لاہور:

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے سندھ حکومت میں بے تحاشہ ترجمانوں پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعلی سندھ اپنے نئے 100 ترجمانوں کو زمینی حقائق پر بریفننگ بھی دیں۔

عظمی بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ ان نا تجربہ کار ترجمانوں کو جو جھوٹی سچی پرچیاں دی جاتی وہ وہی بول دیتے ہیں، جب کارکردگی اور کام بولتے ہوں تو ترجمانوں کا لاؤ لشکر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، کارکردگی اچھی ہوتو کام بولتا ہے جیسے مریم نواز کا کام بول رہا ہے۔

وزیراطلاعات پنجاب نے کہا کہ مراد علی شاہ واحد وزیراعلیٰ ہیں جنہیں اپنے حلقے میں کام کروانے کیلئے بھی وفاق کی ضرورت پڑتی ہے۔ پنجاب حکومت کے 90 فیصد منصوبے اپنے فنڈ سے مکمل ہو رہے ہیں، سیہون میں وزیراعلیٰ سندھ کے علاقے  میں ہونے والے حادثے کو وفاق پر مت ڈالا جائے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پچھلے 16 سال سے سندھ پر حکومت پیپلز پارٹی کی ہے مسلم لیگ نون کی نہیں، سندھ نے جو 956 ارب کا ترقیاتی بجٹ منظور کیا تھا اللہ کرئے وہ جلد از جلد لگ جائے، مالی سال ختم ہونے والا ہے ابھی تک وزیراعلیٰ سندھ اپنے علاقے کی گلیاں اور سڑکیں اور ہائی وے نہیں بنا سکے۔

وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ڈمپرز روزانہ کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کو اڑا رہے کیا وہ بھی وفاق کا مسئلہ ہے؟، وفاق سے ہر سال معمول کے مطابق سندھ کو انکے حصے کے فنڈز ملتے ہیں، وفاق اور صوبوں کے معاملات میں چچا بھتیجی کے رشتے کا کیا تعلق اور اسکا حوالہ کیوں؟۔

انہوں نے کہا کہ اگر سندھ ان اربوں روپے کے فنڈز سے بھی اپنی سڑکیں نہیں بناسکتا تو پھر آپکا اللہ حافظ، مریم نواز پنجاب میں اپنے صوبے کے وسائل سے درجنوں بڑی سڑکیں مکمل کرچکی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

چور... معیشت کے خاموش محسن؟

جب ہم معیشت کے بارے میں سوچتے ہیں تو دماغ فوراً بینکس، صنعتوں، برآمدات، زراعت اور ٹیکنالوجی کی طرف چلا جاتا ہے۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بغیر کسی بجٹ اور تنخواہ کے پوری معیشت کے کئی شعبوں کو متحرک رکھتا ہے۔ اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’چور‘ ہیں۔

بظاہر یہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتے ہیں، لیکن اگر معیشت کا چشمہ لگا کر دیکھا جائے تو یہ مجرم کم اور ’خاموش محسن‘ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

ایک لمحے کےلیے ذرا سوچیے کہ اگر دنیا میں چوری نہ ہوتی تو کیا تالے، تجوریاں، الماریاں، ڈیجیٹل لاکس اور سیفٹی باکسز بنانے والی انڈسٹری وجود رکھتی؟ شاید نہیں۔

یہ پوری کی پوری صنعت دراصل اسی خوف کی پیداوار ہے کہ کہیں کوئی چیز چوری نہ ہوجائے۔ یہی خوف دروازوں پر مضبوط تالے لگواتا تو کھڑکیوں پرآہنی جال چڑھواتا ہےاور اسی خوف کے تحت تجوریوں میں مال و متاع محفوظ کیا جاتا ہے۔ چھوٹے کاریگروں سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیز تک، سب چوروں کی بدولت کماتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کرتے ہیں۔

پھر سیکیورٹی کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ ہر گلی محلے میں سیکیورٹی گارڈ کھڑا نظر آتا ہے۔ ہر اسکول، دفتر اور پلازے میں کیمرے نصب ہیں۔ میٹل ڈیٹیکٹر، بایومیٹرک سسٹمز، اور الارم لگانے والی کمپنیز دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں اور ان سب کی بنیاد بھی وہی ہے، ’چور کا خوف!‘۔

اگر چوری کا تصور نہ ہو تو یہ ساری ٹیکنالوجی صرف فلموں میں استعمال ہوتی نظر آئے، یا کسی میوزیم میں پڑی ہو۔

چوروں کا سب سے بڑا ’احسان‘ شاید روزگار کے میدان میں ہے۔ پولیس، وکلا، ججز، عدالتوں کا عملہ، جیل کے ملازمین، تفتیشی ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ، یہ سب عموماً چوروں کے دم پر کام کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں، ان کی تفتیش کی جاتی ہے، گواہوں کے بیانات اور ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں، عدالتیں کیسز سنتی ہیں، فیصلے ہوتے ہیں اوراپیلیں دائر کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عموماً ایک واقعے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور وہ ہے، چوری!

