ڈیجیٹل سفارت کاری کی اہمیت اور جاپانی مہارت سے استفادہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
آج کا دور نئے رجحانات کا دور ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے ہم جیسے “Baby boomers” (ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والوں) کے لیے جو باتیں کل تک طلسم کدہ تھیں آج “Gen Zs” (90 اور اس کے بعد کی نسل) کے ہاتھوں ایک زندہ حقیقت بن چکی ہیں۔ جو کہ ’’آرہی ہے مسلسل صدائے کن فیکون‘‘ کے مصداق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اس انقلاب نے دنیا کے ہر شعبہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس سے عالمی سیاست اور سفارت کاری کا شعبہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ ماضی میں سفارت کاری ایک روایتی عمل سمجھا جاتا تھا جس کا تصور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں، تحریری معاہدوں اور بند کمروں میں ہونے والے طویل مذاکرات، سرکاری خطوط اور طویل مذاکرات تک محدود سمجھا جاتا تھا، بعد ازاں جیسے جیسے سفارت کاری کے نئے انداز متعارف ہوتے گئے، سفارتی سرگرمیاں بھی روایتی انداز سے آگے بڑھ کر نئے اسلوب کے ساتھ سامنے آئی جس میں سوشل میڈیا، متفرق ویب سائٹس، موبائل ایپس، اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز شامل ہیں جنہیں ڈیجیٹل سفارت کاری کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ طریقے اور ذرائع لیے جاتے ہیں جن کے تحت دنیا بھر کے ممالک اپنے سفارتی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل سفارت کاری کو عوامی سطح پر مختلف بحرانوں میں فوری ردعمل ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے، اور معاشی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی بھی بین الاقوامی ہنگامی صورتحال یا بحرانی صورتحال میں متعلقہ ملک کے سفارتی ادارے فوری طور پر سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن ذرائع کے ذریعے فعال ہوکر اپنا موقف فوری طور پر واضح کرتے ہیں اور دنیا سے براہ راست رابطہ کر کے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ اس موثر طریقے کی ایک تازہ ترین مثال غزہ کی صورتحال اور اس پر آنے والا موثر بین الاقوامی رد عمل بھی تھا جس نے فلسطینیوں کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا۔ ڈیجیٹل سفارت کاری نے روایتی سفارت کاری کے خدو خال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اب سفارتی سرگرمیوں میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ہو چکا ہے، جہاں ممالک اپنی پالیسیوں، ثقافت اور مؤقف کو براہ راست دنیا کے سامنے پیش کرتے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح، ڈیٹا اینالیٹکس اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بھی سفارتی فیصلوں میں زیادہ سائنسی اور مؤثر طریقے سے کام کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر ورچوئل اجلاس اور آن لائن مذاکرات چند مثالیں ہیں جن کے ذریعے سفارتی سرگرمیوں کو مزید آسان اور موثر بنایا جارہا ہے۔ لیکن جس طرح ہر سہولت اپنے ساتھ کچھ چیلنجز لے کر آتی ہے، اسی طرح ڈیجیٹل سفارت کاری کو بھی ڈیٹا ہیک ہو جانے اور سائبر سیکورٹی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا بین الاقوامی سطح پر آن لائن سیکورٹی پالیسیوں کو بھی مضبوط بنا یا جارہا ہے تاکہ ہیکنگ اور آن لائن جاسوسی سے بچا جا سکے۔
