دھولیہ کے مسعود انصاری عرف ’مسعود ایمبولنس‘ کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
اپنے پیشے کو خدمت خلق کا ذریعہ بنالیا لینا ہر کسی کا مقدر نہیں ہوتا۔ لیکن جو خوش قسمت ایسا کرتے ہیں انہیں روزی کے ساتھ عزت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دھولیہ شہر کے حاجی مسعود انصاری (۳۷) عرف مسعود ایمبولنس اور ان کے فرزن د ابو ہریرہ انصاری (۴۳) بھی انہی لوگوں میں سے ہیں۔ شہر کے اقبال روڈ پر واقع بہشتی گلی میں رہنے والیمسعود انصاری گزشتہ ۰۴? سال سے ایمبولنس چلا رہے ہیں۔ یوں تو یہ ان کا پیشہ ہے لیکن وہ روزی کماتے ہوئے وہ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گزشتہ ۷? سال سے ان کے بیٹے ابو ہریرہ نے بھی ان کا ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔
دونوں ہی باپ بیٹے ہزاروں مریضوں اور میتوں کو ان کی منزل تک پہنچا چکے ہیں۔ اپنے گھر کے حالات نامساعد ہوتے ہوئے بھی دونوں کو دوسروں کی دشواریوں کا احساس رہتا ہے۔ مسعود انصاری آج خود ۳ ایمبولینس کے مالک ہیں لیکن دونوں باپ بیٹے قلیل کرایے پر مریضوں کو گھر سے اسپتال یااسپتال سے گھر پہنچاتے ہیں۔ میت کے معاملے میں ان کا جذبہ فی سبیل اللّہ ہوتا ہے۔ کسی نے کچھ دیا تو رکھ لیا نہیں دیا تو مانگنے سے گریز کیا۔ اپنی خدمات کے سبب مسعود بھائی ایمبولینس نہ صرف دھولیہ بلکہ خاندیش کے دیگر علاقوں کے علاوہ پڑوس کی ریاستوں میں بھی پہنچانے جاتے ہیں۔ ان کا موبائل ۴۲? گھنٹے ا?ن رہتا ہے۔ مسعود انصاری نے انقلاب کو بتایا کہ وہ پہلے کسان ٹرسٹ کی ایمبولینس فی کلو میٹر ۳? روپے سے چلاتے تھے۔ مہاراشٹر کے علاوہ مدھیہ پردیش، اتر پردیش، پنجاب، ہریانہ، چھتیس گڑھ، راجستھان، جمو، کنیاکماری جیسی ریاستوں میں مریضوں اور میت کو پہنچانے کا کام کیا ہے۔ کراییکے تعلق سے حاجی مسعود کہتے ہیں کہ مریض یا متوفی کے اہل خانہ کی حالت دیکھ کر جو بھی کرایہ وہ دیتے ہیں لے لیتا ہوں۔ میت کے اہل خانہ کا حال معلوم ہوتو فی سبیل اللّہ خدمت انجام دیتا ہوں ہیرے میڈیکل کالج میں لاوارث لاش کو کوئی لینے نہ آئے تو ، ضلع پولیس اور شہری انتظامیہ اسے دفنانے یا جلانے کا خود انتظام کرتا ہے لیکن اس کیلئیبہت کم محنتانہ دیتا ہے۔ مسعود انصاری نے بتایا کہ انتظامیہ لاوارث لاش کو پہلے ٹھیلہ گاڑی پر ندی کنارے دفنانے کیلئے بھیج دیا کرتا تھا۔ اس میں لاش کی بے حرمتی ہوتی تھی۔ ایسی صورت میں ہم نے چند سماجی کارکنان کے ساتھ حکام سے ملاقات کی اپنے ذاتی خرچ سے میت کی تجہیز وتکفین کا ذمہ لیا۔ شہری انتظامیہ نے اجازت دیدی۔ تب ہم نے کفن، برگے اور تدفین کے دیگر سامان کا انتظام اپنی جیب سے کرنا شروع کیا۔
یہ پوچھنے پر کہ کیا میت کو لے جاتے وقت ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا انھوں نے بتایا کہ 40 سال کے عرصے میرے ساتھ کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش نہیں آیا۔ لوگ اکثر افواہ پھیلاتے ہیں کہ ایمولینس میں لاش لے جاتے وقت بریکر کودنے سے لاش بیٹھ جاتی یا کھڑی ہوجاتی ہے یہ محض افواہ ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ 2008 کے فرقہ وارانہ فساد کا تذکرہ کرتے ہوئے مسعود انصاری نے بتایا کہ مولوی گنج کے ایک مریض کو سول اسپتال لے جاتے وقت چند شرپسندوں نے میرے ایمبولینس پر حملہ کر دیا تھا جس میں مجھے زخم ا?ئے تھے۔ 51دنوں تک اسپتال میں رہنا پڑا تھا۔
