دنیا بھر میں سزائے موت میں اضافہ پر انسانی حقوق کمشنر کو تشویش
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے دنیا بھر میں سزائے موت کے واقعات میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سزا انسانی وقار اور زندگی کے حق سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ان کا کہنا ہے، اگرچہ بہت سے ممالک یہ استدلال کرتے ہیں کہ مجرموں کو موت کی سزا دینا ان کی قومی خودمختاری کا معاملہ ہے تاہم، 21ویں صدی میں اس سزا کی کوئی گنجائش نہیں۔
Tweet URLہائی کمشنر نے یہ بات اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کہی جہاں آج سزائے موت کے تناظر میں انسانی حقوق کو فروغ دینے میں عدالتوں کے کردار پر گفت و شنید ہوئی۔
(جاری ہے)
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران سزائے موت دیے جانے کے واقعات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ایران، سعودی عرب، صومالیہ اور امریکہ میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ رہی۔سزائے موت کے بڑھتے واقعاتاقوام متحدہ کی جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق 2023 میں 16 ممالک نے 1,153 افراد کو سزائے موت دی۔
یہ تعداد 2022 کے مقابلے میں 31 فیصد زیادہ تھی۔اس سے قبل 2021 اور 2022 کے درمیان سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں 53 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم، اس میں چین کے اعدادوشمار شامل نہیں ہیں جہاں سزائے موت سے متعلق جاری کردہ معلومات اور اعدادوشمار میں شفافیت کا فقدان ہے۔
انہوں نے چین کے حکام پر زور دیا کہ وہ مجرموں کو سزائے موت دیے جانے کی پالیسی میں تبدیلی لائیں اور بہت سے دیگر ممالک کی طرح اپنے ہاں اس سزا کے خاتمے کی جانب پیش رفت کریں۔
جنوبی دنیا میں مثبت پیش رفتانسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت منشیات کی سمگلنگ اور خریدوفروخت کا شمار ایسے سنگین جرائم میں نہیں ہوتا کہ جن کے ارتکاب پر سزائے موت دی جائے۔ تاہم 2023 میں 40 فیصد لوگوں کو ایسے ہی جرائم پر سزائے موت دی گئی جو 2016 کے بعد سب سے بڑی تعداد تھی۔
ہائی کمشنر نے بتایا کہ گزشتہ دو سال کے دوران منشیات سے متعلق جرائم پر سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایسے تقریباً تمام واقعات اسلامی جمہوریہ ایران میں ہوئے۔
اگرچہ دنیا بھر میں سزائے موت کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ سزا ترک کرنے والے ممالک کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جبکہ ایسے بیشتر ممالک جنوبی دنیا کا حصہ ہیں۔ اس وقت 113 ممالک نے یہ سزا مکمل طور پر ختم کر دی ہے جن میں زمبابوے بھی شامل ہے جہاں صدر ایمرسن منگاگوا نے گزشتہ سال کے آخر میں اس حوالے سے ایک قانون کی منظوری دی تھی۔
افریقہ کے 26 دیگر ممالک نے بھی اپنے ہاں موت کی سزا کو ختم کر دیا ہے۔عدالتی اصلاحات کی ضرورتوولکر ترک نے کہا کہ اس سزا کو ختم کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات لانا ہوں گی۔ اس کے ساتھ، سزائے موت کو کم شدت کی سزاؤں سے تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔ ملاوی اور ملائشیا نے ایسی اصلاحات پر کامیابی سے عملدرآمد کیا ہے جہاں اب سزائے موت پانے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔
انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ منصفانہ قانونی کارروائی یقینی بنانے اور ملزموں کو ناجائز سزاؤں سے بچانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ انہیں سزائے موت کے مکمل خاتمے اور اس پر عملدرآمد روکنے کے لیے کام کرنا ہو گا اور یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے علاوہ کسی کو موت کی سزا نہ دی جائے۔