آج سفارت کاری کا چلن تبدیلی کی جانب گامزن ہے، ترقی یافتہ ممالک ڈیجیٹل سفارت کاری کے ذریعے اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مستحکم کرہے ہیں اور اس کے ذریعے سوشل میڈیا پر بین الاقوامی پالیسیوں پر براہ راست گفتگو کرتے ہیں۔ ان ممالک نے نہ صرف اپنی سفارتی حکمت عملی میں ڈیٹا اینالیٹکس، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ٹولز کو شامل کیا ہے، بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں ان ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کر کے اپنی ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ براعظم ایشیا نے بھی ان تبدیلیوں کے گہرے اثرات قبول کیے ہیں اور اب ان اثرات کے تحت ایشیا میں بہت تیزی سے معاشی، سیاسی، اور سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چین، جاپان اور آسیان (ASEAN) ممالک نے اس شعبے میں تیزی سے ترقی کی ہے، کیونکہ یہ ممالک اپنی معیشت، سیاست، اور علاقائی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر ڈیجیٹل حکمت عملیوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت بھی ڈیجیٹل سفارت کاری میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن دونوں ممالک کی پیش رفت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ بھارت نے ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ مہم کے تحت اپنی سفارتی سرگرمیوں میں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے اور عالمی سطح پر اپنی سوشل میڈیا مہمات کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ ہرچند کہ پاکستان نے بھی اس حوالے سے اپنی وزارت خارجہ کے تحت اسٹرٹیجک کمیونیکیشن ڈویژن قائم کیا ہے، لیکن آئی ٹی ایکسپرٹس کی جانب سے ابھی اس شعبے میں ایک جامع اور منظم ڈیجیٹل پالیسی کی کمی کو واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ البتہ پاکستان کی جانب سے ’’شیئر پاکستان پورٹل‘‘ کا قیام بہر حال ایک قابل تعریف عمل ہے جو ہمارے نوجوان انجینئرز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، گویا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
یہ پورٹل یقینا عوامی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ لیکن اب بھی پاکستان کو اپنا بین الاقوامی امیج بہتر بنانے اور ڈیجیٹل سفارت کاری کو موثر کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل سفارت کاری کے شعبے میں ایک بہترین مثال جاپان بھی ہے جس نے اپنی ڈیجیٹل سفارت کاری کو انتہائی مؤثر انداز میں ترتیب دیا ہے۔ جاپانی وزارت خارجہ (MOFA) کی سوشل میڈیا مہمات دنیا بھر میں مقبول ہیں اور ان کے لاکھوں فالورز موجود ہیں۔
جاپان نے ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کو اپنی سفارتی پالیسی میں شامل کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر سائبر سیکورٹی اور ڈیجیٹل سفارت کاری میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان، جاپان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، خصوصاً ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر، سائبر سیکورٹی اور ڈیجیٹل سفارت کاری کی تربیت کے شعبوں میں۔ ماہرین کی رائے میں ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے جاپانی سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور جاپان کے ساتھ مل کر پاکستان اپنی سائبر سیکورٹی کو بھی مضبوط بنا سکتا ہے، اس ضمن میں جاپانی ماہرین کے تعاون سے پاکستانی سفارت کاروں کو ڈیجیٹل سفارت کاری کی تربیت فراہم کی جا سکتی ہے۔ آئی ٹی ماہرین کی رائے میں پاکستان کو ڈیجیٹل سفارت کاری میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اور سب سے پہلے ڈیجیٹل سفارت کاری کے لیے مخصوص ڈویژن کا قیام ضروری ہے، تاکہ وزارت خارجہ میں ایک مؤثر ڈیجیٹل سفارت کاری یونٹ بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں ماہرین کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنی سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی، تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا ایک مثبت تاثر قائم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سائبر سیکورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے بین الاقوامی ماہرین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مزید برآں ڈیجیٹل ڈپلومیسی میں جاپان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو جاپان کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے، تاکہ پاکستان اپنی سفارتی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنا سکے۔