جب کوئی چور کسی کا موبائل، لیپ ٹاپ، پرس یا گاڑی چرا لیتا ہے تو متاثرہ فرد مجبوری میں نئی چیز خریدتا ہے، یوں مارکیٹ میں نئی خریداری ہوتی ہے۔ دکاندار خوش، کمپنی خوش اورحکومت بھی خوش، کیونکہ اسے سیلز اور انکم ٹیکس دونوں کی مد میں وصولیاں ہو جاتی ہیں اور موبائل ٹریکرز، انشورنس کمپنیز، ریپلیسمنٹ سروسز، سب ایکٹیو ہوجاتی ہیں۔ گویا ایک چوری کئی کاروباروں کو زندہ کر دیتی ہے۔

اور بات صرف یہاں نہیں رُکتی بلکہ اگر چور پکڑا جائے تو جیل جاتا ہے اور جیل کے اندر بھی ایک مکمل نظام چلتا ہے۔ جیلر، وارڈن، کُک، طبی عملہ، اصلاحی پروگرامز چلانے والے، کھانے کی سپلائی اور یونیفارمز وغیرہ، سب کی نوکری چور سے جڑی ہے۔ اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ جیلیں بھی بجٹ کھاتی ہیں اور وہ بجٹ چلتا ہے معیشت سے، یعنی چور صرف جیل سے باہر ہی نہیں بلکہ جیل کےاندر بھی معیشت چلاتے ہیں۔

کچھ چور تو اپنی ’قابلیت‘ کے باعث سیاست میں آ جاتے ہیں اوروہاں آکر وہ چھوٹی موٹی چوریاں چھوڑ کر بڑے پیمانے پر مالیاتی اعدادو شمار سے کھیلتے ہیں۔ منصوبوں کے فنڈز، ٹینڈر، کِکس بیکس اور کمیشن، یہ سب ان کے دائرہ اختیار میں آجاتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چور قانونی کَور کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ اکثر تو خود ہی قانون ساز بن جاتےہیں۔ ان کی چوریاں ملک کے بجٹ کو زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن ان ہی کے فیصلوں سے معیشت کی سمت طے ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ تحریر چوری کو جائز قرار دینے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ چوری ہر دَور، مذہب اور معاشرے میں ایک بڑا جُرم رہی ہے اور اس سے فرد، معاشرہ اور اخلاقی اقدار متاثر ہوتی ہیں لیکن عمومی سچ یہی ہے کہ اگر چور نہ ہوں تو معیشت میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہوجائے، کئی صنعتیں بند ہو جائیں، ہزاروں لوگ بے روزگار ہوجائیں اور پولیس اسٹیشنز پر شاید ہُو کا عالم ہو۔ یہ بلاگ صرف ایک طنزیہ تحریر نہیں بلکہ ہم اس میں سچائی کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم اور معیشت کا تعلق بعض اوقات اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ دونوں کو الگ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

چور اگرچہ قانون کی نظر میں مجرم ہوتا ہے لیکن معیشت کی نظر میں اکثر ایک غیر اعلانیہ اسٹیک ہولڈر بھی ثابت ہوتا ہے۔

تو اگلی بار جب آپ اپنا دروازہ بند کرتے وقت تالا لگائیں یا کیمرے کی ریکارڈنگ چیک کریں تو ایک لمحے کو رکیے گا اور سوچئے گا کہ کہیں نہ کہیں ایک چور نہ چاہتے ہوئے بھی معیشت کا پہیہ گھما رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • ضمنی انتخابات میں ٹکٹوں کا فیصلہ نواز شریف کریں گے، عظمیٰ بخاری
  • خیبر پی کے ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ کا نعرہ لگانیوالے کرپشن میں ملوث: عظمیٰ بخاری 
  • جب سے فتنہ جیل گیا ملک میں سب ٹھیک ہورہا ہے، عظمی بخاری
  •  معرکہ حق میں کامیابی کا جشن بھرپور انداز میں منایا جائیگا:عظمیٰ بخاری
  • چور... معیشت کے خاموش محسن؟
  • فساد گروپ نے 14 اگست کو احتجاج کی کال دیکر پھر ملک دشمنی کا ثبوت دیا: عظمیٰ بخاری
  • 5 اگست کو کوئی راستہ بند نہیں تھا، یہ خود جا کر پولیس وین میں بیٹھتے رہے، عظمیٰ بخاری
  • عظمی بخاری نے پی ٹی آئی کی 14اگست کی احتجاج کی کال کو افسوسناک قرار دیدیا
  • معرکہ حق میں بھارت کو شکست کے بعد 14 اگست کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا، عظمیٰ بخاری
  • اسلام آباد، کراچی، بالائی پنجاب، کے پی، کشمیر میں بارش کا امکان