فسلطینی مغربی کنارے کا شمالی علاقہ بدستور اسرائیلی حملوں کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
فلسطینی مغربی کنارے کے شمالی علاقے سے فلسطینی باشندوں کی جبری نقل مکانی کیلئے جاری غاصب صیہونی رژیم کی فوجی کارروائی جسے "آئرن وال" کا نام دیا گیا ہے، مسلسل 26ویں روز میں داخل ہو گئی ہے اسلام ٹائمز۔ فلسطینی میڈیا نے آج صبح اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے میں طولکرم نامی پناہ گزین کیمپ کے ارد گرد کئی ایک دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے آج صبح ہی طولکرم کے اردگرد کے کئی ایک علاقوں کو اپنی ہوائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کے بعد سے مغربی کنارے کے شمالی علاقہ جات کے خلاف جاری غاصب صیہونی رژیم کے انسانیت سوز حملے ان علاقوں کے فلسطینی مکینوں کی جبری نقل مکانی کا باعث بنے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم کی "آہنی دیوار" کے نام سے پہچانی جانے والی یہ فوجی مہم طولکرم میں آج مسلسل 20ویں روز بھی جاری ہے جس سے کم از کم 10 ہزار 500 فلسطینی شہریوں کی جبری نقل مکانی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی ہے۔ فلسطینی میڈیا نے مزید بتایا کہ قابض صیہونیوں نے طولکرم مہاجر کیمپ میں نہ صرف دسیوں رہائشی مکانات پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ انہیں فوجی بیرکوں میں بھی تبدیل کر دیا ہے جبکہ اس مہاجر کیمپ کا سخت محاصرہ بھی جاری جس کے باعث وہاں کے فلسطینی مکینوں کو علاقے میں داخل ہونے یا وہاں سے باہر جانے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ ادھر فلسطینی شہر جنین اور اس کے مہاجر کیمپ پر قابض صیہونی فوج کی سخت یلغار آج مسلسل 26ویں روز بھی جاری رہی جس کے نتیجے میں اب تک 25 فلسطینی شہری شہید اور 20 ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ فلسطینی میڈیا کے مطابق غاصب و سفاک صیہونی فوج نے جنین کی تمام املاک اور شہریوں کے گھروں سمیت بنیادی ڈھانچے کو بھی بڑے پیمانے پر تباہ کر ڈالا ہے جس میں صحت و تعلیم کے مراکز سر فہرست ہیں جبکہ عام فلسطینی شہریوں کو پانی، بجلی، خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔
-
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