ویرات کوہلی کیلیے کیا چیز مشکل کھڑی کر رہی ہے؟سابق کھلاڑی نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور کوچ انیل کمبلے کا کہنا ہے کہ اسٹار بیٹر ویرات کوہلی بہت زیادہ کوشش کر رہے ہیں اور یہی چیز ان کے لیے اس وقت میں مشکلات پیش کر رہی ہے۔
ورلڈ کپ 2023 کے بعد سے ویرات کوہلی چھ ایک روزہ اننگز میں محض 137 رنز اسکور کر سکیں ہیں جس میں صرف ایک نصف سینچری شامل ہے۔
دبئی میں کھیلے گئے چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کے پہلے میچ میں ویرات کوہلی 22 رنز بنا کر بنگلادیشی لیگ اسپنر رشاد حسین کی وکٹ بنے۔
ای ایس پی این کرک انفو پر گفتگو کرتے ہوئے انیل کمبلے کا کہنا تھا کہ وائٹ بال فارمیٹ میں ویرات کوہلی کی اتنے عرصے تک خراب فارم نہیں رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ کچھ زیادہ ہی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں میں یہ ہوتا ہے جنہوں نے اس طرح مشکل آسان کی ہوتی ہے۔ ہر کوئی آپ سے کہتا ہے کہ یہ ہے وہ کھلاڑی جو گیم کو چھین کر لے جائے گا اور یہ وہ کھلاڑی ہے جو ٹیم کے لیے اہم ہے۔
انیل کمبلے کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ پر اس قسم کا پریشر ہوتا ہے اور آپ سے توقعات ہوتی ہیں، تو آپ ان چیزوں کو غیر ضروری طور پر اہمیت دینے لگتے ہیں اور پھر اچھی کارکردگی کے لیے پوری جان لگاتے ہیں۔ جب ایسا کیا جاتا ہے تو آپ ریلیکس نہیں ہوتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویرات کوہلی
پڑھیں:
تحریک انصاف کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟تجزیہ نگارنے بتادیا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )تجزیہ نگار عدیل وڑائچ کے مطابق پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی سیاست میں بہت سے سوالات ایسے ہیں لوگ جن کے جواب جاننا چاہتے ہیں، کیا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ نرمی برت کر ملک میں سیاسی بات چیت کا ماحول پیدا کیا جائے گا؟ کیا اب نو مئی کے بجائے 10مئی کا بیانیہ چلے گا؟
نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے جڑے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی دیکھنے میں آئے گی؟ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے بھی ایک مرتبہ پھر قیاس آرائیاں جنم لینے لگی ہیں، کچھ صحافتی حلقوں کی جانب سے یہاں تک تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاک بھارت جنگ کی صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیا گیا، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
کچھ نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بانی پی ٹی آئی بات چیت کے لئے تیار ہو چکے ہیں مگر اس عمل کو وہ میڈیا کی پہنچ سے دور رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ قیاس آرائیاں چند روز بھی زندہ نہیں رہ سکیں، بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آخر کاریہ کہہ دیا کہ بتائیں بانی پی ٹی آئی کیا چیز چھوڑیں تو آپ انہیں رہا کریں گے، حال ہی میں جارحانہ اور کشیدگی کا باعث بننے والے بیانات دینے والی علیمہ خان آخر ایسا سرنڈر کرنے والا بیان دینے پر کیوں مجبور ہوگئیں؟
پاکستان تحریک انصاف اس وقت شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، سوشل میڈیا پر بھی اس کی اجارہ داری کم ہو چکی ہے، اوورسیز پاکستانی، جو صرف پاکستان تحریک انصاف کے حامی سمجھے جاتے تھے اور اس میں کافی حد تک حقیقت بھی تھی مگر اب وہاں بھی دراڑ نظر آرہی ہے، اگر صوبوں کی بات کی جائے تو کچھ عرصہ پہلے تک خیبرپختونخوا میں صرف پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ نظر آتا تھا لیکن اب وہاں بھی منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔
تحریک انصاف کچھ عرصہ پہلے تک موجودہ رجیم کیلئے نہ صرف درد سر تھی بلکہ ایک بہت بڑا سیاسی چیلنج بن چکی تھی لیکن اس کے اپنے سیاسی بلنڈرز نے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، کچھ حلقے تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار مقتدرہ کو قرار دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی پالیسیوں خاص طور پر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پالیسی نے اس جماعت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے حتیٰ کہ تحریک انصاف کے اندر بھی کوئی ایک ایسا رہنما نہیں بچا جس کی عزت پی ٹی آئی کے اپنے سوشل میڈیا ورکرز سے محفوظ ہو، کسی کو معلوم نہیں کہ پارلیمان میں بیٹھی ایک بڑی اپوزیشن جماعت میں بات چیت کا اختیار کس کے پاس ہے۔
