امریکی صدر ٹرمپ کا طالبان سے امریکی اسلحہ واپس لینے کے لیے بڑا اقدا م
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی اسلحے کی واپسی کے لیے نمائندہ مقرر کرتے ہوئے انہیں جامع منصوبہ تشکیل دینے کی ہدایت کردی ۔
میڈیارپورٹس کے مطابق کنزرویٹو ایکشن کانفرنس میں حال ہی میں خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے قبضے میں موجود امریکی فوج کے اسلحے کی واپسی کے لیے منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈوف کا نام لیا اور ان کی تعریف کرتے ہوئے ہدایت کی کہ طالبان سے امریکی اسلحہ واپس لیا جائے اور کہا کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں اور وہ ایک انٹرپرینئیور ہیں۔
مذکورہ نمائندے کی مکمل شناخت واضح نہیں ہے لیکن خیال ہے کہ ٹرمپ ڈوف مانچسٹر کی بات کر رہے ہیں جو ایک مشہور کاروباری شخصیت اور امریکا کی ری پبلکن پارٹی کے حامی ہیں۔
ٹرمپ نے خطاب میں زور دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ہاتھوں سے امریکی اسلحہ واپس لینے کی ضرورت ہے اور اسی دوران طالبان کی فوجی پریڈز کے دوران امریکی اسلحے کی نمائش پر خفگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کو سالانہ دو سے ڈھائی ارب ڈالر فراہم کرتے ہیں حالانکہ ہمیں خود مدد کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحے میں 78 ایئرکرافٹس، 40 ہزار سے زائد فوجی گاڑیاں اور 3 لاکھ سے زائد اسلحہ شامل ہے، یہ سارا اسلحہ اور فوجی سازوسامان اس وقت طالبان کے زیر استعمال ہے۔
اس سے قبل طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا تھا کہ طالبان افغانستان میں رہ جانے والے امریکی اسلحے کو مال غنیمت تصور کرتے ہیں اور اس کا تحفظ جاری رکھیں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ جب تک طالبان حکومت میں ہیں اس وقت تک امریکی اس کی واپسی کا دعویٰ نہیں کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکا نے جولائی 2021 میں افغانستان سے اپنی فوج کا مکمل انخلا کیا تھا اور اس کے فوری بعد طالبان نے حکومت سنبھالی تھی اور اس وقت رہ جانے والا سازوسامان طالبان حکومت نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
طالبان نے امریکا سے ہونے والے معاہدے کے تحت تمام فوجیوں کی بحفاظت واپسی کی راہ ہموار کی تھی اور انخلا کے دوران سیکڑوں افغان شہری بھی امریکی فوجی جہازوں میں بیرون ملک چلے گئے تھے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکی اسلحے سے امریکی طالبان کے امریکی اس اور اس
پڑھیں:
طالبان سے کہا تھا 1 کپ چائے کیلئے آئے ہیں، وہ کپ بہت مہنگا پڑ گیا: اسحاق ڈار
اسحاق ڈار—فائل فوٹونائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ جب 2021ء میں طالبان کی حکومت آئی تو پاکستان کی طرف سے جا کر کہا گیا کہ ہم یہاں ایک چائے کے کپ کےلیے آئے ہیں، وہ کپ آف ٹی ہمیں بہت مہنگا پڑا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات 2012ء سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں، متقی صاحب کی کل 6 مرتبہ کال آئی، اُن سے کہا کہ آپ سے صرف ایک چیز چاہیے کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اُن سے کہا کہ آپ نے مشکل میں ڈال دیا ہے، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے، ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2018ء تک ان آپریشنز کی وجہ سے ملک میں دہشت گرد حملے بہت کم ہو گئے تھے، افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد 4 سال دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ چیزیں نہیں ہوئیں، میں نے افغانستان جا کر ان کے ساتھ بات چیت کی اور معاہدے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان سے ایک ہی بات مانگی کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، وہاں کوشش کی گئی کہ ٹرین شروع کی جائے جو افغانستان سے دیگر ممالک میں جائے، بدقسمتی ہے کہ افغانستان میں جو موجودہ حکومت آئی ہے، روزانہ پرتشدد واقعات بڑھے ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بلاول بھٹو کا بیان دیکھا تھا بیان دینا ان کا حق ہے، بلاول بھٹو نے جن باتوں کی نشاندہی کی وہ ہوا میں نہیں کی، ان پر بات ہوئی ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے 40 ہزار ٹی ٹی پی والے پاکستان آئے، اس وقت کی حکومت نے 100 سے زائد ہارڈ کور دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج سے چند سال پہلے 38 ہزار مدارس تھے آج ڈیڑھ لاکھ مدارس ہو چکے ہیں، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے ہم آخری دم تک لڑیں گے، امید ہے کہ 6 نومبر کو ہمارے مذاکرات آگے جائیں گے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کا 6 مئی سے 10 مئی تک بہت فعال کردار تھا، انہوں نے ، یو اے ای، یو کے اور قطر نے بہت رابطہ رکھا، بھارت نے پاکستان پر 80 ڈرونز چھوڑ دیے تھے، 79 ڈرونز کو فوج نے ناکارہ کیا، ایک نے ملٹری تنصیبات کو تھوڑا سا نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جو بیانیہ بنانے کے چکر میں تھا وہ بے نقاب ہو گیا، بھارت کے خلاف آپریشن 4 بجے شروع ہوا اور 8 بجے ختم ہوا، 8 بج کر 17 منٹ پر مارکو روبیو کی کال آئی کہ بھارت سیز فائر کے لیے تیار ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط 11 جون کو لکھا گیا، امریکا نے جو کردار ادا کیا یہ خط اس حوالے سے اس بات کا اعتراف تھا، وہ خط میرے دستخط سے گیا ہے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط اگلے سال کے لیے زیرِ غور آئے گا، نوبل انعام کے لیے نامزدگیاں جنوری تک لی جاتی ہیں۔