فلسطین اور کشمیر: قبضے، جبر اور عالمی سیاست کی مشترکہ کہانی
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
حالیہ دنوں میں عالمِ عرب میں فلسطین کے معاملے پر ایک نیا تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے حالیہ اعلانات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
ان بیانات میں فلسطینیوں کے لیے ایک متبادل منصوبے کا ذکر کیا گیا، جس کے تحت انہیں ان کے آبائی علاقوں سے بےدخل کر کے مختلف عرب ممالک میں بسایا جائے گا، اس منصوبے کو ایک انسانی حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جہاں فلسطینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا جواز دیا جا رہا ہے۔
تاہم، عرب ممالک اور پاکستان نے نہ صرف اس منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کی ان کے وطن سے بے دخلی ایک ریڈ لائن ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔
یہ معاملہ صرف ایک حالیہ سفارتی تنازعہ نہیں، بلکہ فلسطین میں جاری اسرائیلی پالیسیوں کی ایک منظم شکل ہے، جو 75 سالوں سے فلسطینیوں کو بےدخل کرنے، ان کی زمین پر قبضہ جمانے اور آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے ترتیب دی جا رہی ہیں۔ یہی کچھ کشمیر میں بھی ہو رہا ہے، جہاں بھارت انہی پالیسیوں کو ایک نئے انداز میں نافذ کر رہا ہے۔
اسرائیل کی حالیہ پالیسی کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قابض طاقتیں ہمیشہ انسانی پہلو کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، فلسطینیوں کو ہجرت کے آزادانہ انتخاب کا موقع دینے کی بات کی جا رہی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب ان پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہو، ان کا محاصرہ کیا جا رہا ہو، بنیادی ضروریات زندگی سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہو، تو یہ انتخاب کس حد تک آزاد رہ جاتا ہے؟ اگر واقعی فلسطینیوں کو نقل مکانی کی آزادی حاصل ہے تو پھر انہیں اپنے وطن میں رہنے کی آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟ اس منطق میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے، جو اسرائیلی پالیسیوں کے دوہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔
اس طرح کی پالیسیوں کا مقصد صرف فلسطینیوں کو بےدخل کرنا نہیں، بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا حل فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے میں نہیں، بلکہ انہیں غیر محسوس طریقے سے ان کے وطن سے بے دخل کر کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے میں ہے۔
اس حکمتِ عملی میں سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس اقدام کو انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جائز قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو تاریخی طور پر استعماری طاقتوں کا ایک پرانا طریقہ کار رہا ہے۔
یہی پالیسی کشمیر میں بھی اپنائی جا رہی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسانے کے لیے دروازے کھول دیے، اس اقدام کے ذریعے بھارت بھی فلسطین کی طرز پر ایک نئی آبادیاتی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں کشمیریوں کی زمینوں پر غیر مقامی ہندوؤں کو آباد کر کے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔
یہ اقدام محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جو کشمیر میں اسرائیل کے فلسطین ماڈل کی عکاسی کرتا ہے، اسرائیل اور بھارت کی پالیسیوں میں ایک حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے۔
اسرائیل فلسطین میں یہودی بستیاں بنا کر فلسطینی آبادی کو محدود کر رہا ہے، جبکہ بھارت کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسا کر مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے کے بعد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں، جبکہ بھارت بھی کشمیریوں پر مسلسل دباؤ ڈال کر انہیں ہجرت پر مجبور کر رہا ہے اور پھر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ ترقی اور خوشحالی کے لیے ہو رہا ہے۔
ان دونوں خطوں میں فوجی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ایک جیسی ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں پر غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو اور محاصرے عائد کیے، وہی کچھ بھارت نے کشمیر میں کیا۔
فلسطین میں اسرائیلی فوج گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور گولیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا رہی ہے، جبکہ بھارت بھی آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے قوانین کے تحت کشمیریوں پر جبر کے وہی حربے آزما رہا ہے۔
اس قانون کے تحت بھارتی فوج کو کشمیریوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے قتل کرنے کا اختیار حاصل ہے، جو فلسطین میں اسرائیلی فوج کے انتظامی حراست کے قانون سے ملتا جلتا ہے۔
فلسطین اور کشمیر دونوں جگہوں پر مزاحمت کو دہشتگردی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ قابض طاقتوں کے مظالم کو دفاع کا نام دیا جاتا ہے، اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو عالمی میڈیا میں شدت پسند تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
عالمی سیاست میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس کے تمام مظالم کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جبکہ بھارت کو ایک بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے کشمیر میں اقدامات کو معمولی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود دونوں خطوں میں عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
مسلم دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین اور کشمیر صرف دو الگ الگ علاقائی تنازعات نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے استعماری منصوبے کا حصہ ہیں، جہاں قابض طاقتیں نہ صرف زمینوں پر قبضہ کر رہی ہیں بلکہ ان کی آبادیاتی ترکیب کو بھی مکمل طور پر بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اگر فلسطین میں اسرائیل کامیاب ہوتا ہے تو کشمیر میں بھارت کے لیے بھی یہی ماڈل کامیاب بنانے میں آسانی ہو جائے گی، یہاں پر پاکستان کی پالیسی قابلِ توجہ ہے، جس نے ہمیشہ فلسطین کی کھل کر حمایت کی ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی ایک واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔
عرب دنیا کو بھی اسی طرح کے ایک اجتماعی اور ٹھوس موقف کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل اور بھارت کے استعماری منصوبوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکے۔
یہ دونوں مسئلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ قبضے اور جبر کو جتنا بھی جائز قرار دینے کی کوشش کی جائے، تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ جبری قبضے ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمت جاری ہے، کشمیر کی جدوجہد بھی ختم ہونے والی نہیں۔
جبری قبضہ کبھی بھی ایک مستقل حقیقت نہیں بن سکتا، اور تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ یہی اصول فلسطین اور کشمیر دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا فلسطین فلسطین اور کشمیر فلسطینیوں کو میں اسرائیل اسرائیل اور جبکہ بھارت فلسطین میں کی کوشش کر کر رہا ہے کے طور پر کرتا ہے جاتا ہے کو ایک کے لیے کیا جا جا رہا دیا جا کے تحت اور اس جا رہی
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔
احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔
صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔
عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔
بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د
ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔
بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