ڈیجیٹل سفارت کاری آج کے دور میں بین الاقوامی تعلقات کا ایک لازمی عنصر بن چکی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین جاپان جیسے ممالک سے سیکھتے ہوئے اپنی سفارتی حکمت عملی کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ جاپان کے ساتھ تعاون اور مؤثر ڈیجیٹل پالیسیوں کے ذریعے پاکستان عالمی سطح پر اپنی سفارتی پوزیشن کو مزید بہتر بنا سکتا ہے اور مستقبل میں ایک مضبوط ڈیجیٹل سفارت کاری کا حامل ملک بن سکتا ہے۔ لیکن اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک وژنری لیڈرشپ کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں پہلی بار آئی ٹی کے شعبے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جماعت اسلامی نے بنو قابل کے نام سے جو انیشی اٹیو لیا ہے وہ یقینا ایک وژنری لیڈرشپ کی نشان دہی کرتا ہے جس کے لیے حافظ نعیم الرحمن بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس شعبے میں جماعت اسلامی کے مثبت کردار کی تقلید کرتے ہوئے اسی نوعیت کے پروجیکٹس لانچ کریں جس سے ایک پروگریسیو پاکستان کا تصور دنیا کے سامنے آئے اور پاکستان کی امیج بلڈنگ کے لیے ایسے افراد کار تیار ہوسکیں جو مستقبل میں پاکستان کے لیے ڈیجیٹل سفارت کاری میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل سفارت کاری میں سفارتی سرگرمیوں سائبر سیکورٹی سفارت کاری کا سفارت کاری کے بین الاقوامی عالمی سطح پر اپنی سفارتی پاکستان کو سوشل میڈیا کے لیے ایک حکمت عملی کو ڈیجیٹل جاپان کے کرتے ہیں کے ذریعے ا ن لائن کی جانب میں ایک ہیں اور کے ساتھ سکتا ہے اور اس کے تحت ہے اور کیا جا اور مو کو بھی کیا ہے
پڑھیں:
اسرائیل کی سائنسی و اقتصادی تنصیبات پر ایران کی کاری ضرب کی کچھ داستانیں
اسلام ٹائمز: کویت ٹائمز نے اسرائیل کے چینل 12 کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں 31 ہزار عمارتوں اور 4 ہزار گاڑیوں کو تباہ کیا یا شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان نقصانات کی مجموعی لاگت 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ترتیب و تنظیم: ایل اے انجم
"ایران اگلے چند دنوں تک اسرائیل پر فتح کا جشن منائے گا۔ اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے سائنسدانوں اور کمانڈروں کی تدفین ہو گی جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرینگے۔ دوسری طرف تل ابیب کا ماحول سوگوار ہے، نہ کوئی تقریب، نہ تقاریر، صرف خاموشی اور یہ تلخ احساس کہ اسرائیل کے پاس منانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔" جنگ بندی کے بعد مختلف تبصروں میں سے ایک بہترین تبصرہ جو سوشل میڈیا پر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں کی تباہی کو چھپانے کیلئے صیہونی ریاست میں سخت فوجی سنسرشپ نافذ کر دی گئی تھی لیکن تباہی اتنی وسیع تھی کہ چھپانے کی لاکھ کوششوں کے باؤجود تل ابیب اور حیفہ کو کھنڈر بنتے دیکھا، دنیا نے ہائپر سونک میزائلوں کو تل ابیب کے دل پر لگتے اور حیفہ بندرگاہ میں آگ اور دھواں کا خوفناک لائیو مناظر کا مشاہدہ کیا۔ ایران کے مقابلے میں صرف اسرائیل نہیں پورا مغرب تھا، کل ہی فرانس نے بھی اعتراف کیا کہ جنگ کے دوران انہوں ںے اسرائیل فوج کو خوب سپورٹ کی تھی۔ بعض عرب ممالک کے کردار بھی فراموش نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل میں ٹیکنالوجی کی تباہی
