اکیلی 1 لاکھ عورتوں کے برابر ہوں، مفتی قوی مجھے سنبھال نہیں پائیں گے: راکھی ساونت
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
بھارتی رقاصہ اور اداکارہ راکھی ساونت نے مفتی قوی کے لیے خطرناک پیغام بھیج دیا۔
راکھی ساونت حالیہ دنوں میں پاکستانی مذہبی اسکالر مفتی عبدالقوی کی شادی کی پیشکش کے باعث خبروں میں ہیں، مفتی قوی نے ایک پوڈکاسٹ میں راکھی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
راکھی نے مزاحیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ مولانا سے شادی کی خواہشمند ہیں اور انہوں نے مفتی قوی سے شاعری کی فرمائش بھی کی تھی۔
راکھی ساونت نے نجی چینل سے بات کرتے ہوئے اب کہا ہے کہ میں مفتی قوی کے ساتھ شادی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ مفتی قوی کی 100 بیویاں ہیں یا 900، لیکن میں اکیلی ہی ایک لاکھ عورتوں کے برابر ہوں اور مفتی قوی مجھے سنبھال نہیں پائیں گے۔
بھارتی اداکارہ نے کہا ہے کہ میں ابھی تک سچی محبت کی تلاش میں ہوں، مجھے بھارت سے سچا پیار نہیں ملا، میرے پیچھے بہت لڑکے پڑے ہیں لیکن سب مجھے سیڑھی بنانا چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب مودی پاکستان آ سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں آ سکتی؟ جب میاں بیوی راضی ہیں تو قاضی کیا کر سکتا ہے؟
راکھی سانت نے ہانیہ عامر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہانیہ عامر مجھے پسند ہیں، وہ ایک اچھی اور شریف لڑکی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: راکھی ساونت مفتی قوی کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، شوہر کی وفات پر بھرتی ہونے والی بیوہ کو دوسری شادی پربرطرف نہیں کیا جا سکتا۔سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا، 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اس کے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیرِ بحث آیا تھا جس پر عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کے خلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں. بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے.بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیئے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مالی خود مختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے، جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو اس کی دوسری شادی پر انکم ٹیکس محکمہ کے آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا. بیوہ عورت کو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم کے ذریعے نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں، ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے بھی خلاف ہیں، بیوگی کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیئے. بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت و حقوق کی حقدار ہے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیراعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے تھا. سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں۔سپریم کورٹ نے چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی۔