Nai Baat:
2025-06-09@14:51:14 GMT

بھارت امریکہ دفاعی معاہدہ اور پاکستان!

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

بھارت امریکہ دفاعی معاہدہ اور پاکستان!

پاکستانی سیاست ہمیشہ سے ہی بین الاقوامی تعلقات اور عالمی رہنماؤں کے کردار سے متاثر رہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی شکل دی تھی اور پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’کافی کچھ نہ کرنے‘‘ کا الزام لگا کر امریکی امداد میں کٹوتی جیسے پاکستان دشمن اقدمات کیے تھے۔ اس وقت جبکہ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر بن چکے ہیں تو یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اب ان کے تعلقات کیسے ہونگے۔ چند تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کے ساتھ ان کے رویے میں کچھ نرمی متوقع ہے لیکن یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو یکسر تبدیل کر دیں گے۔ البتہ افغانستان کے معاملے پر ان کی نئی پالیسیاں پاکستان کے لیے اہم ہو سکتی ہیں۔ چونکہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹرمپ اس معاملے پر پاکستان کی مدد طلب کر سکتے ہیں۔ جس کا پاکستان کو معاشی اور دفاعی فائدہ ہو گا خاص طور پر اگر پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں امریکہ کی منشا کے مطابق اہم کردار ادا کرتا ہے تو بدلے میں پاکستان بھی امریکہ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی امداد فراہم کرے گا۔ بین الاقوامی امور کے سیاسی تجزیہ نگار پاک امریکہ حالیہ تعلقات کے تناظر میں ابھی اس قسم کے اندازے لگا ہی رہے ہیں کہ اسی دوران بھارت اور امریکہ کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ نے جنوبی ایشیا کے جیو پولیٹیکل ماحول کو نئی شکل دے دی ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو مضبوط کرتا ہے بلکہ اس کے پاکستان پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان جو پہلے ہی اچھے خاصے معاشی، سیاسی اور دفاعی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اس کو اب ایک نئی اور پیچیدہ دفاعی اور سٹریٹیجک صورتحال کا سامنا ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدہ دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کی منتقلی، جدید اسلحہ کی فراہمی اور مشترکہ فوجی مشقوں کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ اس معاہدہ کے تحت امریکہ بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ امریکہ کا یہ معاہدہ دراصل چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے اور خطے میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے ہے۔ امریکہ بھارت کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے جو چین کے خلاف ایک توازن قائم کر سکتا ہے۔ جبکہ اس معاہدے سے بھارت کا مقصد اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا اور خطے میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ معاہدہ بھارت کو چین کے علاوہ پاکستان کے خلاف بھی اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنانے میں مدد دے گا۔ اس دفاعی معاہدہ کے تحت بھارت کو جس قسم کی جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی ملے گی اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دفاعی عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ معاہدہ جنوبی ایشیا میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ ہیں یہ معاہدہ اس کشیدگی کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔ بھارت کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ پاکستان کے لیے نیوکلیئر توازن اور روایتی فوجی صلاحیتوں کو برقرار رکھنے کے چیلنج کو بڑھا سکتا ہے۔ اس معاہدے کی بدولت بھارت کی طاقتور شناخت اور بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھی بے یقینی اور عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے جو ملک کی معیشت پر اضافی بوجھ ڈال کر پاکستان میں معاشی عدم استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ اس صورت میں لا محالہ پاکستان کو بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنا پڑ سکتا ہے اور حکومت کو عالمی مالیاتی اداروں (IMF) اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے کڑی شرائط پر مزید قرضے حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ان چیلنجز سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر معاشی اصلاحات کرنے کے ساتھ اپنے اتحادیوں خاص طور پر چین، روس اور دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ معاشی و دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی طرف توجہ دے۔ اس اقدام سے پاکستان کو ایسے طاقتور حامی مل سکتے ہیں جن کی حمایت سے خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو متوازن کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے سے ملک کی سلامتی کے لیے جس قسم کے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں اس کے تناظر میں پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری اور حصول پر توجہ دینے کے ساتھ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھارت کے خلاف اپنے اصولی موقف کو مضبوط بنائے۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ایسی معاشی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جس میں ملک میں ٹیکس نظام کو بہتر بنانے صنعتوں کو فروغ دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا جیسے اقدامات شامل ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے بیچ مفاہمت پیدا کرنے، عوامی مسائل پر توجہ دینے اور ملک میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو تیز کرنا چاہیے تاکہ عوام کی جان و مال کو تحفظ دے کر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام پیدا کیا جا سکے۔ معیشت کی بہتری کے لیے اپنے اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہو گا تاکہ دفاعی اخراجات میں اضافے کا بوجھ مؤثر طریقے سے سنبھالا جا سکے۔ اس کے لیے برآمدات کو فروغ دینا اور توانائی کے مختلف ذرائع کی تلاش کرنے پر فوری توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نہ صرف اپنے دفاعی مفادات کا تحفظ کر سکیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو بھی مضبوط بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی تعلقات کو بہتر بنا کر اور داخلی مسائل پر قابو پا کر پاکستان کو ان چیلنجز کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ یہ ایک طویل عمل ہو گا مگر پاکستان کی قیادت اور عوام کا اشتراک، پختہ عزم اور محنت ان مسائل پر قابو پانے میں مدد فراہم کرے گا۔ پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ان نئے چیلنجز کا سامنا کیسے کرتا ہے اور اپنے مفادات کا دفاع کس طرح کرتا ہے۔ اس کے لیے اتحاد، بصیرت اور عزم بہت اہم ہے تاکہ پاکستان نہ صرف اپنے دفاعی چیلنجز کو کامیابی سے حل کرے بلکہ معاشی اور سیاسی میدان میں بھی استحکام پیدا کر سکے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کو کے درمیان یہ معاہدہ تعلقات کو امریکہ کے بھارت کو بھارت کے کو مضبوط سکتے ہیں ملک میں کے خلاف سکتا ہے کرتا ہے کے لیے