جنگ کے دوران مغربی میڈیا تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے کی بھرپور کوشش کی کہ ایرانی ملٹری قیادت، کئی جوہری سائنسدان نشانہ بن گئے، پورے ایران میں موساد کے جاسوسوں کا جال بچھایا گیا تھا، ایرانی قیادت کو مفلوج کیا گیا تھا، ایئر ڈیفنس اور فضائیہ ختم ہو گئی، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی بڑے بڑے کمانڈرز اور جوہری سائنسدانوں کا نقصان ہوا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس جنگ کے دوران ایران کی سٹریٹجی کیا تھی، کیا اسرائیل پر اندھا دھند میزائل داغے گئے تھے، یا کوئی ٹارگٹ لاک تھا؟ بین گوریون یونیورسٹی کے صدر کا بیان اس منظر نامے کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ بین گوریان یونیورسٹی کے صدر نے ایران کے میزائل حملوں کے دوران حیفہ، تل ابیب اور بئر السبع میں چار صہیونی یونیورسٹیوں اور ٹیکنالوجی اداروں کے تباہ ہونے کی اطلاع دی۔ یہ مراکز بنیادی طور پر اسرائیلی فوج کے پائلٹوں کی تربیت اور اسرائیلی ریاست کے فوجی اور اسلحہ سازی کے شعبوں کے لیے اہلکار تیار کرنے پر کام کرتے تھے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے اور مقبوضہ علاقوں کے دل پر ایران کے میزائل حملوں کے کچھ عرصے بعد، صہیونی ریاست کے تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کو پہنچنے والے تباہ کن نقصانات کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ادارے اسرائیلی ریاست کے سیکورٹی، فوجی اور انٹیلیجنس اداروں سے گہرے طور پر منسلک ہیں۔ ابتدائی تشخیصات کے مطابق، ایران کے میزائل حملوں میں حیفہ، تل ابیب اور بئر السبع میں کم از کم چار یونیورسٹیوں اور ٹیکنالوجی اداروں کو مکمل طور پر تباہ یا شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ اعداد و شمار پروفیسر "ڈینیئل چیمووٹز" نے تسلیم کیے، جو بنی گورین یونیورسٹی کے صدر ہیں اور صہیونی ریاست کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں نقصانات کا اعتراف کرنے والے پہلے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ (وائزمین انسٹی ٹیوٹ پر ایرانی میزائل حملے کے بعد اس ادارے کی تباہی کی تفصیلات اور اہمیت کے حوالے سے اسلام ٹائمز پر ایک رپورٹ پہلے شائع ہو چکی ہے)
وائزمین ریسرچ سینٹر کی 40-45 لیبارٹریز تباہ
ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں وائزمین ریسرچ سینٹر کی عمارت کو پہنچنے والا نقصان اسرائیلی فوجی افسران اور اس ادارے کے محققین کے ذہنوں پر برسوں تک نقش رہے گا۔ پروفیسر چیمووٹز کے مطابق، صرف وائزمین انسٹی ٹیوٹ میں 40 سے 45 تحقیقی لیبارٹریز مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں جبکہ 20 دیگر لیبارٹریز کو بھی مختلف سطح کا نقصان پہنچا ہے۔ ایرانی میزائل حملوں کے دھماکوں نے نہ صرف وائزمین ریسرچ سینٹر کی عمارت کو نقصان پہنچایا بلکہ یونیورسٹی کیمپس کی 40 دیگر عمارتوں کو بھی متاثر کیا۔ بئر السبع میں، سوروکا ہسپتال کے قریب گرنے والے میزائل نے قریب کی یونیورسٹی عمارت اور اسپورٹس سینٹر کو شدید نقصان پہنچایا۔ چیمووٹز کا کہنا تھا: "بنی گورین یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہم وہاں کیسے تدریس دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ چھ لیبارٹریز مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "دھماکے کی لہریں سڑک کے دوسری طرف یونیورسٹی کیمپس تک پہنچی ہیں جہاں 60 عمارتوں میں سے کم از کم 30 کو نقصان پہنچا ہے۔ صرف ایک عمارت سے 42 فیکلٹی ممبران اور طلباء کو نکالا گیا ہے۔" بئر السبع میں، ماہرین ابھی تک نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں، لیکن ابتدائی اندازوں کے مطابق نقصانات کا تخمینہ کروڑوں شیکیل (اسرائیلی کرنسی) میں ہے۔ دریں اثنا، تل ابیب یونیورسٹی نے میزائل حملوں سے بے گھر ہونے والے ہر طالب علم کو 2,000 شیکیل (تقریباً 590 ڈالر) کی اسکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیر ملکی محققین اسرائیل چھوڑ کر چلے گئے
