اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 فروری ۔2025 )پاکستان کے لیے سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے موسمیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے اس طرح کا بنیادی ڈھانچہ نہ صرف کمیونٹیز کی حفاظت کرتا ہے اور اقتصادی ترقی کو سپورٹ کرتا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے میں بھی کردار ادا کرتا ہے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کے ترجمان محمد سلیم نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہاکہ شدید موسمیاتی بحران ملک کے کمزور انفراسٹرکچر کو خطرہ بنا رہا ہے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں سے ایک ہے کیونکہ خطے میں قدرتی آفات کی تعدد بہت زیادہ ہے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اہم بنیادی ڈھانچہ خاص طور پر سڑکیں، پانی اور بجلی کی فراہمی کے نیٹ ورکس اور شہری مراکز قدرتی آفات کا شکار ہیں انہوں نے کہا کہ موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے جو آب و ہوا سے پیدا ہونے والے جھٹکوں کو برداشت کر سکے اور طویل مدتی ترقی کی حمایت کر سکے. انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور جدت اور پائیدار صنعت کاری کو یقینی بنانا ہے انہوںنے کہا کہ حال ہی میں، حکومت نے موسمیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے چیلنج فنڈ متعارف کرایا ہے جسے جرمن وفاقی وزارت برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کی حمایت حاصل ہے انہوں نے کہاکہ فنڈ اعلی اثرات، صنفی ردعمل اور توسیع پذیر بنیادی ڈھانچے کے ذریعے مقامی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے اسٹریٹجک حل پر توجہ مرکوز کرتا ہے یہ متعلقہ حکومتی سیٹ اپ کو پائیدار ترقی کے اہداف اور کمیونٹیز کی فلاح و بہبود کے لیے جدید آب و ہوا کے لیے لچکدار بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو تیار کرنے اور لاگو کرنے کے لیے بااختیار بنائے گا اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ ملک کا بنیادی ڈھانچہ موسمیاتی اثرات کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کر سکتا ہے.

وزارت کے ترجمان نے کہا کہ چیلنج فنڈ صرف بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بارے میں نہیں ہے اور یہ موافقت کے حوالے سے ایک صلاحیت بنانے والا بھی ہوگا یہ تنظیموں، فرموں اور کمیونٹیز کو تکنیکی مہارت اور آپریشنل صلاحیتیں فراہم کرے گا جو موسمیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے درکار ہیں انہوں نے کہاکہ موسمیاتی لچک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ڈیزائن تعمیر اور اپ گریڈیشن میں مدد کے لیے مناسب فنڈنگ کی ضرورت ہے فنڈنگ کا انتظام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے.

انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کی مہارت اور مالی وسائل پاکستان میں موسمیاتی لچکدار انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بہت اہم ثابت ہوں گے دریں اثنا محمد صالح منگریو، ایگزیکٹو ڈائریکٹر سینٹر فار رورل چینج سندھ نے کہاکہ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ماحولیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچہ بہت اہم ہے مسلسل ترقی خطرات میں کمی اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو مستقبل کے موسمیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی ڈیزائن اور تعمیر کی جانی چاہیے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور زیادہ پائیدار اور مساوی مستقبل کی ضمانت دینے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں موسمی لچک کا انضمام ضروری ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پائیدار ترقی کے اہداف انہوں نے کہا کہ کی تعمیر کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور

اسلام آباد:

ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔

چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔

ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔

گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔

بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔

اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔

جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔

خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • پاکستان کا آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط کے حصول کے لیے اہم اقدام
  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • وزارت خزانہ کے اہم معاشی اہداف، معاشی شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا امکان
  • مہمند ڈیم پاور منصوبہ: کویت 25 ملین ڈالر قرض دے گا