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والا پارلیمنٹرین ہو، پارٹی عہدیدار یا اس کے سوشل میڈیا ورکرز، سبھی اپنی ساکھ بچانے کے لئے وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں، ہر رکن دوسرے کو شک کی نگا ہ سے دیکھتا ہے، ایک دوسرے کو مقتدرہ کے ساتھ رابطوں کے طعنے دیے جاتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری جماعت اور اس کے بانی سربراہ جس مقصد کے لئے مشکلات کاٹ رہے ہیں وہ مقتدرہ کی حمایت حاصل کرنا ہے جس کے لئے پی ٹی آئی گزشتہ تین برسوں سے مزاحمتی سیاست کے نام پر دباﺅ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے، مگر جب جماعت کا کوئی رکن مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے غداری کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔
2022ءتک پاکستان تحریک انصاف میں دو طرح کی قیادت تھی، ایک وہ جو اس جماعت کو بنانے والوں میں شامل تھے اور دوسرے وہ جنہوں نے بعد میں اس جماعت کا حصہ بن کر ملکی سیاست میں اہم پوزیشنز سنبھالیں، نو مئی 2023ءکے بعد پاکستان تحریک انصاف میں ایک تیسری قسم کی قیادت نے جنم لیا تھا جو وکلا پر مشتمل تھی، جس نے پہلی دو اقسام کی قیادت کے آﺅٹ ہو جانے سے فائدہ اٹھایا اور کسی حد تک پارٹی کو ہائی جیک کر لیا، مگر اب یہ تیسری قسم کی قیادت بھی پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں سے محفوظ نہیں، یہ بھی تضادات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔
26 نومبر 2024ءکے سیاسی بلنڈر کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف سڑکوں پرآنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، پی ٹی آئی کا سب سے بڑا سیاسی ہتھیار سوشل میڈیا بھی اب اس کے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے، حکمران جماعتیں عموماًغیرمقبول ہوا کرتی ہیں مگر ٹک ٹاک، فیس بک اور ایکس سمیت تمام بڑے فورمز پر پی ٹی آئی کے مقابلے میں (ن) لیگ کی اچھی خاصی موجودگی نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک متبادل بیانیہ مو ثر انداز میں دکھائی دینے لگا ہے جو پہلے نہ ہونے کے برابر تھا، معرکہ حق کے بعد ملک کے اندر افواجِ پاکستان کی مقبولیت میں بھی بہت اضافہ ہو چکا ہے، خیبر پختونخوا میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا طلبہ سے خطاب اور طلبہ کے ریسپانس کے مناظر بتا رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں نوجوانوں کی سوچ بدل چکی ہے، چند ہفتے قبل اسلام آباد میں ہونے والے اوورسیز کنونشن میں پاکستان تحریک انصاف کے کئی بیرونِ ملک عہدیداروں کی شرکت نے بھی سب کو حیران کر کے رکھ دیا، کنونشن میں پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں کی شرکت بتا رہی تھی کہ پی ٹی آئی اوورسیز میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
کچھ سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ پاک بھارت جنگ کے بعد مقتدرہ کی عوامی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے اس لئے یہ پاکستان تحریک انصاف کو حکومت کے ساتھ بٹھا کر ملک میں سیاسی ہیجانی کیفیت کے خاتمے کا سنہری موقع ہے، ان کے خیال میں بانی پی ٹی آئی کو بات چیت کی میز پر لایا جائے تاکہ 2022ءسے چلی آرہی سیاسی ہیجان کی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔بانی پی ٹی آئی کی سیاست ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے، وہ مقتدرہ کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں مگر مقتدرہ اپنے مو قف پر قائم ہے کہ بات کرنی ہے تو سیاسی حکومت کے ساتھ کریں، حکومت کے ساتھ بات کرنے کا مطلب ہے کہ اسے منتخب حکومت تسلیم کیا جائے اور اسے چلنے دیا جائے، اگر بانی پی ٹی آئی ایسا کرتے ہیں تو انہیں اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی، اگر ایسا نہیں کرتے تو تب بھی اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی، انہیں نو مئی پر معافی مانگنا ہوگی اور آئندہ انتخابات تک خاموش بیٹھنا ہوگا، بانی پی ٹی آئی کو یہ طے کرنا ہے کہ انہوں نے جیل میں رہ کر حکومت کو سکون سے چلتا رہنے دینا ہے یا جیل سے باہر آکر۔
نو منتخب صدر پی ایف ایف سید محسن گیلانی فٹبال کی ترقی کے لیے پرعزم
مزید :