چیمووٹز نے وضاحت کی کہ دوسرا بڑا نقصان محققین کی جنگ کی صورت حال میں کام جاری رکھنے میں ناکامی ہے۔ یہ مسئلہ خاصا اہم ہے کیونکہ اسرائیل کا تحقیق و ترقی کا شعبہ عالمی سطح پر ایک لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت سے محققین دنیا بھر سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تحقیق کے لیے آتے ہیں۔ لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد، ان میں سے بہت سے لوگ چلے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "ہر چیز کے الیکٹرانک بیک اپ موجود ہیں، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بیکٹیریا، ٹشوز، ڈی این اے کے نمونوں جیسی حیاتیاتی مواد کے لیے بیک اپ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اگر عمارت تباہ ہو جائے۔ بیک اپ موجود تھے لیکن اکثر اسی عمارت میں فریزر میں رکھے ہوتے تھے جو اب ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے میزائل حملوں سے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بعض صورتوں میں، اسرائیلی پروفیسروں اور طلباء کی دہائیوں کی تحقیق اور محنت ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گئی ہے۔"
صہیونی ریاست پر تحقیقی پابندیوں کا خطرہ
بن گورین یونیورسٹی کے صدر کے نقطہ نظر سے، تیسرا بڑا نقصان بین الاقوامی سطح پر سائنسی تعلقات کو پہنچا ہے، خاص طور پر مغربی یورپ کے تحقیقی مراکز کے ساتھ، جو بنیادی طور پر غزہ میں جنگ کے نتائج کی وجہ سے ہے۔ چیمووٹز نے کہا: "غزہ میں جاری جنگ کے خلاف عالمی دباؤ اور نیٹن یاہو کی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کی "ہورائزن 2020" ریسرچ پروگرام میں رکنیت معطل کرنے کے خطرات موجود ہیں جو شاید دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تحقیقی فنڈنگ پروجیکٹ ہے۔" اس کے علاوہ، نیدرلینڈز، سپین، اٹلی، بیلجیم اور دیگر ممالک کی کچھ یونیورسٹیوں نے اس پروگرام میں اسرائیلی تحقیقی مراکز کی شرکت معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ صہیونی ریاست کے اعلیٰ ترین سیاسی حلقوں تک پہنچ چکا ہے، کیونکہ یہ اسرائیل کے تحقیق و ترقی کے شعبے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اسرائیلی پائلٹوں اور اسلحہ ساز انجینئرز کے تربیتی مراکز کی تباہی
چیمووٹز نے تسلیم کیا کہ ان کی یونیورسٹی اسرائیلی فوج کے پائلٹوں اور فوجی صنعت میں کام کرنے والے انجینئرز کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: "پچھلے 20 سالوں میں تربیت یافتہ تمام اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹ بن گورین یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ انٹیلیجنس یونٹس کے تحقیقی شعبوں کے تقریباً تمام اعلیٰ افسران انہی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہاں تک کہ آئرن ڈوم، ڈیوڈز سیلنگ جیسے دفاعی نظام اور دیگر ایئر ڈیفنس سسٹمز بھی اسرائیل کے ٹیکنالوجی سیکٹر کی پیداوار ہیں، جو انہی یونیورسٹیوں کی تحقیق سے وجود میں آئے اور بعد میں ترقی پائی۔" چیمووٹز نے اسرائیلی قیادت کی تحقیق و ترقی کے شعبے کی طرف عدم توجہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ایرانی حکام کی ترجیحات میں جامعات اور تعلیمی اداروں کو جو اہم مقام حاصل ہوا ہے وہ ہمیں غمگین کر دیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ایرانیوں نے ہماری اہمیت کو ہماری اپنی کابینہ کے بعض اراکین سے بہتر طور پر سمجھ لیا ہے۔"
معاشی نقصانات اور ابتدائی اندازے
کویت ٹائمز نے اسرائیل کے چینل 12 کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں 31 ہزار عمارتوں اور 4 ہزار گاڑیوں کو تباہ کیا یا شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان نقصانات کی مجموعی لاگت 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ سخت سنسرشپ کے سائے میں اعداد و شمار نقصانات کی مجموعی لاگت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے کیونکہ صیہونی ریاست ہمیشہ اپنے نقصانات کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ بدھ کے روز عبرانی میڈیا نے ایران کے حملوں سے اسرائیلی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بتدریج معلومات جاری کرنا شروع کیا ہے۔
