اس بار کی تنخواہ لیں اور کرکٹ کی جان چھوڑ دیں، شائقین قومی ٹیم پر برس پڑے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اس بار کی تنخواہ لیں اور کرکٹ کی جان چھوڑ دیں، شائقین قومی ٹیم پر برس پڑے WhatsAppFacebookTwitter 0 23 February, 2025 سب نیوز
دبئی (سب نیوز)آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025کے اہم میچ میں بھارت کے ہاتھوں پاکستان کرکٹ ٹیم کی 6وکٹوں سے شکست کے بعد شائقین شدید غصے میں ہیں اور قومی ٹیم کی کارکردگی اور کپتان محمد رضوان کی قیادت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ شائقین نے کھلاڑیوں کیلئے سخت الفاظ بھی استعمال کئے۔
اتوار کے روز دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے 241 رنز بنائے لیکن بھارت نے ویرات کوہلی کی نصف سنچری کی بدولت مطلوبہ ہدف 4 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔اس شکست کے بعد کراچی کے شائقین نے سوشل میڈیا اور سڑکوں پر اپنا غم و غصہ نکالا اور کہا اس ٹیم کے کھلاڑیوں کو چاہئے کہ اس بار کی تنخواہ لیں اور کرکٹ کی جان چھوڑ دیں جبکہ دوسرے نے تنقید کرتے ہوئے کہا پرچی کلچر اب بھی چل رہا ہے اور میرٹ پر کھلاڑیوں کی سلیکشن نہیں ہوتی۔
شائقین نے سابق کپتان بابر اعظم کو بھی نہیں بخشا اور ایک مداح نے طنزا کہا لوگ بابر کو کنگ کہتے ہیں، مگر پرفارمنس کنگ والی نہیں جبکہ دوسرے نے کہا بابر اعظم صرف چھوٹی ٹیموں کے خلاف اسکور کرتے ہیں اور بڑے میچوں میں ناکام ہو جاتے ہیں۔محمد رضوان کی کپتانی پر بھی تنقید کی گئی اور ان کے فیصلوں اور ٹیم کی حکمت عملی کو ناقص قرار دیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250922-03-6
ڈاکٹر عالمگیر آفریدی
خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں، خصوصاً بنوں، لوئر دیر، لکی مروت، وزیرستان اور باجوڑ میں دہشت گردانہ حملوں اور جھڑپوں کی لڑی نے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان واقعات میں نہ صرف سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں شامل ہیں بلکہ عام شہریوں، سرکاری ملازمین اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ سلسلہ محض علاقائی دہشت گردی نہیں رہا بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ دکھائی دیتا ہے جس کے پیچھے بیرونی معاونت اور سہولت کاروں کے ہاتھ ہونے کے واضح ثبوت سامنے آ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ یہ جنگ آخر کب تک جاری رہے گی؟ اور ہم بطور ریاست اور معاشرہ کن حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے شہریوں اور افواج کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟ عسکری اور سیکورٹی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق سیکورٹی فورسز نے متعدد دہشت گرد ہلاک کرنے کے دعوے کیے ہیں، جبکہ دشمن کے حملوں میں پاک فوج کے کئی جوان، جن میں ایس ایس جی کے میجر عدنان اسلم جیسے بہادر افسر بھی شامل ہیں، جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ افسوسناک واقعات محض اعداد وشمار نہیں؛ یہ خاندانوں کی کربناک کہانیاں ہیں۔ وزیراعظم کی بنوں آمد اور فیلڈ مارشل کے ہمراہ زخمیوں سے ملاقات اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت ریاستی عزم کی علامت ہے۔ ساتھ ہی سیکورٹی حکام کی طرف سے یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کے سرغنہ اور سہولت کار بیرونِ ملک، بالخصوص افغانستان میں موجود ہیں اور ان کی پشت پر بھارتی حمایت کے شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ بیان داخلی اور خارجی نوعیت کے خطرات کو یکجا کرتا ہے مثلاً ایک طرف اندرونی نیٹ ورک جو مقامی سطح پر حمایت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے، دوسری طرف بیرونی عوامل جو شدت پسندی کو ایندھن پہنچاتے ہیں۔
ایسی پیچیدہ صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ صرف عسکری ردِ عمل محدود رہے تو معاملات جلد حل نہیں ہوں گے۔ سیکورٹی فورسز کا موثر اور بروقت آپریشن لازمی ہے، یہی وہ لائن ہے جس پر وہ کھڑی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک مربوط قومی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں ریاستی ادارے، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما، مقامی عمائدین اور عام لوگ سب شریک ہوں۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں یہ اقدامات موثر حکمت عملی کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔
اولاً، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مربوط اور فعال بنانا ہوگا۔ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی اکثر مقامی مدد، مالی وسائل اور خفیہ مواصلات کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا اور ان کے مالی و مواصلاتی راستوں کو بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انٹیلی جنس ایکسچینج، بارڈر کنٹرول اور فورسز کے مابین ہم آہنگی ہی وہ کلید ہے جو کارروائیوں کو بروقت اور مؤثر بنا سکتی ہے۔ دوم، سرحدی انتظامی اقدامات میں فوری بہتری لائی جائے۔ افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں کا کنٹرول ایسے وقت میں انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کچھ حملہ آور اور ان کے سرغنہ وہاں سے پاکستان میں آکر حملے کرتے ہیں۔ موثر بارڈر مینجمنٹ، مشترکہ نگرانی اور دو طرفہ تعاون ایسے اقدامات ہیں جو سرحد پار سہولت کاری کو کمزور کر سکتے ہیں۔ تیسرا، مقامی سطح پر اعتماد سازی اور عوامی شمولیت کو فروغ دینا ہوگا۔ مقامی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مسلسل رابطے، فوری شکایات سننے کے مراکز اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار اور مثبت مواقع دیے جائیں۔ جب تک نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور باعزت مشاغل کے مواقع محدود رہیں گے، وہ شدت پسند گروہوں کے لیے آسان شکار رہیں گے۔ یہ ایک طویل المدتی مقصد ہے مگر اسی کے ذریعے دہشت گردی کی جڑ کمزور ہو سکتی ہے۔ چوتھا، قانون و انصاف کے طریقہ کار کو تیز اور شفاف بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے سہولت کاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں شفافیت اور بروقت کارروائی نہ صرف مجرمان کو عبرت سکھائے گی بلکہ عوام میں ریاستی عدل و انصاف پر اعتماد بھی بحال کرے گی۔ اس کے علاوہ، اشتہاری اور نفسیاتی حکمت ِ عملی کے ذریعے انتہا پسندانہ بیانیوں کا مقابلہ کرنا بھی لازمی ہے، اس کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور مذہبی قائدین کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ کو متحرک رکھنا ہوگا۔ اگر واقعی دہشت گردوں کو بیرونی حمایت حاصل ہے تو عالمی سطح پر شواہد جمع کرکے موثر دباؤ بنایا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے حامی نیٹ ورکس کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
اسی طرح بجٹ اور وسائل کی فراہمی بھی ایک حقیقت ہے۔ سیکورٹی اداروں کو صرف ہتھیار اور لاجسٹک سپورٹ ہی درکار نہیں بلکہ معاشرتی ارتقاء، متاثرہ علاقوں کی بحالی اور شہدا کے لواحقین کی بحالی کے لیے مستقل پروگراموں کی ضرورت ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان خاندانوں کو جو کسی بھی وجہ سے دہشت گردی کے شکار ہوئے ہوں ہمیشہ کے لیے معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ مایوسی کی زد میں نہ آئیں۔
حرف ِ آخر یہ کہ یہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں جیتی جا سکتی۔ میجر عدنان اسلم اور دیگر شہداء کی قربانیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہمیں نہ صرف فوری ردعمل بلکہ قومی سطح پر ایک جامع اور پائیدار حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت ِ عملی کا مرکزی نقطہ عوام کا اعتماد اور شراکت ہونا چاہیے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب عوام خود اپنے علاقے کے امن کے محافظ بنیں گے تو دہشت گردی کا گہوارہ خود بخود کمزور پڑے گا۔
یہ وقت انتقام یا نفرت کا نہیں اور نہ ہی بلیم گیم اور پوائنٹ اسکورنگ کا ہے بلکہ ہمیں ایک قوم بن کر خوب سوچ سمجھ کر، منظم اور متحد ہو کر اس بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کے لیے ہمیں اپنے نازک قومی مفاد کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جہاں ایک قلیل اور وسط مدتی حکمت عملی کو بروئے کار لانا ہوگا وہاں ایک ایسی طویل المدتی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں عسکری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو یکجا کیا ہو۔ ورنہ دہشت گردی کی یہ آگ صرف بنوں یا چند سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ شہداء کی بے لوث قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری ذمے داری صرف ان کی یاد میں اظہارِ تعزیت تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ہم نے مل کر ان کے ایثار کو امن اور مستقل استحکام کے حقیقی منصوبوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