حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ کے زرعی، تدریسی اور تحقیقی اداروں کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث فصلوں میں نئی بیماریوں اور حشرات نے جنم لیا ہے، گرمی پد میں اضافے، بے ترتیب بارشوں، بیماریوں اور حشرات کی وجہ سے زرعی اجناس کی پیداوار سخت متاثر ہو رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے زرعی تحقیقاتی اداروں کو جدید سائنسی تحقیق کو فروغ دینا ہوگا۔منگل کے روزسندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کی میزبانی میں ”روایتی طریقوں کے ذریعے گندم کی اقسام کی ترقی” کے موضوع پر دو روزہ نیشنل ٹریننگ ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ زراعت ہے، جس کی وجہ سے مختلف فصلوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی بیماریوں اور حشرات کے حملوں سے بچاؤ کے لیے زرعی اجناس میں قوتِ مدافعت پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے لیے تحقیقی اداروں کے ماہرین کو مشترکہ تحقیق کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔ڈاکٹر الطاف علی سیال نے مزید کہا کہ خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موسمیاتی لچک اور پائیدار گندم کی پیداوار پر تحقیق ناگزیر ہے، کیونکہ گندم پاکستان کی بنیادی غذا ہونے کے ساتھ ساتھ قومی غذائی تحفظ اور اقتصادی استحکام میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے، موسمیاتی تبدیلیوں اور نئی بیماریوں کے دباؤ کے باعث زیادہ پیداواری، بیماریوں سے محفوظ اور موسمیاتی اثرات سے ہم آہنگ گندم کی اقسام کی تیاری وقت کی ضرورت ہے۔ جدید بائیوٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ میں نمایاں پیش رفت کے باوجود، روایتی طریقہ ہائے افزائش نئی اقسام کی بہتری میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ، مظہرالدین کیریو نے کہا کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کے پیش نظر ماہرین کو اپنی تحقیق میں موسمی خدشات کو مدنظر رکھنا ہوگا اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس تربیتی ورکشاپ کے ذریعے کسانوں، نجی سیڈ کمپنیوں کے ماہرین اور طلبہ کو بھی جدید تحقیق اور تکنیکی مہارتوں سے روشناس کرایا جائے گا تاکہ موسمی چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جا سکے۔ہائی پاور فارمز کمیٹی، سندھ زرعی یونیورسٹی کے چیئرمین، ڈاکٹر مجاہد حسین لغاری نے کہا کہ سندھ ز رعی یونیورسٹی موسمیاتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم اور کپاس کی ابتدائی اقسام پر تحقیق کر رہی ہے، تاکہ زیادہ پیداوار اور بہتر معیار کی اقسام متعارف کرائی جا سکیں۔اس موقع پر ڈائریکٹر سیڈ پروڈکشن اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر، ڈاکٹر ظہور احمد سومرو اور ڈاکٹر تنویر فتاح ابڑو نے یونیورسٹی کے ایس پی ڈی سی کے تجرباتی فارمز پر ہونے والی تحقیق اور تجربات پر اپنے مقالے پیش کیے۔ ریسرچ آفیسر عبداللطیف لغاری نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی، جبکہ تقریب کی میزبانی کے فرائض ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر نے انجام دیے۔ اس تربیتی ورکشاپ میں مختلف اداروں کے ماہرین طلبہ اور بجی کمپنیوں سے منسلک 50 سے زائد امیدوار تربیتی ورکشاپ میں حصہ لے رہے ہیں، ورکشاپ میں جامعہ کے اساتذہ، طلبہ، مختلف تدریسی و تحقیقی اداروں کے نمائندگان، کسانوں اور نجی کمپنیوں کے افسران کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اداروں کے کے ماہرین نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

پنجاب میں ائیر کوالٹی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گیا، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے

آج ڈیرہ غازی خان اور قصور میں ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 500 ریکارڈ کیا گیا، جو خطرناک ترین سطح ہے۔ ان دونوں شہروں نے آلودگی کے لحاظ سے لاہور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

لاہور میں الودگی انتہائی حد تک بڑھ گئی جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضحر ہے، شہری نزلہ زکام بخار سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔

حکومت پنجاب کی جانب سے آلودگی کی روک تھام کیلئے کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، ترقیاتی کاموں اور صفائی سے قبل پانی کے چھڑکاو کا سلسلہ جاری ہے۔

دھوآں چھوڑنے والی گاڑیوں  الودگی پھیلانے والے بھٹو کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، شہر بھر کے ہوٹلوں بار بی کیو کو کوئلہ اور لکڑیاں جلانے کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی، ماہرین کے مطابق بیماریوں سے بچنے کیلئے ماسک اور عینک کا استعمال کریں۔

پنجاب کے بیشتر شہر فضائی آلودگی اور سموگ کی شدید لپیٹ میں ہیں، جہاں ہفتے کی صبح فضائی معیار خطرناک حد تک گر گیا۔

بین الاقوامی ماحولیاتی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق صبح نو بجے ڈیرہ غازی خان اور قصور میں ائیر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) 500 ریکارڈ کیا گیا، جو خطرناک ترین سطح ہے۔ ان دونوں شہروں نے آلودگی کے لحاظ سے لاہور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

اے کیوائیر پنجاب کے مطابق لاہور میں صبح کے وقت اے کیو آئی 385، شیخوپورہ میں 313 اور گوجرانوالہ میں 243 ریکارڈ کیا گیا۔

بین الاقوامی ادارے آئی کیو ائیر کے مطابق گوجرانوالہ میں آلودگی کی شدت 442، لاہور میں 400 اور فیصل آباد میں 337 تک پہنچ گئی۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں آلودگی کی سطح میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔

آئی کیو ائیر کے مطابق سول سیکرٹریٹ کے علاقے میں اے کیو آئی 1018، وائلڈ لائف پارکس میں 997 اور فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کے علاقے میں 820 ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شاہدرہ، ملتان روڈ اور جی ٹی روڈ پر اے کیو آئی 500، برکی روڈ پر 396، ایجرٹن روڈ پر 377 اور کاہنہ میں 365 رہا۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بھارتی سرحدی علاقوں سے آنے والی آلودہ مشرقی ہوائیں، درجہ حرارت میں کمی، کم ہوا کی رفتار (ایک سے چار کلومیٹر فی گھنٹہ) اور بارش نہ ہونے کے باعث آلودگی کے بکھراؤ میں کمی دیکھی جارہی ہے۔

محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق دن کے اوقات، خصوصاً دوپہر ایک بجے سے شام پانچ بجے کے درمیان، ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ متوقع ہے جس سے فضائی معیار میں جزوی بہتری آسکتی ہے۔

پاکستان ائیر کوالٹی انیشی ایٹو کی ممبر اور ماہر ماحولیات مریم شاہ کہتی ہیں  2025 میں سال کے آغاز پر فضا نسبتاً صاف تھی، تاہم اکتوبر میں پی ایم 2.5 کی سطح گزشتہ سال 2024 کے مساوی ہو گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق ہم نومبر میں، جو سموگ کا سب سے خطرناک مہینہ سمجھا جاتا ہے، اسی بلند آلودگی کی بنیاد کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں جس کے بعد پچھلے سال شدید سموگ دیکھی گئی تھی۔ موجودہ بلند سطح اور موسمی حالات کے امتزاج سے امسال بھی شدید سموگ کے خطرے میں اضافہ ہوگیا ہے۔

محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب صاف، صحت مند اور محفوظ فضا کے قیام کے لیے تمام اداروں کے اشتراک سے مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔

محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق پنجاب حکومت کے تمام متعلقہ ادارے وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر انسدادِ سموگ کے لیے دن رات تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹریل چیکنگ مہم جاری ہے۔

پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کے ذرات کی مسلسل نگرانی کے لیے جدید مانیٹرنگ اسٹیشن متحرک ہیں۔

محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز، ماسک کے استعمال اور گھروں کے اندر رہنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر تمام محکمے فعال — ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹری چیکنگ مہم جاری ہے، شہر کے مختلف علاقوں میں پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح کی نگرانی کے لیے جدید اسٹیشن متحرک ہے۔

محکمہ ماحولیات نے کہا کہ صورتحال قابو میں ہے، کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • پاکستان میں ہیلتھ کا بجٹ گیارہ سو 56 بلین روپے ہے، سید مصطفی کمال
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • گورنر پنجاب کی کسانوں سے ملاقات، سیلاب سے متاثرہ فصلوں اور مالی مشکلات پر تبادلہ خیال
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • میرے کیریئر کو سب سے زیادہ نقصان وقار یونس نے پہنچایا: عمر اکمل کا سابق ہیڈ کوچ پر سنگین الزام
  • سندھ کے کسانوں کا جرمن کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان
  • پنجاب میں ائیر کوالٹی انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گیا، شہری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے
  • کراچی سمیت سندھ کے مہاجروں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے، ڈاکٹر سلیم حیدر
  • کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل رقم صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