ایران کیساتھ جنگ سے اسرائیل کو 20 ارب ڈالر تک کا نقصان
العربیہ الجدید کے مطابق، صہیونی ریاست کی معاشی رپورٹس کے مطابق ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ نے اسرائیلی معیشت کو تقریباً 12 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچایا ہے، جس میں فوجی اخراجات، ایران کے میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات، کاروباری افراد کو معاوضے کی ادائیگی، اور تعمیر نو کے اخراجات شامل ہیں۔ صہیونی ریاست کے معاشی حلقوں کے اندازوں کے مطابق، اگر بالواسطہ نقصانات اور داخلی محاذ کے معاوضوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ لاگت 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے رپورٹ کیا کہ اس جنگ نے کابینہ کے خزانے پر تقریباً 7 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ ڈالا ہے۔ اس صہیونی میڈیا نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی فوج نے کابینہ سے اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے تقریباً 11 ارب 70 کروڑ ڈالر کی درخواست کی ہے، جس میں انٹرسیپٹر میزائل اور دیگر اسلحہ کے ذخائر کی خریداری شامل ہے۔ اعلان کردہ نقصانات کئی اہم شعبوں میں تقسیم ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
- فوجی براہ راست اخراجات کے لیے 10 ارب شیکل (اسلحہ، میزائل انٹرسیپشن، جنگی جہازوں کی پروازوں اور ریزرو فورسز کے سازوسامان کے اخراجات)
- متاثرہ کاروباریوں، مزدوروں اور 15,000 سے زائد بے گھر ہونے والوں کو معاوضہ دینے کے لیے 5 ارب شیکل
- ایران کے میزائل حملوں سے متاثرہ عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت کے لیے 5 ارب شیکل
ایران کی صہیونی ریاست کی کمپنیوں اور بجٹ پر کاری ضرب
یدیعوت احرونوت نے واضح کیا کہ یہ اعداد و شمار ہزاروں اسرائیلیوں کے ہوٹلوں میں رہنے کے اخراجات، عارضی رہائش کے بعد متبادل رہائش کے لیے کرایے، اور بند ہونے والے کاروباروں کے معاوضے کو شامل نہیں کرتے۔ تقریباً ایک تہائی متاثرہ جائیدادوں کے صحیح نقصانات کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا ہے، اور ان کی تعمیر نو کے لیے اربوں شیکل درکار ہوں گے۔ اس عبرانی میڈیا نے صہیونی ریاست کے وزارت خزانہ کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل جنگ کے اخراجات اور فوری دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکہ سے مزید مالی امداد اور ضمانتوں کی درخواست کرے گا۔ اس ذریعے نے ایران کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی ریاست کی کمپنیوں کی خراب مالی حالت پر بھی روشنی ڈالی اور زور دیا کہ 12 دنوں میں اسرائیلی کمپنیوں پر جنگ کا معاشی بوجھ 3.5 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔
صہیونی ریاست کے معاشی اخبار کالکالیست نے بھی رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ پر تقریباً روزانہ 72.5 کروڑ ڈالر خرچ کیے، اور ابتدائی اندازوں کے مطابق معاوضہ فنڈ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1.5 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اس سال بجٹ خسارہ 6 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ بعض عبرانی میڈیا نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ دوران جنگ روزانہ ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کرنا پڑ گئے تھے۔عبرانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ایران کے میزائل حملوں نے ایندھن اور توانائی کے بہاؤ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی ہیں، نیز تل ابیب میں اسٹاک ایکسچینج کی مرکزی عمارت کو نشانہ بنانے کے بعد سرمایہ کاری کے بازار کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی تو اسرائیل کو مکمل معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ فنانشل ایکسپریس ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ کے پہلے ہفتے میں 5 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے، جبکہ وال اسٹریٹ جرنل نے بتایا کہ اسرائیل کے ایئر ڈیفنس میزائل سسٹمز کی روزانہ لاگت 20 کروڑ ڈالر تھی۔
