انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا اولمپک نصب العین کی ترقی میں چین کے کردار کو خراج تحسین
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا اولمپک نصب العین کی ترقی میں چین کے کردار کو خراج تحسین WhatsAppFacebookTwitter 0 22 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ (سپورٹس ڈیسک) انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے صدر تھامس باخ
نے چین میں چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران ہاربن ایشین سرمائی کھیلوں کی کامیابی کو سراہا اور اولمپک نصب العین کی ترقی میں چین کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ آئی او سی کو چین کے ساتھ تعاون سے سیکھںے کا موقع ملا ہے۔
ہفتہ کے روز تھامس باخ نے کہا کہ جو بھی چین آتا ہے وہ کھیلوں کی صنعت کی بھرپور ترقی کو خود محسوس کرسکتا ہے ، خاص طور پر چین کی اقتصادی ترقی اور اس کے نتیجے میں سماجی خوشحالی پر سرمائی کھیلوں کا کردار۔ ان کا ماننا ہے کہ چین نے ہمیشہ کثیر الجہتی تعاون کے تصور پر عمل کیا ہے، اپنے مشن کو پورا کرنے میں آئی او سی کی بھرپور حمایت کی ہے اور پرامن مقابلوں کے لیے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے پرعزم رہا ہے۔ اس وقت چین میں اولمپک اقدار کی تعلیم کے لئے دنیا کا سب سے بڑا پروگرام موجود ہے۔
صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیز میں کھیلوں کو اہمیت دی جائے۔ ایسا ہمیں صرف مسابقتی کھیلوں کے میدان میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ اس کی بدولت پورے معاشرے کی شرکت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ تھامس باخ نے آئی او سی کی طویل مدتی مضبوط حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا ، اورتوقع ظاہر کی کہ مستقبل میں چین آئی او سی کے ساتھ کام جاری رکھے گا تاکہ اولمپک تحریک کی بھرپور ترقی کو مزید فروغ دیا جائے اور عالمی امن ، اتحاد اور ترقی کو فروغ دینے کے لئے نئی خدمات سرانجام دی جائیں۔
واضح رہے کہ
ستمبر 2013 میں تھامس باخ نےانٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (آئی او سی) کے نویں صدر کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا۔وہ ایک اولمپئن بھی رہ چکے ہیں اور انہوں نے 1976 کے اولمپکس میں مردوں کے فوائل مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا تھا اور اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والے آئی او سی کے پہلے صدر تھے۔ صدارت کے اپنے 10 سال سے زائد عرصے کے دوران باخ نے کئی بار چین کا دورہ کیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
خوابوں کی تکمیل میں جہد مسلسل کا کردار
جرمنی کی تیار کردہ شہرہ آفاق کار مرسڈیز بینز کا شمار دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں ہوتا ہے جسے دنیا بھر میں ’سٹیٹس سمبل‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کار کے موجد برتھا بینز اور ان کے شوہر کارل بینز ہیں۔ مرسیڈیز بینز نام کی کار اس لیئے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کار پٹرول سے چلنے والی پہلی گاڑی تھی۔
اس کار کی ایجاد اور افادیت کا شروع میں کسی کو احساس نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کسی نے اس ایجاد پر کوئی خاص توجہ دی تھی، بلکہ لوگوں کی اکثریت نے کارل اور اس کی بیوی برتھا کا یہ کہتے ہوئے مذاق اڑایا تھا کہ’’تین پہیوں والی گاڑی‘‘ ایک احمقانہ خیال ہے۔ اس کے بعد کارل مایوسی اور افسردگی کی حالت میں چلے گئے تھے جس وجہ سے وہ اکثر و بیشتر شراب نوشی میں سکون ڈھونڈتے تھے۔
ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس سے اس کار کو جرمنی بھر میں شہرت ملنے لگی۔ کارل بینز کا خاندان اپنے 5 بچوں کے ساتھ منہم میں رہتا تھا جبکہ برتھا بینز کے والدین تقریباً100 کلومیٹر دور جنوب میں فورشیم میں رہتے تھے۔ یہ کافی لمبا فاصلہ تھا اور وہاں اپنے والدین سے ملنے اور اس جگہ تک پہنچنے کے لئے برتھا نے اس کار میں سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے دماغ کے کسی کونے میں یہ سوچا کہ وہ اپنی تیار کردہ گاڑی میں سفر کرنے سے اپنے شوہر کے خواب کو بھی بچا لے گی اور پھر برتھا نے ایسا ہی کیا اور وہ اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر سفر کرنے کے لیئے نکل کھڑی ہوئی۔
برتھا کو اس سفر میں تقریباً ایک پورا دن لگ گیا، جو انیسویں صدی کے آخر میں گاڑی کی محدود طاقت کے پیش نظر قابل فہم بات ہے۔ اس سفر کے دوران برتھا کو فارمیسی سے پٹرول خریدنے کے لئےکئی باررکنا پڑا کیونکہ اس وقت پٹرول وہاں صفائی کے طور پر فارمیسیوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ برتھا نے گاڑی کی ٹیوننگ کرتے وقت بریکوں کی مرمت کی، موثر طریقے سے پہلا بریک پیڈ ایجاد کیا، ڈرائیو چین کی مرمت کی اور بال پن کے ساتھ ایندھن کی لائن میں کلاگ ہٹا دیا۔ اس کے علاوہ سفر شروع کرنے سے پہلے برتھا نے گاڑی کی ٹائی کے ساتھ تار کا ایک حصہ بھی الگ تھلگ کر دیا تاکہ سفر میں کار میں کوئی خرابی پیدا ہو تو وہ اس کی آسانی کے ساتھ مرمت کر سکے۔
برتھا نے فورشیم تک یہ سو کلومیٹر کا سفر آسانی کے ساتھ طے کر لیا اور وہاں پہنچنے پر برتھا نے کارل کو اس سفر کو کامیابی سے طے کرنے کی ٹیلی گرام بھیجی، جبکہ چند روز بعد برتا نے منہم واپسی کا سفر بھی کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔برتھا نے اس مہم جویانہ سفر کے دوران بہت سی دلچسپ نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ گاڑی صرف ایک عجیب کھلونا ہی نہیں بلکہ نقل و حمل کا ایک عملی اور تیز ذریعہ بھی ہے۔ برتھا کے اس سفر کی وجہ سے کارل راتوں رات مشہور ہو گیا اور اس کار کی خریداری کے لئے اسے متعدد درخواستیں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔
مزید برآں برتھا نے بھی بہتری کی تجاویز کے لئے اپنی سواری کا استعمال کیا، انہوں نے رفتار بڑھانے، بریک کو بہتر بنانے، ایندھن کا فلٹر لگانے اور اس میں مزید استحکام کے لئے چوتھا پہیہ شامل کرنے کے لئے ایک گیئر باکس شامل کرنے کی ایک تجویز پر عمل کیا۔ برتھا کی بہادری اور بصیرت کی بدولت کارل کی ایجاد نہ صرف بچ گئی بلکہ موجودہ مرسڈیز بینز نے مہنگی اور پوش گاڑیوں کی ایک پوری سلطنت کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔
کہتے ہیں کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ انسان میں حوصلہ ہو اور وہ اپنے کسی خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ہمت نہ ہارے تو اس کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوتا ہے۔ کارل نے گاڑی تو ایجاد کر لی مگر اسے دنیا میں اس کی بیوی برتھا نے متعارف کروایا۔ یہ ضروری ہے کہ خواب جتنے بھی عجیب و غریب ہوں ان کو ضرورت سمجھ کر پورا کرنے کے لئے جہد مسلسل کی جائے تو ایک دن وہ ضرور پورے ہوتے ہیں۔