WE News:
2025-09-17@23:41:26 GMT

فلسطین اور کشمیر: قبضے، جبر اور عالمی سیاست کی مشترکہ کہانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

حالیہ دنوں میں عالمِ عرب میں فلسطین کے معاملے پر ایک نیا تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے حالیہ اعلانات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

ان بیانات میں فلسطینیوں کے لیے ایک متبادل منصوبے کا ذکر کیا گیا، جس کے تحت انہیں ان کے آبائی علاقوں سے بےدخل کر کے مختلف عرب ممالک میں بسایا جائے گا، اس منصوبے کو ایک انسانی حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جہاں فلسطینیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا جواز دیا جا رہا ہے۔

تاہم، عرب ممالک اور پاکستان نے نہ صرف اس منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے بلکہ واضح کر دیا ہے کہ فلسطینیوں کی ان کے وطن سے بے دخلی ایک ریڈ لائن ہے جسے عبور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ معاملہ صرف ایک حالیہ سفارتی تنازعہ نہیں، بلکہ فلسطین میں جاری اسرائیلی پالیسیوں کی ایک منظم شکل ہے، جو 75 سالوں سے فلسطینیوں کو بےدخل کرنے، ان کی زمین پر قبضہ جمانے اور آبادیاتی تبدیلی کے ذریعے ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے ترتیب دی جا رہی ہیں۔ یہی کچھ کشمیر میں بھی ہو رہا ہے، جہاں بھارت انہی پالیسیوں کو ایک نئے انداز میں نافذ کر رہا ہے۔

اسرائیل کی حالیہ پالیسی کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قابض طاقتیں ہمیشہ انسانی پہلو کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، فلسطینیوں کو ہجرت کے آزادانہ انتخاب کا موقع دینے کی بات کی جا رہی ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ جب ان پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہو، ان کا محاصرہ کیا جا رہا ہو، بنیادی ضروریات زندگی سے انہیں محروم رکھا جا رہا ہو، تو یہ انتخاب کس حد تک آزاد رہ جاتا ہے؟ اگر واقعی فلسطینیوں کو نقل مکانی کی آزادی حاصل ہے تو پھر انہیں اپنے وطن میں رہنے کی آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟ اس منطق میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے، جو اسرائیلی پالیسیوں کے دوہرے معیار کو عیاں کرتا ہے۔

اس طرح کی پالیسیوں کا مقصد صرف فلسطینیوں کو بےدخل کرنا نہیں، بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا حل فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرنے میں نہیں، بلکہ انہیں غیر محسوس طریقے سے ان کے وطن سے بے دخل کر کے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے میں ہے۔

اس حکمتِ عملی میں سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس اقدام کو انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جائز قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو تاریخی طور پر استعماری طاقتوں کا ایک پرانا طریقہ کار رہا ہے۔

یہی پالیسی کشمیر میں بھی اپنائی جا رہی ہے، بھارت نے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35-A کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسانے کے لیے دروازے کھول دیے، اس اقدام کے ذریعے بھارت بھی فلسطین کی طرز پر ایک نئی آبادیاتی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں کشمیریوں کی زمینوں پر غیر مقامی ہندوؤں کو آباد کر کے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

 یہ اقدام محض ایک قانونی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جو کشمیر میں اسرائیل کے فلسطین ماڈل کی عکاسی کرتا ہے، اسرائیل اور بھارت کی پالیسیوں میں ایک حیران کن مماثلت پائی جاتی ہے۔

اسرائیل فلسطین میں یہودی بستیاں بنا کر فلسطینی آبادی کو محدود کر رہا ہے، جبکہ بھارت کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بسا کر مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے، اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے کے بعد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جا رہے ہیں، جبکہ بھارت بھی کشمیریوں پر مسلسل دباؤ ڈال کر انہیں ہجرت پر مجبور کر رہا ہے اور پھر یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ ترقی اور خوشحالی کے لیے ہو رہا ہے۔

ان دونوں خطوں میں فوجی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی ایک جیسی ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں پر غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو اور محاصرے عائد کیے، وہی کچھ بھارت نے کشمیر میں کیا۔

فلسطین میں اسرائیلی فوج گرفتاریوں، گھروں کی مسماری اور گولیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا رہی ہے، جبکہ بھارت بھی آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ جیسے قوانین کے تحت کشمیریوں پر جبر کے وہی حربے آزما رہا ہے۔

اس قانون کے تحت بھارتی فوج کو کشمیریوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے قتل کرنے کا اختیار حاصل ہے، جو فلسطین میں اسرائیلی فوج کے انتظامی حراست کے قانون سے ملتا جلتا ہے۔

فلسطین اور کشمیر دونوں جگہوں پر مزاحمت کو دہشتگردی قرار دیا جاتا ہے، جبکہ قابض طاقتوں کے مظالم کو دفاع کا نام دیا جاتا ہے، اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو عالمی میڈیا میں شدت پسند تحریک کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دے کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