زمبابوے کی مثالزمبابوے کی اٹارنی جنرل ورجینیا مابیزا نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ملک میں 2005 کے بعد کسی کو موت کی سزا نہیں دی گئی اور بہت سے معمولی جرائم پر دی جانے والی انتہائی درجے کی سزاؤں کو کم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے پالیسی سے متعلق فیصلوں اور سزائے موت کے خلاف عدالتی اصلاحات کو اس کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ملکی سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سزائے موت کسی فرد کے انسانی حق کی پامالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں سنگین جرائم پر موت کی سزا کو عمر قید کی سزا میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں سزائے موت سزائے موت دی سزائے موت کے موت کی سزا اضافہ ہوا انہوں نے
پڑھیں:
پی اے سی ذیلی کمیٹی کا ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات پر اظہارِ تشویش، 4 ہفتوں میں رپورٹ طلب
فائل فوٹوپبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کے کنوینر شاہدہ اختر علی کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے متعلق سال 11-2010 اور 14-2013 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
ایف بی آر کی جانب سے درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کی خلاف ورزی کا آڈٹ کیا گیا، استعمال شدہ اور سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی غیر قانونی کلیئرنس کا انکشاف ہوا۔
رپورٹ کے مطابق درآمدی پالیسی آرڈر 2009 کے تحت استعمال شدہ آٹو پارٹس کی درآمد پر پابندی تھی، اسلام آباد اور ملتان کسٹمز نے سیکنڈ ہینڈ آٹو پارٹس کی کلیئرنس ریڈمپشن فائن کے ذریعے کی۔
آڈٹ حکام نے بریفنگ میں بتایا کہ آٹوپارٹس کی یہ کلیئرنس درآمدی پالیسی کی خلاف ورزی تھی، ڈی اے سی نے وزارتِ تجارت سے وضاحت طلب کرنے کی ہدایت دی، وزارتِ تجارت کی پالیسی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بلال احمد خان نے سوال کیا کہ کیا آڈٹ نے اس حوالے سے وزارت قانون کو یہ وضاحت لکھی تھی؟
آڈٹ حکام نے بریفنگ میں کہا کہ آڈٹ کا کام وضاحت دینا نہیں چیزوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے، ہماری نظر میں دونوں آٹوپارٹس کی کلیئرنس میں تضاد ہے۔
کنوینر کمیٹی شاہدہ اختر نے کہا کہ آڈٹ میں ایف بی آر کا ہر دوسرا کیس کورٹ کیس ہے، ایف بی آر کے جتنے بھی آڈٹ پیراز ہیں سارے کورٹ کیسز ہیں، عدالت میں زیر التوا معاملات ہم سیٹل نہیں کرسکتے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ذیلی کمیٹی میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی( آئی ٹی) سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے کہا کہ وکیلوں کی فیس اب بڑھ گئی ہے، ہم نے ایک ایک وکیل کو 30-30 لاکھ تک بھی دیا ہے۔
کنوینر کمیٹی نے کہا کہ ریفارمز کی طرف جانا چاہیے، زیادہ تر آڈٹ پیراز آپ لوگوں کے ہیں، ایف بی آر میں ریفارمز کی کوشش جاری رکھیں۔
پرال میں غیر مجاز پی سی ٹی ہیڈنگز اور کسٹم ڈیوٹی ریٹس شامل کرنے سے 2 کروڑ 3 لاکھ روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا۔
آڈٹ حکام کے مطابق 2006 کے پاک چین معاہدے کے تحت 5،909 چینی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی، ایم سی سی اسلام آباد نے درآمدی سامان کو غلط پی سی ٹی ہیڈنگز میں درج کیا، کسٹم اور پرال حکام نے غلط اندراج پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
آڈٹ حکام نے کہا کہ کم کسٹم ڈیوٹی ریٹس کے اطلاق سے قومی خزانے کو 2 کروڑ 13 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، کسٹم حکام اور پرال حکام دونوں غلط اندراج کے ذمہ دار ہیں۔
ممبر پی اے سی بلال احمد نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پرال میں غلط اندراج کیا جائے، اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے لوگ بھی ملے ہوئے تھے۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ پرال سے آدھے لوگوں کو فارغ کردیا گیا، اس کو مکمل ری ویمپ کیا جارہا ہے، پرال کا الگ سے بورڈ بنایا اور اس کو مکمل ایک آزاد باڈی بنا رہے ہیں، پرال کو ایف بی آر کے اثر سے بھی نکال رہے ہیں۔
ممبر ایف بی آر سید شکیل نے کہا کہ پرال میں جن لوگوں کی غفلت پائی گئی وہ گرفتار بھی ہوئے ہیں، یہ رقم تو بہت چھوٹی ہے لیکن غلطی بہت بڑی ہے، چین کے ساتھ 17 ارب کی تجارت ہوتی ہے، اس بڑے حجم کو بھی دیکھا جائے۔
پی اے سی ذیلی کمیٹی نے ایف بی آر سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ مانگ لی۔