موسمی تبدیلیوں نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے،ڈاکٹر الطاف
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ کے زرعی، تدریسی اور تحقیقی اداروں کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث فصلوں میں نئی بیماریوں اور حشرات نے جنم لیا ہے، گرمی پد میں اضافے، بے ترتیب بارشوں، بیماریوں اور حشرات کی وجہ سے زرعی اجناس کی پیداوار سخت متاثر ہو رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے زرعی تحقیقاتی اداروں کو جدید سائنسی تحقیق کو فروغ دینا ہوگا۔منگل کے روزسندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کی میزبانی میں ”روایتی طریقوں کے ذریعے گندم کی اقسام کی ترقی” کے موضوع پر دو روزہ نیشنل ٹریننگ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ زراعت ہے، جس کی وجہ سے مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی بیماریوں اور حشرات کے حملوں سے بچاؤ کے لیے زرعی اجناس میں قوتِ مدافعت پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے لیے تحقیقی اداروں کے ماہرین کو مشترکہ تحقیق کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ڈاکٹر الطاف علی سیال نے مزید کہا کہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موسمیاتی لچک اور پائیدار گندم کی پیداوار پر تحقیق ناگزیر ہے، کیونکہ گندم پاکستان کی بنیادی غذا ہونے کے ساتھ ساتھ قومی غذائی تحفظ اور اقتصادی استحکام میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں اور نئی بیماریوں کے دباؤ کے باعث زیادہ پیداواری، بیماریوں سے محفوظ اور موسمیاتی اثرات سے ہم آہنگ گندم کی اقسام کی تیاری وقت کی ضرورت ہے۔ جدید بائیوٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ میں نمایاں پیش رفت کے باوجود، روایتی طریقہ ہائے افزائش نئی اقسام کی بہتری میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ، مظہرالدین کیریو نے کہا کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر ماہرین کو اپنی تحقیق میں موسمی خدشات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس تربیتی ورکشاپ کے ذریعے کسانوں، نجی سیڈ کمپنیوں کے ماہرین اور طلبہ کو بھی جدید تحقیق اور تکنیکی مہارتوں سے روشناس کرایا جائے گا تاکہ موسمی چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جا سکے۔ہائی پاور فارمز کمیٹی، سندھ زرعی یونیورسٹی کے چیئرمین، ڈاکٹر مجاہد حسین لغاری نے کہا کہ سندھ ز رعی یونیورسٹی موسمیاتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم اور کپاس کی ابتدائی اقسام پر تحقیق کر رہی ہے، تاکہ زیادہ پیداوار اور بہتر معیار کی اقسام متعارف کرائی جا سکیں۔اس موقع پر ڈائریکٹر سیڈ پروڈکشن اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر، ڈاکٹر ظہور احمد سومرو اور ڈاکٹر تنویر فتاح ابڑو نے یونیورسٹی کے ایس پی ڈی سی کے تجرباتی فارمز پر ہونے والی تحقیق اور تجربات پر اپنے مقالے پیش کیے۔ ریسرچ آفیسر عبداللطیف لغاری نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، جبکہ تقریب کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے انجام دیے۔ اس تربیتی ورکشاپ میں مختلف اداروں کے ماہرین طلبہ اور بجی کمپنیوں سے منسلک 50 سے زائد امیدوار تربیتی ورکشاپ میں حصہ لے رہے ہیں، ورکشاپ میں جامعہ کے اساتذہ، طلبہ، مختلف تدریسی و تحقیقی اداروں کے نمائندگان، کسانوں اور نجی کمپنیوں کے افسران کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اداروں کے کے ماہرین نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، حکومت کا رویہ بزدلانہ ہے: عمر ایوب
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب خان نے ایک سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پاکستان کے لیے ایک “ٹک ٹک ٹائم بم” ہے، اور یہ درحقیقت پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے رویے کو بزدلانہ، کمزور اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
عمر ایوب نے وزیر اعظم شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “انہیں ‘ارڈلی’ ہونا بند کرنا ہوگا۔” ان کے بقول، موجودہ حکومت کی سمت واضح نہیں ہے اور ملک شدید داخلی اور خارجی خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جنرل باجوہ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد معیشت تباہی کا شکار ہو چکی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں اس وقت حقیقی لیڈر، عمران خان، سیاسی قیدی کے طور پر قید ہیں، جبکہ پی ٹی آئی پر شدید دباؤ اور ریاستی طاقت کا استعمال جاری ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ چاروں صوبے، بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ عوامی حکومت غائب ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ انہوں نے 2023 میں یوکرین کو 850 ملین ڈالر مالیت کے توپ خانے کے گولے برآمد کیے، جو آج ملک کے اپنے دفاع کے لیے درکار ہو سکتے تھے۔ ان کے بقول، ایران سے بلوچستان کے راستے سالانہ 550 ارب روپے مالیت کا پیٹرول اسمگل ہو رہا ہے، جس سے ملکی ریفائنریز کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگے پیٹرول اور کم طلب کی وجہ سے ریفائنریز کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، اور اب جے پی 6 اور جے پی 8 جیسے اہم جیٹ فیول کی ریفائننگ بھی ممکن نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں فوجی سازوسامان کے اسپیئر پارٹس کی کمی اور اسٹریٹجک فیول ذخائر پر بھی دباؤ ہے۔
عمر ایوب نے حکومت کو “مسلط شدہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بحرانوں کے درمیان ایک “ہیڈلائٹس میں پھنسے ہرن” کی مانند ہے—نہ کوئی قیادت نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل۔
انہوں نے قوم، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کی علاقائی سالمیت، دفاعی صلاحیت اور اقتصادی بقاء کے لیے فوری اور جراتمندانہ فیصلے کریں، کیونکہ “صورتحال نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔”
Post Views: 1