عالمی درجہ بندی میں بہتری کیلیے بنگلہ دیشی تعلیمی قیادت پاکستانی جامعات کا دورہ کرے گی
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
کراچی:
بنگلہ دیش کی اعلیٰ تعلیم سے منسلک قیادت پاکستانی جامعات کا دورہ کرے گی یہ دورہ او آئی سی کے پاکستان میں موجود ادارے کامسٹیک کے تعاون سے کیا جائے گا جس کا مقصد بنگلہ دیشی جامعات کو یونیورسٹیز کی بین الاقوامی درجہ بندی میں بہتر مقام دلانا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستانی جامعات کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
اس سلسلے میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی پاکستان میں قائم سائنسی اور تکنیکی تعاون کی کمیٹی (کامسٹیک) اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کی تعلیمی اور تحقیقی تعاون کا اجلاس ڈھاکا میں منعقد ہوا۔
اس اجلاس کی میزبانی کراچی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اور او آئی سی کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کی جس کا مقصد تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں کامسٹیک اور بنگلہ دیش کے درمیان تعاون کو فروغ دینا تھا۔
اجلاس میں بنگلہ دیش کے اہم تعلیمی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم اے فائز، چیئرمین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف بنگلہ دیش (یو جی سی ) اور دو دیگر اعلی حکام شامل تھے جبکہ اجلاس میں ڈھاکا یونیورسٹی، بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (بی یو ای ٹی)، بنگلہ دیش اوپن یونیورسٹی، نارتھ ساؤتھ یونیورسٹی (این ایس یو)، ڈافوڈل انٹرنیشنل یونیورسٹی سمیت اسلامک عربک یونیورسٹی کے وائس چانسلرز سمیت ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ یونیورسٹیز آف بنگلہ دیش کے چیئرمین نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کا بنیادی مقصد اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں تعاون کو مضبوط بنانا تھا اجلاس میں تعلیمی تبادلہ پروگرام، مشترکہ تحقیقی منصوبے، فیکلٹی تربیتی پروگرام اور استعداد کار بڑھانے کے منصوبے شامل تھے۔
یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے چیئرمین نے ڈاکٹر اقبال چوہدری سے درخواست کی کہ وہ بین الاقوامی درجہ بندی میں بنگلہ دیشی جامعات کی بہتری کے لیے مدد فراہم کریں۔
ڈاکٹر چوہدری نے کامسٹیک کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی اور تجویز دی کہ کامسٹیک کے تعاون سے متعلقہ ماہرین کا ایک وفد بنگلہ دیش کا دورہ کرے گا اس دورے کے دوران یو جی سی کی جانب سے مختلف یونیورسٹیوں میں سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا جن میں تعلیمی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے تجربات اور بہترین طریقے شیئر کیے جائیں گے۔
ڈاکٹر اقبال نے چئیرمین یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے ساتھ "3U1M" ماڈل بھی متعارف کرایا یہ ماڈل تین سال کی سخت تعلیمی تربیت اور مہارتوں کے فروغ پر مشتمل ہے جبکہ چوتھے سال میں طلبہ کو صنعتی اداروں میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ حقیقی مسائل کو سمجھ کر ان کے عملی حل تلاش کریں۔یہ ماڈل تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے درمیان خلا کو کم کرنے میں مدد دے گا اور طلبہ کو ایسی مہارتیں فراہم کرے گا جو جدید دور کی ملازمتوں کے لیے ضروری ہیں۔
ڈاکٹر چوہدری نے بنگلہ دیش کے اعلیٰ تعلیمی قیادت کو کامسٹیک ہیڈکوارٹر اور پاکستان کی اعلیٰ جامعات کے دورے کی دعوت دی تاکہ تعلیمی اور تحقیقی تعاون کو فروغ دیا جا سکے، معلومات کے تبادلے اور مشترکہ منصوبوں پر کام کیا جا سکے اور او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کیے جا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کے کے درمیان او آئی سی کے لیے
پڑھیں:
برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کیلئے عالمی ایوارڈ
برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی جریدے برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) کی جانب سے معروف معالج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کو یہ ایوارڈ جنوبی ایشیا میں طب کے میدان میں گراں قدر خدمات پر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اس اعزازکی پروقار تقریب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ جس میں بی ایم جے کے ایڈوائزری بورڈ کے شریک صدر، ڈاکٹر سنجے نگرہ نے اس اعزاز کا اعلان کیا اور پروفیسر ادیب رضوی کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوی نے ترقی پذیر ملک پاکستان میں صحت کی فراہمی کا ایک مثالی ماڈل متعارف کروایا، جو حکومت اور معاشرہ کے درمیان شراکت داری کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ڈاکٹر رضوی کی غیر متزلزل عزم کی تعریف بھی کی، جس کے تحت انہوں نے ہر فرد کو بلا امتیاز ذات، رنگ، نسل یا مذہب، مفت و اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ادیب رضوی خود اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے، تاہم انہوں نے انٹرنیٹ رابطہ کے ذریعے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بی ایم جے کے اس اقدام کو سراہا اور میڈیکل ایجوکیشن اور تحقیق کے فروغ میں اس کی خدمات کو شاندار قرار دیا۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کون ہیں؟
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے معروف طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب نے 11 ستمبر 1938ء میں کلن پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8 بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔
یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300 بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔
اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگا دی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسز مشین کے ذریعے خون صاف کرا کے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