پڑھیں:

امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ

واشنگٹن   (ڈیلی پاکستان آن لائن)  تجز یہ  نگا ر  نسیم حیدر کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کٹھن ترین اوقات میں سے ایک میں بھارت کے خلاف انتہائی مؤثرانداز سے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بعد اب برطانیہ اور یورپ کےدورے پر ہیں۔
 نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق یہاں سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر بے نظیربھٹو اس مشن پر ہوتیں تو کیا وہ اس سے بھی زیادہ پراثرانداز اپناتیں یا ذوالفقار علی بھٹو اس چیلنجنگ لمحے پر مغربی ممالک کا دورہ کرتے تو بھارت کا کیا حشر کرتے؟
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا شہید بے نظیر بھٹو یا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے موازانہ کرنا لاکھ قبل ازوقت سہی مگر میرے ذہن میں اس کا خیال آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ 
وہ وجہ یہ کہ اگست 2007 میں جب میں نے بے نظیر بھٹو کا جیونیوز کے لیے تاریخی انٹرویو کیا تھا اس وقت لڑکپن میں داخل بلاول بھٹو پڑھنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی جارہے تھے۔بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ بلاول کے لیے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں وہ کمرہ ریزرو کرایا ہے جہاں بلاول کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے زمانہ طالب علمی میں رہے تھے۔ یعنی بھٹو خاندان ان چند سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے جہاں روایات کا اس درجے تک لحاظ رکھا جاتا ہے۔
بلاول بھٹو 2022 اور2023 کےدرمیان مختصر عرصے کے لیے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وہ تاحال نہ تو بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ملک کے وزیراعظم بنے ہیں اور نہ ہی ان تجربات سے گزرے ہیں جن سے ان کی والدہ اور نانا گزرے تھے، تاہم کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں پالنے میں نظرآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر آج بے نظیر ہوتیں تو پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا انداز کتنا مختلف ہوتا۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ شخصیات کا موازنہ کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا جانا چاہیے، خاص طور پر عالمی امور میں سفارتکاری کا مرحلہ ہو اور وہ بھی ایک ایسی جنگ کے بعد جس میں دو ایٹمی طاقتوں نے میزائلوں سے شہروں پر حملے کیے ہوں تو نتائج اخذ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنا مقدمہ ایسے ممالک میں پیش کرنے کا چیلنج درپیش ہے جن کا بھارت چہیتا بنا ہوا ہے۔
یہ 1980  کی دہائی یا 1990 کی دہائی کا اوائل نہیں جب سوویت یونین کے خلاف  امریکہ اور مغربی ممالک کو بھارت سے زیادہ پاکستان کی ضرورت تھی۔ یہ 2000 کی دہائی بھی نہیں جب   امریکہ پر طیارہ حملوں کےبعد بُش انتظامیہ نے افغانستان کو سزاوار ٹھہرا کر ملاعمر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھی اوریہ پاکستان کے بغیر انتہائی دشوار تھا۔
