عمر عبداللہ کو دو شہریوں کے قتل کا معاملہ بھارتی وزیر داخلہ کے سامنے اٹھانا چاہیئے تھا، محبوبہ مفتی
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر نے کہا کہ اگر ہندوستانی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ باعزت تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے لوگوں کے حالیہ قتل میں ملوث افراد کو سخت سزا دینی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ اگر ہندوستانی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ باعزت تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے لوگوں کے حالیہ قتل میں ملوث افراد کو سخت سزا دینی چاہیئے۔ آج سرینگر میں اپنے پارٹی دفتر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر کے لوگوں کی عزت اور وقار کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں، جب تک آپ ان لوگوں کے قتل میں ملوث لوگوں کا احتساب نہیں کریں گے، تعلقات نہیں چلیں گے۔ محبوبہ مفتی بومی، سوپور کے وسیم احمد میر اور کٹھوعہ کے مکھن دین کے حالیہ قتل کا حوالہ دے رہے تھے، جنہوں نے جموں و کشمیر پولیس کے تشدد کا الزام لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ وسیم احمد میر مبینہ طور پر 6 فروری کی رات کو فوج کی فائرنگ میں مارا گیا تھا جب وہ سیب کے کریٹوں سے لدا ٹرک چلا رہا تھا، اس دوران مکھن دین نے پولیس پر تشدد اور ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے خودکشی کرلی۔
محبوبہ مفتی نے جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ ملاقات میں عام شہریوں کی ہلاکت کا مسئلہ نہ اٹھانے پر نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عمر عبداللہ کو دو شہریوں کے قتل کا معاملہ وزیر داخلہ کے سامنے اٹھانا چاہیئے تھا اور ان ہلاکتوں میں ملوث فوج اور پولیس اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرنا چاہیئے تھا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عمر عبداللہ نے وزیر داخلہ کے سامنے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجرموں کو سزا دینے کے بجائے ان کی بیٹی التجا مفتی کے پرسنل سیکیورٹی افسران کو معطل کر دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان کی معطلی منسوخ کی جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جموں و کشمیر کے عمر عبداللہ محبوبہ مفتی وزیر داخلہ نے کہا کہ انہوں نے میں ملوث لوگوں کے کے ساتھ
پڑھیں:
پی ٹی آئی نے قائمہ کمیٹی داخلہ میں عمران خان سے ملاقات کا معاملہ اٹھا دیا
— فائل فوٹوقائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں بانئ پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات زیر بحث آگئی۔
حامد رضا نے کہا کہ جیل میں ہم بانئ پی ٹی آئی سے ملنے جاتے ہیں تو وہاں پولیس ہمارے ساتھ کیا کرتی ہے۔
نثار جٹ نے سوال اٹھایا کہ اسلام آباد پولیس کا کام کیا پارلیمنٹیرینز کو ہراساں کرنا رہ گیا ہے؟
حامد رضا نے اعتراض اٹھایا کہ اسلام آباد پولیس کی کیا کارکردگی ہے؟چوری ڈکیتی کے بڑھتے واقعات پر تو کوئی اقدام نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے بانئ پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کا اختیار میرے پاس ہے ہم جواب دیں گے، اگر کوئی دوسرا ادارہ ملوث ہے تو وہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اسلام آباد پولیس سے جواب کے لیے آئندہ ایجنڈے پر رکھیں۔
زرتاج گل نے کہا کہ بانئ پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے جاتی ہوں تو 6،6 گھنٹے باہر روک کر ملاقات نہیں کروائی جاتی، عمران خان کی بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جاتا ہے، روزانہ کا ایک تماشہ بنا رکھا ہے۔
حامد رضا نے کہا آئی جی اسلام آباد کو بلا لیں کیونکہ میری انسانی حقوق کمیٹی میں تو وہ کئی نوٹسز کے باوجود نہیں آئے۔