حاجی مسعود کی خدمات کا اعتراف
مسعود انصاری کی زندگی بے لوث خدمت میں گزری تو سماج نے بھی انہیں نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں متعدد اعزاز و اکرام سے نوازا جا چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے دھولیہ میونسپل کمشنر ا?نجہانی دلیپ پائیگوڑے نے سند دے کر ان کی بلاتفریق خدمت کا اعتراف کیا تھا۔ اس کے بعد دھولیہ کے سابق مئیر چندرکانت سونار، کمشنر عزیز خان پٹھان نے سند اور ٹرافی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ سابق رکن پارلیمان ڈاکٹر سبھاش بھامرے نے بھی مسعود بھائی ایمبولینس کو سند اور ٹرافی دے کر اعزاز سے نواز ہے۔ سابق ضلع کلکٹر سنجے جادھو نے بھی اسی طرح انہیں سند اور ٹرافی دی ہے۔ سب سے بڑا اعزاز انہیں کورونا کے دور میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کی بنا پر مہاراشٹر کے اس وقت کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ہاتھوں دیا گیا۔ ’کورونا یودھا‘ کے نام سے دیئے گئے اس ایوارڈ ی میں بھی انہیں سند اور ٹرافی دی گئی۔37سال کی عمر میں بھی مسعود انصاری ایمبولینس کے ذریعے خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ ان کے بیٹے ابو ہریرہ نے خدمت کے اس سلسلہ کو مزید دراز کیا ہے۔ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلا تفریق مریضوں اور میتوں کو ان کی منزلوں تک پہنچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سند اور ٹرافی بتایا کہ نے بھی بھی ان
پڑھیں:
معرکہ 1948، گلگت بلتستان کی آزادی کی داستان شجاعت غازی حوالدار بیکو کی زبانی
1948 میں گلگت بلتستان کے غازیوں نے اپنی جرات و قربانی سے بھارت کو شکست دیکر آزادی حاصل کی تھی جس کی ایک داستان غازی حوالدار بیکو کی بھی ہے۔
1948 میں محدود ساز و سامان مگر بلند حوصلے اور ایمان کی طاقت سے گلگت بلتستان کے غازیوں نے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنایا۔
ناردرن سکاؤٹس گلگت کے معرکہ 1948 کے غازی حولدار بیکو نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ٹریننگ کے بعد مجھے بونجی بھیج دیا گیا جہاں ملحقہ گاؤں سے حملہ کر کے دشمن کو خوب نقصان پہنچایا۔
انہوں نے بتایا کہ دشمن نے بونجی پل سے بھاگنے کی کوشش کی مگر ہمارے بہادر جوانوں نے دشمن کو گھیر کر مارا اور ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے جوانوں نے استور کی طرف بھاگنے والے دشمن کا بھی پیچھا کر کے خاتمہ کیا۔
غازی حوالدار بیکو نے بتایا کہ ہم قلیل راشن اور پانی لیکرپیدل محوِ سفر تھے مگر جوانوں کے حوصلے بلند تھے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے میجر مرزا حسن اور دیگر افسران جوانوں کے حوصلے بڑھاتے تھے۔