ویٹیکن سٹی: کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ فرانسس کی طبیعت بدستور تشویشناک ہے، جس کے بعد دنیا بھر میں ان کی صحت یابی کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔

88 سالہ پوپ فرانسس کو 14 فروری کو برونکائٹس کے باعث اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، تاہم ان کی حالت مزید بگڑ گئی ہے۔ 

ویٹیکن حکام کے مطابق، ہفتے کے روز سانس لینے میں شدید دشواری کی وجہ سے انہیں ہائی فلو آکسیجن دی گئی اور خون کی کمی کے باعث خون کی منتقلی (بلڈ ٹرانسفیوژن) بھی کرنا پڑی۔

اتوار کی صبح ویٹیکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ "رات پرسکون گزری، پوپ نے آرام کیا"، جو ایک مثبت علامت سمجھی جا رہی ہے۔ تاہم وہ تاحال ناک میں لگے ٹیوب کے ذریعے آکسیجن لے رہے ہیں اور مکمل صحت یاب ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔

پوپ فرانسس، جو 2013 سے کیتھولک چرچ کے سربراہ ہیں، نے اسپتال میں رہتے ہوئے ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا، "مجھے اپنے علاج پر مکمل اعتماد ہے، اور میں آپ سب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔"

ویٹیکن میں پوپ کے چاہنے والے موم بتیاں جلا کر ان کی صحت کے لیے دعائیں کر رہے ہیں، جبکہ روم میں ایک خصوصی دعا کی تقریب کا بھی انعقاد کیا گیا۔

ہفتے کی شب ویٹیکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ "پوپ کی حالت ابھی بھی تشویشناک ہے، اور وہ خطرے سے باہر نہیں"۔

اطالوی اخبار کورئیرے ڈیلا سیرا نے لکھا: "پوپ کی حالت مزید بگڑ گئی" جبکہ لا ریپبلیکا نے اسے "ویٹیکن کا سیاہ ترین دن" قرار دیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پوپ فرانسس کی حالت

پڑھیں:

ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟

تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔

ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔

عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔

تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔

اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔

آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟

پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟

اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔

آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔

خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔ 

ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔

دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔

اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔

آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی
  • دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست جاری، لاہور کی ایک درجہ تنزلی
  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری
  • راولپنڈی میں بدلتے موسم کے باوجود ڈینگی کے وار کا سلسلہ جاری 
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • پنجاب میں 8ویں جماعت کے بورڈ امتحانات کا سلسلہ دوبارہ شروع، حکومتی فیصلہ
  • غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے، میرواعظ کشمیر
  • ای چالان سسٹم کے نفاذ کے بعد دستی چالان کا سلسلہ ختم ہوگیا: ڈی آئی جی ٹریفک