اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی کے معاملے پر قانونی جنگ، 5 ججز نے وکیل کرلیے
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سنیارٹی کے معاملے پر قانونی جنگ کا آغاز ہوگیا، سنیارٹی کے خلاف ریپریزنٹیشن مسترد کرنے کا فیصلہ آج یا کل سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ نیا رخ اختیار کر گیا، وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ کے 5 ججز جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
سنیارٹی کے خلاف ریپریزنٹیشن مسترد کرنے کا فیصلہ آج یا کل سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جائے گا، پانچوں ججز کی جانب سے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کیس کی پیروی کریں گے۔
یاد رہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججوں کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے، جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔
یہ فیصلہ ججوں کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں 3 موجودہ ججوں جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ سنیارٹی کے کورٹ میں گیا تھا
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ بار سے ججز ٹرانسفر پٹیشن واپس لینے اور چھبیسویں ترمیم کے حوالے سےوضاحت آگئی
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر واجد گیلانی نے ججز ٹرانسفر پٹیشن واپس لینے اور چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اہم وضاحت دی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر واجد گیلانی نےکہا کہ بار کے پاس نہ تو قرارداد کی کاپی تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن کی کاپی۔اجلاس میں ان کی رائے تھی کہ پٹیشن کو تسلیم کرلینا چاہیے،لیکن باقی افراد کا خیال تھا کہ اسے واپس لے لیا جائے، جس پر اکثریتی فیصلہ کیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر واجد گیلانی نے کہا کہ بار سے اپنے گلے شکوے کا بھی اظہار کیا، خاص طور پر شوکت صدیقی کو معزول کیا گیا تو بار اس وقت کیوں نہیں اٹھا۔ ججز اپنے رویے میں بہتری لائیں اور بار پر باتیں نہ کریں۔
سیکرٹری منظور احمد ججہ نے کہا کہ 22 فروری کو ہائیکورٹ بار نے پٹیشن فائل کی تھی، لیکن وہ دائر نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور کہا کہ ججز کے ٹرانسفر کے معاملے میں وکلا نہیں، بلکہ ججز متاثرہ فریق ہیں۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گا، وہ بار کے لیے قابل قبول ہوگا۔