہے ہیں کہ خط تو لکھا گیا ہے بلکہ وہ تو ایسی ایسی تصویر کشی کررہے ہیں جیسا ماتم فضل محمد نے کہا تھا کہ۔۔
خط دیکھ کر مرا۔ مرے قاصد سے یوں کہا
کیا گُل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز
اورپھر لکھنے والے تو ایسی خوش فہمی میں ہیں جیسا سردارگینڈاسنگھ مشرقی نے کہا تھا کہ۔۔
پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا
کوئی پیغام زبانی اور ہے
بلکہ شاید ان کو یہاں تک کی امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جیسا کہ دواکر راہی جی کی زندگی میں آیا تھا کہ ۔۔
غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
اب صوتحال یہ بنے گی کہ،کوئی جواب آئے گا، وہ خود آئیں گے یا پھرمعاملہ کچھ یوں ہوجائے گا جیسا مرزاغالب کے ساتھ ہوا تھا کہ ۔۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اب اس خطوط نویسی کی سیاست کیا کوئی رنگ بھی لائے گی یا ہر بار یہی جواب آئے گا کہ ہماری طرف سے جواب ہی ہے ۔۔؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نے کہا تھا کہ خط لکھنے کہتے ہیں جواب میں ہے جیسا ہیں کہ

پڑھیں:

3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب میں شاہی پروٹوکول، ٹرمپ جیسا استقبال
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
  • پابندیوں لگانے کی صورت میں یورپ کو سخت جواب دینگے، تل ابیب
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • نیتن یاہو کا انجام بھی ہٹلر جیسا ہی ہوگا، اردوغان
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • کتاب ہدایت
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن