ریاض میں پاکستانی ٹیک انڈسٹری کے نمائندگان کا نیٹ ورکنگ ڈنر
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
ریاض(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 فروری2025ء)سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں پاکستانی ٹیک انڈسٹری کے نمائندگان کے اعزاز میں مجلس پاکستان کی جانب سے ایک نیٹ ورکنگ ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ خصوصی تقریب میں پاکستان کی مختلف آئی ٹی کمپنیاں اور سٹارٹ اپس کے مالکان، سعودی عرب میں موجود پاکستانی کاروباری شخصیات اور مختلف شعبوں کے ماہرین نے شرکت کی۔
عشائیہ کا مقصد پاکستانی ٹیک انڈسٹری کے نمائندگان کے درمیان تعلقات استوار کرنا، تجربات کا تبادلہ کرنا اور نئے تجارتی مواقع کی تلاش تھا۔ شرکاء نے سعودی عرب میں آئی ٹی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے آپس میں رابطے قائم کیے اور ممکنہ شراکت داریوں پر گفتگو کی۔ اس موقع پر مجلس پاکستان کے سرپرست سید ثاقب زبیر، صدر مجلس پاکستان رانا عبد الرؤف، نائب صدر رانا سرفراز، صدر یوتھ فورم محمد ابراہیم جٹ، پاکستان بزنس فورم کے جنرل سیکرٹری ظفر جاوید اور پروفیسر رفیق چوہدری نے بھی شرکت کی اور سعودی عرب میں پاکستانی ٹیک انڈسٹری کی ترقی کے امکانات پر گفتگو کی۔(جاری ہے)
نیٹ ورکنگ ڈنر کے دوران پاکستانی انٹرپرینیورز نے سعودی عرب میں اپنی کمپنیوں کی توسیع اور مشترکہ منصوبوں پر بات چیت کی۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی تقریبات عالمی سطح پر پاکستانی کمپنیوں کی پہچان اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے اہم ہیں۔ کامیاب بزنس ماڈلز اور آئی ٹی فیلڈ میں اہم کام کرنے والوں کو شیلڈز پیش کی گئیں تقریب کے دوران کامیاب بزنس ماڈلز کے حامل افراد اور آئی ٹی کے شعبے میں اہم کام کرنے والوں کو شیلڈز پیش کی گئیں۔ یہ اعزاز ان کی شاندار کامیابیوں اور پاکستانی ٹیک انڈسٹری کی ترقی میں ان کے کردار کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ ایوارڈز حاصل کرنے والوں نے اپنی محنت اور اختراعات کو سراہا اور مستقبل میں مزید کامیابیوں کے حصول کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ منتظمین اور شرکاء نے سعودی گورنمنٹ بالخصوص ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن اور سفارت خانہ پاکستان کی کاوشوں کو سراہا عشائیے کے اختتام پر شرکاء نے اپنے خیالات کا تبادلہ کیا اور مستقبل میں کاروباری تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر ایک خوشگوار ماحول میں شرکاء نے ایک دوسرے کو کاروباری کامیابیوں کے لیے نیک خواہشات دیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی ٹیک انڈسٹری میں پاکستان شرکاء نے آئی ٹی کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟
پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحالخلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔
ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔(جاری ہے)
ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔
لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔
‘‘ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیتتجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔
‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔
سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔
لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔‘‘میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘
پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلاتعالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک