آئی ایم ایف کی چیف جسٹس سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
چیف جسٹس سے آئی ایم ایف کے وفد کی ملاقات کے حوالے سے متصادم آراء سامنے آرہی ہیں۔ چونکہ یہ ہماری ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے اس لیے اس ملاقات کو عام لوگ تو اچنبھے اور تعجب سے دیکھ رہے ہیں جو اس کے مخالف ہیں وہ پیکا قانون کی وجہ سے استعاروں میں بات کررہے ہیں کوئی کہہ رہا ہے کہ حمیت گئی تیمور کے گھر سے، کچھ اس کو اس طرح بدل کر کہہ رہے ہیں کہ حمیت گئی ہمارے اداروں سے۔ کچھ یو ٹیوبر کہہ رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان آئی ایم ایف کے کٹہرے میں۔ ہوتا تو یہ ہے چیف جسٹس کے کٹہرے میں سائلین یا ملزمان کھڑے ہوتے ہیں آج ہمارے چیف جسٹس کو حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے کھڑا کردیا۔ کچھ یو ٹیوبر یہ تبصرہ بھی کررہے ہیں کہ آج چیف جسٹس کو آئی ایم ایف کے سامنے کھڑا کیا گیا ہے کل کو ہمارے سائنسدانوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایٹمی پلانٹ کے وزٹ کی بات سامنے آئے اور کہا جائے کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے قرضے کہیں اسلامی بم بنانے پر تو نہیں خرچ ہورہے ہیں۔ یہ وہ خدشات ہیں جو مختلف اہل فکر و دانش کی طرف پیش کیے جارہے ہیں آئی ایم ایف کا وزیر خزانہ اور ان کی وزارت کے افسران سے تو ملاقات کرنے کا تو بنتا بھی ہے کہ وہ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ جو قرضے دیے گئے تھے وہ ٹھیک اسی مدات میں خرچ ہورہے ہیں یا اس میں کچھ آگے پیچھے ہورہا ہے اس لیے کہ ہر قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی کی فکر ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کا مالیاتی وفد ایک ہفتے کے دورے پر آیا تھا۔ یہ چھے شعبوں میں یہ دیکھے گا کہ کیسے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کام ہورہا ہے اس وفد نے اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، فنانس، ریونیو اور ایس ای سی پی سمیت وفاقی محکموں، سیکرٹریز اور دیگر شعبوں کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
ہماری حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات تو کیے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں کئی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے زیادہ تر سرمایہ کاری باہر جارہی ہے۔ کسی بھی معیشت کی ترقی کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں ایک ملک میں صنعتی ترقی دوسرے ملکی برآمدات میں اضافہ ہونا۔ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور ان کے خاندان اپنی باہر جمع کی ہوئی دولت ملک میں لے آئیں تو یہی ان کا ملک اور قوم پر بڑا احسان ہوگا۔ ہم باہر کے ملکوں سے سرمایہ کاری کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ ایک سیدھا سا سوال تو لوگ کریں گے نا کہ بھئی اپنی دولت تو باہر کے ملکوں میں لے جارہے ہیں، پہلے خود تو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرکے دکھائیں کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی اچھی حکمرانی اور قانون کی بالا دستی پر ہوتا ہے ان دونوں شعبوں میں ہم اس معیار پر نہیں پہنچ سکے جو ایک ترقی پذیر معیشت کے لیے ضروری ہے۔ اچھی حکمرانی سے یہ مراد نہیں ہے کہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا جائے قرضوں کے حصول کے لیے دوڑ بھاگ کی جائے، بلکہ اچھی حکمرانی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ ملک کے مختلف اداروں میں غیر ضروری اخراجات تو نہیں ہورہے اور پھر ان اخراجات کے مقابلے میں ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے۔
ہم یہاں دو مثالیں رکھنا چاہیں گے نیپرا کا ایک ادارہ ہے اس کا کام کیا ہے کس مقصد کے لیے بنایا گیا عوام کو اس سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ کے الیکٹرک، لیسکو، فیسکو سمیت ملک میں جتنے بجلی فراہم کرنے والے ادارے ہیں وہ نیپرا سے بجلی کے ریٹ بڑھانے کی درخواست کرتے ہیں یہ خاموشی سے ان کی درخواست قبول کرکے عوام پر مالی بوجھ ڈال دیتی ہے، بعد میں ادارے والے معصومیت سے کہتے ہیں یہ ریٹ ہم نے تھوڑی بلکہ نیپرا نے بڑھائے ہیں۔ نیپرا عوام دوست نہیں بلکہ عوام دشمن ادارہ ہے۔ آج ہی کل کے اخبارات میں آپ نے خبر پڑھا ہوگا کہ نیپرا کے چیئرمین کی تنخواہ بڑھا کر 35 لاکھ کردی گئی ہے پھر دس یا گیارہ لاکھ کا کوئی خصوصی الائونس الگ سے ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان نے خود اپنی تنخواہیں بڑھائی تھیں اسی طرح اس ادارے نے خود ہی اپنی مرضی سے تنخواہیں بڑھا لیں۔ چیئرمین کے علاوہ ان کے ماتحت جو ڈائریکٹرز یا افسران ہیں (خبر میں تعداد نہیں دی گئی) ان کی 29 لاکھ روپے ماہانہ اور دیگر الائونس ملا کر 40 لاکھ ماہانہ تک بن جائے گی اس طرح چیئرمین 6 کروڑ روپے سالانہ اور دیگر افسران 4.
دوسری بات ہم پوری دنیا میں اپنے ملک کے سفارت خانوں کی کارکردگی اور ان پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے کریں گے۔ ہمارے سفارت خانے ایک اسلامی فلاحی اور جمہوری مملکت کی تصویر پیش کرتے ہیں یا اس پر بھارت کا پروپیگنڈا سبقت لے جاتا ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے جبکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے ہمارے سفارت کار ملک کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ جس ملک میں ہیں وہاں اپنے ملک کی اہم اشیاء کا تعارف کرائیں جن میں ہم نمایاں ہیں ابھی حال ہی میں پاکستان بھارت کے مقابلے میں باسمتی چاول کا کیس جیتا ہے ہمارے یہاں کا نمک اور دیگر مصالحہ جات جو اپنا ایک معیار رکھتے ہم کس حد تک اپنی ان چیزوں کو ان ممالک میں پروموٹ کرتے ہیں جہاں ہم سفیر کی حیثیت سے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سفیر جس ملک میں ہیں وہاں وہ پاکستانیوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں پاکستانی کو جو وہاں کسی مشکل میں پھنس گئے ہوں تو ان کو اپنے سفیر سے رابطہ کرنے میں کسی بھاری پروٹوکول کا تو سامنا نہیں کرنا پڑتا، بہرحال چونکہ معاشی حوالوں سے بات آئی تھی اس لیے برسبیل تذکرہ ذکر آگیا۔
اب اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں چیف جسٹس کی آئی ایم سے ملاقات کے حوالے ابتداء میں جو مخالف آراء دی گئی ہیں وہ ایک اینٹی گورنمنٹ ذہن کی عکاسی کرتی ہیں اب یہ چونکہ پہلی بار ایسا ہوا ہے اس لیے سوچ کے زاویے لڑکھڑا رہے ہیں۔ ورنہ تو یہ کوئی بہت زیادہ قابل اعتراض بھی نہیں ہے ایک حد تک تو تنقید کی گنجائش ہے۔ آپ سے بھی کوئی قرض مانگے گا تو پہلے یہ دیکھیں گے یہ واپس بھی کرسکے گا یا نہیں اس حوالے سے پاکستان کا ٹریک ریکارڈ خراب نہیں ہے۔ جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی مجوزہ اصلاحات یا اقتصادی حوالے سے تجاویز اپنے قرضوں کے واپسی کے تناظر میں ہے وہیں دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسی دبائو میں ہماری کئی ٹیڑھی میڑھی چیزیں سیدھی بھی ہوسکتی ہیں۔ ٹیکس نیٹ کا اونٹ بھی کسی کروٹ نہیں بیٹھ پارہا ہے۔ ویسے اخبارات میں ملاقات کی جو خبریں آئی ہیں ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے چیف جسٹس نے بہت عمدگی سے اسے ہینڈل کیا ہے۔ معروف صحافی نجم سیٹھی کا خیال ہے کہ اس ملاقات میں یہ یقین دہانی بھی حاصل کی گئی ہوگی کہ حکومت معاشی حوالوں سے جو اصلاحاات یا فیصلے کرے عدلیہ کی طرف سے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو جیسا کہ ماضی میں اسٹیل مل کی نجکاری کے حکومتی فیصلے کہ خلاف افتخار چودھری نے فیصلہ دیا تھا اور پھر وہ مسئلہ اب تک لٹکا ہوا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کے کے سامنے اور دیگر کرتے ہیں چیف جسٹس حوالے سے رہے ہیں ملک میں کے لیے ہیں کہ ہیں وہ اس لیے
پڑھیں:
کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا۔
اصول سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بھی واضح ہے کہ اپیل دائر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے، البتہ اگر عدالت چاہے تو کچھ شرائط کیساتھ یا حکم امتناع کے ذریعے چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد روکا جاسکتا ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بنیچ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس میں دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ درخواستیں ان ریویژن آرڈرز سے متعلق ہیں جو لاہور ہائیکورٹ نے ایک دہائی قبل جاری کیے تھے، جن میں ریونیو حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں، ان واضح ہدایات کے باوجود، ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجے میں بلا جواز اور بلاوجہ کیس میں تاخیر ہوئی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ عملدرآمد میں ناکامی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔
سپریم کورٹ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اس تشویشناک طرزعمل کو اجاگر کیا جائے جس میں ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھا جاتا ہے یا انہیں غیر معینہ مدت تک معطل رکھا جاتا ہے،ریمانڈ کا مطلب تاخیر کا جواز فراہم کرنا نہیں ہوتا، جب اعلیٰ عدالتیں ریمانڈ کی ہدایات جاری کرتی ہیں تو ان پر مخلصانہ اور فوری عملدرآمد لازم ہوتا ہے، اس میں ناکامی تمام حکام پر آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ صرف انفرادی غفلت نہیں بلکہ لازمی عدالتی احکامات سے مستقل انتظامی لاپرواہی کی علامت ہے، جو ایک نظامی ناکامی ہے اور جسے فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ذاتی پیشی طلب کی تو انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ صوبائی سطح پر واضح اور جامع پالیسی ہدایات جاری کی جائیں گی، جن کے ذریعے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری اور بلا تاخیر عملدرآمد کریں۔
عملدرآمد کی نگرانی کی جائیگی اور ان کے دائرہ اختیار میں موجود تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ صوبے میں تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی تازہ ترین صورتحال، اس حکم کے اجرا کے تین ماہ کے اندر اندر، اس عدالت کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