صہیونی ریاست کی ہوائی نقل و حمل اور ایئرلائنز کو نقصان
فلسطین کی امریکن یونیورسٹی میں فنانس کے اسسٹنٹ پروفیسر ناصر عبد الکریم نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست اور ایران کی جنگ نے نہ صرف اسرائیل پر براہ راست فوجی اخراجات مسلط کیے ہیں، بلکہ اسرائیل کی صنعتی پیداواری سرگرمیوں کو بھی منفی طور پر متاثر کیا ہے، اور اسرائیل پر براہ راست اور بالواسطہ 20 ارب ڈالر تک کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے بجٹ خسارے میں 6 فیصد اضافے کی توقع ہے، اور ایران کے حملوں میں متاثرہ صہیونی آبادکاروں کو معاوضے کی ادائیگی اسرائیل کی مالی حالت کو مزید خراب کر دے گی۔ صہیونی ریاست اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تین اقدامات میں سے ایک پر غور کر رہی ہے: صحت اور تعلیم کے شعبوں میں عوامی اخراجات میں کمی، ٹیکس میں اضافہ، یا قرض کا حصول جو قرضے اور آمدنی کا تناسب 75 فیصد سے زیادہ بڑھا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز ویب سائٹ نے بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے تل ابیب اور حیفا میں اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا، جس میں حیفا ریفائنری پر حملہ بھی شامل ہے جو اسرائیل کی سب سے بڑی ریفائنری ہے اور جسے بند کر دیا گیا ہے، جس سے روزانہ تقریباً 30 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایران کے حملوں کے نتیجے میں صہیونی ریاست کا بین گورین ہوائی اڈہ بھی جنگ کے دوران معطل ہو گیا، جبکہ عام طور پر یہ ہوائی اڈہ روزانہ 300 پروازیں انجام دیتا تھا اور 35,000 مسافروں کو منتقل کرتا تھا۔ صہیونی ریاست کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر پروازوں کے معطل ہونے کے ساتھ ساتھ اہم اسرائیلی ایئرلائنز کی پروازیں بھی معطل یا موڑ دی گئیں، جس سے تقریباً روزانہ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایران کے شدید میزائل حملوں، خاص طور پر اسرائیل کے اسٹاک ایکسچینج پر حملے جس سے اسرائیل کی کل برآمدات کا تقریباً 8 فیصد حصہ وابستہ ہے، کے نتیجے میں صہیونی ریاست کے مالیاتی بازاروں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
اسٹاک پر حملے نے مقبوضہ فلسطین میں سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پھیلا دیا، جس سے اسٹاک کی بڑے پیمانے پر فروخت اور مارکیٹ میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، جس نے اسرائیل کی معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا۔ عبرانی میڈیا نے وائزمین انسٹی ٹیوٹ اور حیفا ریفائنری کو ایران کے میزائل حملوں سے پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کا بھی حوالہ دیا ہے، اور زور دیا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں سے اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کی مکمل تصویر بتدریج سامنے آ رہی ہے۔ یہ نقصانات سخت سنسرشپ کے باؤجود جاری ہونے والے محتاط اعداوشمار پر مشتمل ہے۔ صیہونی ریاست کے عکسری ڈھانچے اور تنصیبات کو پہچنے والے نقصانات اور تباہی کو ابھی تک بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ ایک جرمن خاتون صحافی کی ویڈیو حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تیزی سے وائرل ہوئی جس میں وہ بتا رہی ہے کہ اسرائیلی فوج نے عسکری تنصیبات کو پہچنے والے نقصانات کی کوریج پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی ہے اور کسی بھی صحافی کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