عالمی سیاست میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی طاقتیں اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس کے تمام مظالم کو نظر انداز کر دیتی ہیں، جبکہ بھارت کو ایک بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے کشمیر میں اقدامات کو معمولی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود دونوں خطوں میں عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

مسلم دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین اور کشمیر صرف دو الگ الگ علاقائی تنازعات نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے استعماری منصوبے کا حصہ ہیں، جہاں قابض طاقتیں نہ صرف زمینوں پر قبضہ کر رہی ہیں بلکہ ان کی آبادیاتی ترکیب کو بھی مکمل طور پر بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اگر فلسطین میں اسرائیل کامیاب ہوتا ہے تو کشمیر میں بھارت کے لیے بھی یہی ماڈل کامیاب بنانے میں آسانی ہو جائے گی، یہاں پر پاکستان کی پالیسی قابلِ توجہ ہے، جس نے ہمیشہ فلسطین کی کھل کر حمایت کی ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی ایک واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔

عرب دنیا کو بھی اسی طرح کے ایک اجتماعی اور ٹھوس موقف کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل اور بھارت کے استعماری منصوبوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کیا جا سکے۔

یہ دونوں مسئلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ قبضے اور جبر کو جتنا بھی جائز قرار دینے کی کوشش کی جائے، تاریخ نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ جبری قبضے ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمت جاری ہے، کشمیر کی جدوجہد بھی ختم ہونے والی نہیں۔

جبری قبضہ کبھی بھی ایک مستقل حقیقت نہیں بن سکتا، اور تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ یہی اصول فلسطین اور کشمیر دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر راسخ الكشميری

آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اسرائیل امریکا غزہ فلسطین کشمیر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا فلسطین فلسطین اور کشمیر فلسطینیوں کو میں اسرائیل اسرائیل اور جبکہ بھارت فلسطین میں کی کوشش کر کر رہا ہے کے طور پر کرتا ہے جاتا ہے کو ایک کے لیے کیا جا جا رہا دیا جا کے تحت اور اس جا رہی

پڑھیں:

عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ

دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے اقدامات کو جاری رکھنے سے روکنے کے لیے تمام ممکن قانونی اور موثر اقدامات اٹھائیں، جن میں سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔

اس موقعے پر مسلم ممالک کے سربراہان نے کہا ہے کہ اسرائیل نے تمام ریڈلائنز عبور کر لی ہیں، اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ میں اسرائیلی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے، انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہوگا، دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس انکوائری کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دے دیا، جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں پر حملے جاری رکھے گا چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔

 دوحہ میں خلیج تعاون کونسل کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں مشرق وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال، خصوصاً اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مربوط اور اجتماعی موقف اختیار کرنے پر غور کیا گیا۔ خلیج تعاون کونسل کی سپریم کونسل نے اس اجلاس کے دوران اپنی دفاعی کونسل کو واضح ہدایات جاری کیں کہ مشترکہ دفاعی نظام اور خطے کی مزاحمتی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔

اس موقعے پر کہا گیا کہ اسرائیل کی جانب سے قطر کو نشانہ بنانا نہ صرف خود قطر کی سلامتی کے لیے بلکہ پوری خلیجی اور عرب دنیا کے امن و استحکام کے لیے ایک براہ راست خطرہ ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی محض فریقین کے مابین تنازعہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی، مفادات کی جنگ اور مذہبی، تہذیبی اور سیاسی اثرورسوخ کے پھیلاؤ کا اکھاڑہ بنتا جا رہا ہے۔

دوحہ میں منعقد ہونے والا ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا، جس میں مسلم دنیا کے سربراہان مملکت نے یک زبان ہو کر اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے تمام بین الاقوامی، انسانی اور اخلاقی حدوں کو پار کرنے کے مترادف قرار دیا۔ شرکائے اجلاس نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے جس انداز سے غزہ پر حملے کیے، اسپتالوں، اسکولوں، رہائشی علاقوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنایا، وہ صرف جنگی جرائم نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین مظالم ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں مسلم دنیا کے اتحاد، سنجیدگی اور عملی اقدامات کا حقیقی امتحان شروع ہوتا ہے۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نہایت مدلل اور دوٹوک انداز میں اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ دراصل مشرق وسطیٰ میں مستقل عدم استحکام، تشدد اور کشیدگی کا ایندھن ہے۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ اسرائیل کی موجودہ جارحانہ پالیسیاں کسی محدود فوجی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کے لیے ترتیب دی گئی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف غزہ میں جاری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے بلکہ ہر اس کوشش کو ناکام بنانا ہے جو فلسطینی عوام کے جائز اور تاریخی حقوق کے حصول کی طرف جاتی ہو۔

وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے تجویز دی کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کی جائے، تاکہ اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کا عملی جواب دیا جا سکے۔ ان کی جانب سے اسرائیل کے توسیعی منصوبوں کو روکنے کے لیے ایک ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز نہایت بروقت اور قابل عمل ہے۔

پاکستان کی یہ پالیسی کہ وہ فلسطین کے معاملے پر قطر سمیت تمام عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ کھڑا ہے، ایک مضبوط اور باعزت سفارتی موقف کی عکاسی کرتی ہے۔ وزیراعظم نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے اور عالمی برادری کو اس ظلم کے خلاف اپنی خاموشی ترک کرنی چاہیے، کیونکہ خاموشی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔

 یہ بات عیاں ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی ادارے ناکام ہو چکے ہیں یا پھر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں اگر مسلم دنیا، خصوصاً خلیج کے دولت مند اور عسکری طور پر مستحکم ممالک بھی عملی ردعمل سے گریز کرتے رہے تو اسرائیل مزید جارحیت کر سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ صرف ’’ ہمیں افسوس ہے‘‘ یا ’’ ہم سخت مذمت کرتے ہیں‘‘ جیسے روایتی جملوں سے نکل کر ایک مضبوط، مربوط، قانونی اور عملی حکمت عملی اپنائی جائے۔

دوحہ اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ اسلامی ممالک نے مشترکہ موقف اختیار کیا، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، اس کا امتحان تب ہو گا جب ان بیانات کو عملی اقدامات میں بدلا جائے گا۔ عرب لیگ، او آئی سی اور جی سی سی جیسے پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلی جارحیت پر مقدمات دائر کریں، اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک پر دباؤ ڈالیں اور فلسطینی عوام کے حق میں ایک عالمی سفارتی مہم کا آغاز کریں۔

 مغربی میڈیا کا بڑا حصہ یا تو اسرائیلی بیانیے کو فروغ دے رہا ہے یا پھر فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایسے میں مسلم ممالک کے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ایک متبادل بیانیہ تشکیل دے، اور دنیا کے سامنے اسرائیلی مظالم کی حقیقت کو بے نقاب کرے۔

اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس انکوائری کمیشن کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی حملوں کو نسل کشی قرار دینا، اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں پر کس قدر خوفناک مظالم ہورہے ہیں۔ کمیشن نے فلسطین کی حالیہ صورتحال، خاص طور پر 2023 اور 2024 کے دوران اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی فوجی کارروائیوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اور ان ہولناک جرائم کی براہِ راست ذمے داری اسرائیل کے اعلیٰ ترین حکام، جن میں وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو، اسرائیلی صدر اور سابق وزیرِ دفاع قرار دیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد نہ صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنانا تھا بلکہ ان میں ایک مخصوص نسلی اور قومی گروہ، یعنی فلسطینی عوام، کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر تباہ کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ نسل کشی کا الزام ایک بین الاقوامی قانونی اصطلاح ہے جو اس وقت عائد کیا جاتا ہے جب کسی مخصوص گروہ کو جزوی یا مکمل طور پر تباہ کرنے کی نیت سے منظم اقدامات کیے جائیں، اور رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ایسے ہی اقدامات کیے۔ یہ رپورٹ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور بین الاقوامی فوجداری عدالت جیسے اداروں کے لیے ایک مضبوط قانونی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہے تاکہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

 ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اسرائیل حماس کے رہنماؤں پر حملے جاری رکھے گا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کو اپنی سرحدوں سے باہر بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کے خلاف کارروائی ضروری ہے کیونکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے، تاہم انھوں نے اسرائیل کو محتاط رہنے کا مشورہ بھی دیا ۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسی میں سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے جب کہ امریکا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان بیانات سے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے، خصوصاً ان ممالک میں جہاں حماس کے رہنما موجود ہو سکتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی حملوں کو وہاں خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔

اب وقت ہے کہ مسلمان حکمران، علماء، دانشور، صحافی، اور عوام سب مل کر ایک واضح اور مؤثر پیغام دیں کہ ظلم کے خلاف ہماری خاموشی ختم ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام تنہا نہیں، ان کے ساتھ پوری امت مسلمہ کھڑی ہے۔ اسرائیل کو نہ صرف عالمی قوانین کے تحت جوابدہ بنایا جائے گا بلکہ مسلم دنیا اپنے تمام وسائل بروئے کار لا کر اس بربریت کے خلاف ڈٹ جائے گی۔ یہی وہ موقع ہے جہاں تاریخ رقم کی جائے گی، یا پھر تاریخ ہمیں فراموش کر دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی برادری کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرے، حریت کانفرنس
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
  • وزیراعظم نے اسلام آباد میں زمینوں پر قبضے اور جعلسازی کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی
  • مسئلہ فلسطین حل کرناہوگا،گریٹراسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہے، امیر قطر
  • بھارتی ٹیم کے رویے پرچئیرمین پی سی بی محسن نقوی کا ردعمل سامنے آگیا
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر