پشاور:

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ خیبرپختون خواہ کو فاٹا انضمام اور خالص پن بجلی منافع بھی ادا نہیں کیا جا رہا، حکومت انضمام شدہ اضلاع کے عوام کو ان کا حصہ نہیں دے رہی ہے۔

یہ بات انہوں نے پشاور میں وزیراعلیٰ کے پی کی جانب سے کرائے گئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ آئین حکومت اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے، خیبر پختونخواہ کو فاٹا انضمام اور خالص پن بجلی منافع بھی ادا نہیں کیا جا رہا، صوبوں کو وسائل کی تقسیم کا نظام اس وقت غیر فعال ہو گیا ہے، ملک میں کوئی سرمایہ کاری کو تیار نہیں، حکومت انضمام شدہ اضلاع کے عوام کو ان کا حصہ نہیں دے رہی ہے۔

عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں صنعتی شعبہ نہیں چل رہا، بلوچستان کے معاملے میں آپ نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، بلوچستان میں طاقت نوجوانوں کو منتقل ہوچکی ہے خدارا ہوش کے ناخن لیں اور لوگوں کو دیوار سے مت لگائیں۔

عمر ایوب خان نے کہا کہ وزیر داخلہ کے پاس ان حالات سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں، حکومت بجلی کے بلوں میں اضافہ کرے گی، کپیسٹی پیمنٹس کی ذمہ دار مسلم لیگ ن ہے، آپ کو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کی رائے تسلیم کرنا ہوگی۔

گزشتہ 15 سال میں ٹیکس نیٹ اور وصولی کو بڑھایا نہیں گیا، مشیر وزیراعلیٰ کے پی مزمل اسلم

ورکشاپ سے خطاب میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر مزمل اسلم نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ساتواں این ایف سی ایوارڈ چل رہا ہے جس کا اطلاق 2010ء میں کیا گیا، اس وقت دسویں این ایف سی ایوارڈ کا اطلاق ہونا چاہیے تھا، جب 2009ء میں این ایف سی طے ہوا ٹیکس وصولی جی ڈی پی کے 9.

2 فیصد برابر تھی، آج 15 سال بعد ٹیکس وصولی جی ڈی پی کے 9.5 فیصد کے برابر ہے۔

مزمل اسلم نے کہا کہ گزشتہ 15 سال میں ٹیکس نیٹ اور وصولی کو بڑھایا نہیں گیا، نان ٹیکس ریونیو 2009ء میں جی ڈی پی کا 4.9 فیصد تھا جو کم ہو کر 2025ء میں 3 فیصد پر آ گیا، مالی خسارہ 2009ء میں جی ڈی پی کے 5.2 فیصد کے برابر تھا جو بڑھ کر 2025ء میں 7.7 فیصد ہوگیا، دفاعی امور کا 2009ء میں جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کے برابر حصہ تھا جو کم ہو کر 2025ء میں 1.8 فیصد رہ گیا۔

مزمل اسلم نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کا 2009ء میں جی ڈی پی کے 3.5 فیصد حصہ تھا جو کم ہو کر 2025ء میں 2 فیصد رہ گیا، گزشتہ 15 سال میں قومی مالیاتی ایوارڈ میں تبدیلی نہیں کی گئی، اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب قومی مالیاتی ایوارڈ میں تبدیلی کی ضرورت ہے،

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: 2009ء میں جی ڈی پی جی ڈی پی کے نے کہا کہ تھا جو

پڑھیں:

ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان

اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔

یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔

وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔

ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔

عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔

آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔

صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔

نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔

صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔

صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • نیپرا نے جو ریٹ کے الیکٹرک کیلئے منظور کیا ہے، وہ جائز نہیں، وفاقی وزیر اویس لغاری کا اعتراف
  • ادارے سرحدوں کی حفاظت کریں ، صوبے میں کسی آپریشن کی اجازت نہیں دینگے،گنڈا پور
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • ٹیکس نظام کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • نہ کہیں جہاں میں اماں ملی !
  • مولانا فضل الرحمان سے گرینڈ قبائلی جرگہ وفد کی ملاقات، فاٹا کی صورتحال سے آگاہ کیا
  • برطانیہ نے نئے ایٹمی پلانٹ کی منظوری دے دی
  • موقع نہیں ملے گا تو کھلاڑی صلاحیت کیسے منوائے گا، علی امین گنڈاپور
  • ماہانہ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے بُری خبر آگئی
  • سیکرٹری پاور ڈویژن کی بجلی کے پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری ختم کرنے کی خبروں کی تصدیق