حالیہ پاک بھارت جنگ ایسے وقت ہوئی ہے جب افغانستان سے انخلا کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق،   امریکہ نے   پاکستان کو ایک بار پھر دہشتگردی بھگتنے کے لیے بڑی حد تک اس کے حال پرچھوڑا ہوا ہے۔ یہ تاریخ کا وہ لمحہ بھی ہے جب چین سے دفاعی، معاشی، سیاسی تعلقات اور عوامی رابطے بڑھا کر پاکستان متوازن خارجہ پالیسی اپنانے کی کوششوں میں تیزی لارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ خطے میں چین کے قدم مضبوط ہونا مغربی ممالک کے لیے ناگوار ترین شے ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پاکستان نے پچھلے ایک عشرے میں روس سے بھی تعلقات میں بہتری پیدا کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا جائز کریڈٹ لے رہے ہیں تاہم پہلگام واقعے کے بعد مغربی ممالک کو بھارت کی جنونی کیفیت کے اثرات پر قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس کا اندازہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے پہلگام واقعے کے بعد پیدا کشیدگی کے عین موقع پر دیا تھا۔
ائیرفورس ون میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا تھا کہ کشمیر میں حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ہے تو کیا آپ ان ممالک کو کوئی پیغام دیں گے یا ان ممالک کے رہنماؤں سے بات کریں گے؟ صدرٹرمپ نے برملا کہا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کو جانتے ہیں تاہم پاک بھارت رہنماؤں سے رابطہ کرنے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریزکیا تھا۔
بات کرتے ہوئے صدرٹرمپ تاریخ میں بھی گڑبڑ کر گئے تھے، پاکستان اوربھارت کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کشمیر پر ایک ہزار سال سے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ایک ہزار سال سے چل رہا ہے شاید اس سے بھی زیادہ عرصے سےچل رہا ہے اور یہ بری صورتحال ہے۔ طیارے میں موجود مغربی صحافیوں میں سے بھی کسی نے غلطی درست نہیں کی کہ مسئلہ کشمیر 1947 میں غلط تقسیم ہند کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پہلے نہیں۔
ایک صحافی نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ آیا آپ کو تشویش ہے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر تناؤ ہے جس پر صدر ٹرمپ نے دہرایا تھا کہ اُس سرحد پر 1500سال سے کشیدگی ہے۔ مگر وہ کسی نہ کسی طرح سے مسئلہ کا حل نکال لیں گے۔ مجھے اس بارے میں یقین ہے۔
بھارت نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان کے شہروں پر طیاروں سے میزائل حملے کرکے کیا حل نکالا، یہ دنیا نے دیکھا۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مغربی ممالک سمجھتے تھے کہ بھارت جارحیت پراترا تو پاکستان کی کانپیں ٹانگ جائیں گی اور یہ ملک کبھی سراٹھا کرکھڑا نہیں ہوسکےگا۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاکستان کو چھپا رستم ثابت کیا، بھارت کوناکوں چنے چبوا کر ناگ رگڑوائی اورجنگ بندی پرمجبور کردیا۔
اس پس منظر کو دیکھیں تو پاکستان کے نسبتاً قریب سمجھے جانیوالے مشرق کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرنا آسان ہے تاہم   امریکہ سمیت مغربی ممالک کو قائل کرنا کئی گنا کٹھن مرحلہ ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو کی قیادت میں امریکا، برطانیہ اور یورپ جانے والے مشن کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی ہے۔
  امریکہ میں سفارتکاری کی نوعیت پردعمل میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیربھٹو کے قریب سمجھے جانیوالے پیپلزپارٹی کے کئی رہنماوں نے برجستہ کہا کہ بلاول بھٹو سفارتی میدان میں درحقیقت بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
