امریکہ میں فلسطین اور اہل فلسطین کے مقدر کے فیصلے لکھے جا رہے ہیں جبکہ مورخ لکھے گا جب یہ فیصلے لکھے جا رہے تھے تو کس اسلامی ملک میں کیا ہو رہا تھا۔ اس ملک کی حکمران اشرافیہ کیا سوچ رہی تھی اور اس کا طرزعمل کیا تھا۔ فلسطین پر اسرائیلی یلغار ایک سال دس ماہ تک جاری رہی۔ محتاط اندازے کے مطابق اس میں پچاس ہزار کے قریب مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ تقریباً اتنے ہی معذور ہوئے۔ غزہ کا علاقہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ پورے غزہ میں کوئی ایک عمارت اپنے پائوں پر کھڑی نظر نہ آتی تھی۔ سب کچھ زمین بوس ہو گیا۔ سکول، ہسپتال، کیمپ سب کچھ وحشیانہ بمباری کی نذر ہو گیا۔ اس ہولناکی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا البتہ تصاویر اور ویڈیوز اس دہشت گردی کی کہانیاں سنا سکتی ہیں۔ ان قیامتوں کے گزر جانے کے باوجود فلسطینیوں نے محدود وسائل کے ساتھ ایک بہت بڑے دشمن کا مقابلہ کیا جسے امریکہ اور یورپ کی ہر قسم کی مدد حاصل تھی۔ جس میں جدید اسلحہ اور کئی ہزار ارب ڈالر کی امداد بھی شامل ہے۔ فلسطینیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اسرائیل انہیں برباد تو کر گیا لیکن انہیں فتح نہیں کر سکا۔ فلسطینیوں نے اپنے لہو سے میدان جنگ میں جو باب رقم کئے ہیں وہ یہی کر سکتے تھے۔ دیکھنا ہے ان کی جیتی ہوئی جنگ کو اب مذاکرات کی میز پر لڑنے والے کس طرح لڑتے ہیں اور ان کے لیے کیا حاصل کرتے ہیں یا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔
ٹرمپ نے ایک حکمت عملی کے تحت کئی شاہ و گدا امریکہ طلب کر لئے ہیں۔ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں سب کو ایک ہی پیغام دیا جائے گا۔ وہی پیغام ٹرمپ نے میڈیا کی وساطت سے دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر دیں تمام مسلمانوں نے اس خیال کو رد کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ غزہ کو خرید لے گا۔ اس پر امریکہ کے علاوہ یورپ کے بعض ملکوں سے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور سوال اٹھایا گیا کہ امریکہ ایسا کیونکر کر سکتا ہے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید ڈھٹائی سے جواب دیا یہ بالکل ہو سکتا ہے۔ تمام دنیا اسے بخوشی قبول کرے گی، ہم ملبہ ہٹائیں گے، تعمیر نو کریں گے۔ دنیا کی تمام سہولتیں اور خوبصورتی وہاں لائیں گے اور یہ سب کچھ نہایت آسانی سے ہو جائیگا۔ ٹرمپ یہ گفتگو کرتے ہوئے کسی مہذب ملک کے سربراہ کم اور ایک غنڈہ نما کاروباری شخص زیادہ نظر آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی غزہ کو خالی کرنے کے بعد وہاں لوٹنے کا حق نہیں رکھیں گے۔
صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والی پہلی شخصیت اردن کے شاہ عبداللہ تھے جنہیں کہا گیا کہ اردن بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ملک میں بسائے۔ انہوں نے یہی فرمائش اس سے قبل مصر کے وزیرخارجہ سے بھی کی جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا، دونوں ملکوں کو امریکہ کی طرف سے کئی ارب ڈالر کی سالانہ امداد ملتی ہے جس کے سہارے ان کی معیشت چل رہی ہے۔
ٹرمپ نے شاہ عبداللہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں وہ خود ہی بولتے رہے۔ انہوں نے شاہ عبداللہ کو بولنے کا کم موقع دیا اور ابتدا میں ہی کہہ دیا کہ شاہ عبداللہ سے زیادہ تر امور پر اتفاق ہو گیا ہے لیکن اس پریس کانفرنس کے بعد ابھی مزید بات ہو گی۔ شاہ عبداللہ نے حالات اور موقعہ کی مناسبت سے محتاط گفتگو کی اور کہا انہیں عرب دنیا کی طرف سے مشترکہ تجاویز کا انتظار ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔
ٹرمپ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ غزہ پر قبضہ کیسے کریں گے تو اسے جواب دیا گیا یو ایس کی اتھارٹی کے بل بوتے پر۔ اردن اور مصر کی دکھتی رگ امریکہ کے قبضے میں ہے۔ امریکہ دونوں ملکوں کی امداد بند کرکے انہیں عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ یاد رہے اردن ایسا ملک ہے جہاں پہلے ہی قریباً تین ملین کے قریب فلسطینی آباد ہیں، انہیں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران بے دخل کیا گیا تھا، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ آئندہ ایام میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور مصر کے عبدالفتح سیسی سے ملاقات کریں گے اور اپنی بات منوانے کی کوششیں کریں گے جسے پورا عالم اسلام رد کر چکا ہے۔ اس حوالے سے عرب ممالک سربراہی اجلاس 27 فروری کو ہو گا۔ فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہٹ دھرمی سے اپنے موقف پر قائم نظر آئے۔ ان کی گفتگو سے عیاں تھا کہ وہ یہودی لابی کو خوش کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایک موقع پر ان کے ساتھ بیٹھے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ چاہیں گے فلسطینی غزہ کے علاقے میں آ اور جا سکیں۔ موجودہ حالات میں کوئی ان کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔ اسے ایک چال قرار دیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی سے بہت پہلے ٹرمپ کے ایماء پر ہی دو ریاستی حل کا چرچا کیا گیا تھا لیکن آج ایک یکسر مختلف حل کیسے رکھ دیا گیا ہے جسے عرب دنیا ماننے کیلئے تیار نہیں، جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں حملے جاری رکھے جس کے بعد فلسطینیوں نے قیدیوں کی رہائی روک دی۔ ٹرمپ کو یہ بھی ناگوار گزرا لیکن اسے اسرائیلی جاری حملوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو دھمکی دے دی ہے کہ اگر ہفتے کی رات تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو پھر میں تمہیں دیکھ لوں گا اور قیامت ڈھا دوں گا۔ اسرائیل اپنے تمام تر وسائل کے باوجود حماس کو شکست نہیں دے سکا۔ ٹرمپ کو اس کا دکھ نظر آتا ہے۔ پس اب انہیں مذاکرات کے ذریعے غزہ سے نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایک موقع پر ٹرمپ کی اس ظالمانہ گفتگو کو پاس بیٹھے ان کے سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو ریبو اور ٹرمپ ٹیم کے بعض ارکان شرمندہ شرمندہ نظر آئے۔ انہوں نے اپنے طور پر اس گفتگو کے زہر کو نکال کر مطلب بیان کرنے کی کوششیں کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑی خواہشوں میں سے ایک نوبل پرائز برائے امن ہے لیکن جس ظالمانہ طرزعمل سے وہ اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سابق صدر اوباما کو اس اعزاز کا حق دار نہیں سمجھتے بلکہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہمیشہ کیلئے نکال کر اور اسرائیل کو اس کا غاصبانہ قبضہ دے کر اپنے آپ کو اس اعزاز کا مستحق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھارتی وزیراعظم مودی کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں اور وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو کشمیر پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے کئے گئے یعنی طاقت اور فسطائیت کے استعمال سے وہ فلسطینیوں کو ان کے دیرینہ حق سے محروم کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔ کچھ عجب نہیں وہ امت مسلمہ کو موت دکھا کر بخار پر راضی کر لیں یعنی آخر میں غزہ کی تقسیم اور دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ ایسا ہوا تو یہ سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوگا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: فلسطینیوں نے شاہ عبداللہ انہوں نے کیا گیا کریں گے کے بعد لیکن ا ہو گیا سب کچھ
پڑھیں:
اب بھی کہتا ہوں ایران ڈیل کرلے اس سے پہلے کہ سب ختم ہوجائے: ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کو مذاکرات کی پیشکش کردی ہے۔
خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کو بار بار ڈیل کرنے کا موقع دیا اور اب بھی کہتا ہوں ایران ڈیل کرلے اس سے پہلے کہ سب کچھ ختم ہوجائے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ایران اس تباہی کو روک سکتا ہے، ایران کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ معاہدہ کر لے اس سے پہلےکچھ بھی باقی نہ بچے، مزید حملے اس سے بھی زیادہ وحشیانہ ہوسکتے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ کچھ ایرانی سخت گیر لوگوں نے بہادری سے بات کی، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے، وہ سب اب مر چکے ہیں، اگر مذاکرات نہیں ہوئے تو یہ اور بھی بدتر ہو جائے گا پہلے ہی بہت بڑی موت اور تباہی ہو چکی ہے، لیکن اس قتل عام کو روکنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران کے جوہری مسئلے کے سفارتی حل کے لیے پرعزم ہیں، انتظامیہ کو ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ہدایت کی ہے، ایران عظیم ملک بن سکتا ہے، لیکن اس کیلئے انہیں پہلے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی خواہش کو مکمل طور پر ترک کرنا ہوگا۔
اس سے پہلے فاکس نیوز کو انٹرویو میں امریکی صدر نے کہا کہ اسرائیلی منصوبوں کا علم تھا لیکن امریکی فوج نے اس آپریشن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، ایران پر اسرائیلی حملوں میں واشنگٹن ملوث نہیں۔
مزید پڑھیں: عاصم سے منگنی ٹوٹنے کے بعد میرب کی نئی تصاویر نے سب کو حیران کردیا