ایک انتہائی سینئر اور بے لاگ مؤقف بیان کرنیوالے پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا کہ آپ سابق وزرا خارجہ کا بلاول بھٹو سے موازانہ کرلیں،حقیقت خود روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ انہوں نے نام لے کر کہا کہ گوہر ایوب ہوں، سردار آصف علی ،خواجہ آصف، حنا ربانی کھر یا شاہ محمود قریشی ہوں، اپنے ادوار میں انہوں نے بھی سفارتکاری کی مگر ان میں سے کوئی بھی بلاول بھٹو کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ یہی وجہ تھی کہ بلاول کو اس وفد کی قیادت سونپی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ بلاول بھٹو نسبتاً نوجوان اور سیاست میں کم تجربہ رکھتے ہیں۔ ان رہنما کے مطابق یہ بلاول نہیں بھٹو کا خون بولتا ہے۔
بےنظیربھٹو کے دست راست اور صدر زرداری کے سابق ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بلاول بھٹو درحقیقت بی بی کا نعم البدل ہیں۔موقف بیان کرنے میں ان کے الفاظ کا چناؤ، انداز تخاطب اور بات کرنے کا سلیقہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ کس کمال مہارت سے سفارتکاری انجام دے رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس نازک ترین لمحے میں بلاول بھٹو نے انتہائی غیر معمولی طورپر شاندارپرفارمنس سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے اور دنیا نے بھٹو کی وراثت دیکھی ہے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی کمی پورا کردی، نانا کی طرح دو ٹوک انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا اور مغربی ممالک کو باور کرایا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارت بلااشتعال جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ بلاول کے دورہ   امریکہ  سے  واضح ہے کہ انہیں بہت کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ وقار مہدی کے بقول بلاول بھٹو میں آخر بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح ہے، وہ پوری طرح جھلکتی نظرآئی۔
جو لوگ بے نظیربھٹو سے ملےہیں، وہ کہتے ہیں کہ 36 سال کے بلاول بھٹو کا موازانہ دو بار وزیراعظم اور مؤثر ترین اپوزیشن لیڈر رہنے والی بے نظیر بھٹو سے کرنا قبل ازوقت ہوگا۔ جو  شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہے ہیں جن کی سفارتکاری کا ڈنکا دنیا میں بجتا تھا اور اقوام متحدہ میں ان کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں گونجتے ہیں، وہ کہتےہیں تدبر کی ان منازل تک پہنچنے کے لیے عشق کے امتحان ابھی اوربھی ہیں۔
70 اور 80 کی دہائی میں قدم رکھنے والے یہ جیالےکہتے ہیں کہ بلاول کی سفارتکاری دیکھ کران کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو اور ذہنوں میں یہ شعر آتا ہے کہ
کبھی تو سوچنا تم نے یہ کیا کیا لوگو
یہ تم  نے کس کو سر دار کھو دیا لوگو

’’اس بڑھاپے میں ڈانس کروانا ظلم ہے‘‘، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کا ردعمل وائرل

مزید :

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلان جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، پانی روکنا اعلانِ جنگ ہوگا، بلاول بھٹو
  • امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو،ا یک تجز یہ
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • آئی این ایف معاہدہ ختم، روس کی جانب سے میزائل پابندی ختم کرنے کا عندیہ
  • امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • پاکستان کے بھارت کو 4 خط ؟ ؟؟؟؟بھارتی میڈیا پھر بے بنیاد دعوے کرنے لگا
  • ایک کلیدی   موڑ پر سربراہان مملکت کے درمیان  گفتگو  چین امریکہ تعلقات کی سمت کا تعین کرتی ہے۔سی ایم جی کا تبصرہ
  • نوے فیصد  افراد کا ماننا ہے کہ  چین امریکہ تجارتی تنازع کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور تعاون ہی واحد درست  انتخاب ہے، سی جی ٹی این سروے