Express News:
2025-06-09@21:10:29 GMT

اعمال رمضان المبارک

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

قرآن مجید کی زبان میں روزے کا مقصد خاص تقوی کا حصول ہے۔ تقوی ضبط نفس سے عبارت ہے، پیٹ اور نفسانی خواہشات گناہ کے سب سے بڑے دروازے ہیں، ہر گناہ کا سلسلۂ نسب انہی دو محرکات سے ملتا ہے۔

چوری اور ڈکیتی، قتل و غارت گری، دوسروں کے مال پر ناجائز قبضہ، دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا، رزق میں حرام و حلال کی تمیز نہ کرنا، ان سارے گناہوں کا سرچشمہ پیٹ کے سوا اور کیا ہے؟ زنا، بد نگاہی اور بد کاری کی تمام صورتیں اور ان کے لیے قتل و خون ریزی اور آبرو ریزی ان تمام گناہوں اور فتنوں کی اساس نفسانی خواہشات ہی تو ہیں! روزے کا بنیادی مقصد اور حکمت ان دو چیزوں کا کنٹرول اور توازن میں لانا ہے، کیوں کہ جو بندہ مسلسل ایک ماہ اپنے آپ کو اس طرح نفس کے دام ہم رنگ سے بچانے میں کام یاب رہے گا اور وقتاً فوقتاً روزں کی صورت میں اﷲ سے محبت کے عہد کی تجدید کرتا رہے گا یقیناً اس میں اپنے آپ پر کنٹرول اور ضبط کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ اپنے آپ کو ہمیشہ گناہوں سے بچا سکے گا، اسی کا نام تقوی ہے۔

تاہم اس کیفیت کے حصول کے روزے کے تمام آداب اور شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ روزہ صرف صبح تا شام بھوکے پیاسے کا نام ہرگز نہیں ان کے پیچھے تو معاشرے کی تہذیب نفس بہت بڑا فلسفہ ہے۔ روزہ تو گناہوں سے بچنے کا نام ہے اس مقصد سے عاری بھوک و پیاس کی تو باری تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کاموں کو نہ چھوڑے تو اﷲ تعالیٰ کو اس بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے ساتھ گناہوں سے بھی اجتناب برتے۔ اب اگر کوئی شخص روزہ تو رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اﷲ تعالیٰ کو اس روزے کی کوئی پروا نہیں، یعنی درحقیقت اس کو اجر و ثواب نہیں ملے گا کیوں کہ اجر و ثواب تو روزے پر ہے نہ کہ بھوکے پیاسے رہنے پر اور یہ گناہ والے اعمال کے ہوتے ہوئے جب روزہ مقصد سے خالی ہوا تو ظاہر ہے کہ روزہ باقی ہی نہیں رہا، صرف یہ شخص بھوکا و پیاسا رہا جس کی باری تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں۔ لہذا اس اہم نکتہ سمجھنے کے بعد سب پہلے تو اس بات کا پختہ عزم کیجیے کہ رمضان میں پاکیزہ اور محتاط زندگی گزاریں گے۔

آنکھوں کا غلط استعمال نہ ہونے پائے، کانوں سے گناہ والی باتوں کو نہ سنے ، بے کار کاموں اور لایعنی کاموں میں مشغول نہ ہو۔ اسی طرح کسی کو دل میں کینہ، حسد اور غصہ رکھنا یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ کینہ رکھنا یہ اتنی بڑی بدبختی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا شخص شب قدر کی تجلیات مغفرت اور قبولیت دعا سے محروم رہے گا۔ لہذا رمضان کے برکات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ پر ایک نظر ڈالو کہ اور دیکھو کہ کسی کے ساتھ کینہ اور غصہ تو نہیں ہے۔ کسی کی حق تلفی تو نہیں ہوئی ہے، کسی کو ہماری ذات سے تکلیف تو نہیں پہنچی ہے۔

اﷲ پاک اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کی مخلوق ہم سے راضی نہیں ہوجاتی۔ لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کریں کیوں کہ ان سے عبادت کا نُور جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح رمضان میں کثرت سے نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تراویح کی نماز، تہجد، اشراق اور اوابین کا خاص طور پر اہتمام ہو۔ تلاوت کلام پاک کی کثرت سے تلاوت ہو کیوں کہ روزہ اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تلاوت سے ہم بہت سارے فوائد سمیٹ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح درود شریف کی بھی کثرت رکھیے۔ دفتر میں کام کرتے ہو تو اس بات کا خاص اہتمام ہو کہ تمہارے ہاتھ، زبان اور قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکو۔ آنکھیں گناہوں کی پہلی سیڑھی ہیں ان پر خاص خیال رکھیں۔

ہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بدنگاہی اور آنکھوں کی گناہ صرف کسی پر بُری نظر ڈالنا نہیں ہے بل کہ کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، حسد کی نظر سے دیکھنا بھی بدنگاہی ہے۔ روزہ داروں کے بارے میں مشہور ہے کہ بات بات پر غصہ آتا ہے یہ بات اچھی نہیں۔ روزہ تو بندگی اور شائستگی پیدا کرتا ہے۔ عاجزی پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ روزے کا بہانہ بنا کر ہر بات پر لڑائی کرنا اس کا کیا مقصد ؟

ایک افسوس ناک اور خطرناک رجحان بالخصوص نوجوانوں میں ابھرتا ہوا دیکھنے میں آرہا ہے کہ رمضان میں سارا دن نیند میں گزار کر ساری رات جاگتا ہے، بازاروں میں وہی رونق اور چلت پھرت۔ رات کو رمضان بھول جاتے ہیں اور سرے سے رمضان کے اثرات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے۔ رمضان کی راتیں عبادتوں میں گزارنے سے دن میں بھی سچائی اور دیانت سے کام کی عادت ہوجاتی ہے۔

لہذا اس بات کا خاص کر اہتمام لازم ہے کہ جس طرح دن میں رمضان نظر آرہا ہے تو سارے دن کی کمائی رات میں ضایع نہ ہونے دیں ۔ باجماعت نماز کا اہتمام خود پر لازم کرلیں۔ رمضان کا مہینہ خیر اور ایک دوسرے کو نفع رسانی کا مہینہ ہے۔ لہذا اس ماہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ خیر ہی پہنچائے۔ ضروری ہے کہ رمضان ہمارے زندگی اور اعمال میں نمایاں تبدیلی لاسکے، اس کی برکات اور ثمرات ہم مستفید ہوسکیں یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم رمضان کی قدر کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ضروری ہے اپنے ا پ کیوں کہ

پڑھیں:

نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے

قومی ٹیم کے نوجوان اوپنر صائم ایوب بھی اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر بول اُٹھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے یوٹیوب پر جاری کردہ خصوصی عید شو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جارح مزاج اوپنر صائم ایوب نے ہوسٹ محمد حارث کے ساتھ مزاحیہ واقعہ شیئر کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ 

بائیں ہاتھ کے بلےباز بتایا کہ انجری کے بعد قومی ٹیم اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں واپسی ہوئی تو فارم میں نہیں تھا، ایسے میں ایک میسج آیا، اس پیغام میں لکھا تھا کہ نو لُک شاٹ کی طرح کہیں نہ نظر آنے والا کھانا بھی کھارہے ہیں کیونکہ اب چھکے نہیں لگ رہے؟۔

مزید پڑھیں: وسیم اکرم کا مجسمہ دیکھ کر میمز کا طوفان اُمڈ آیا

صائم ایوب نے کہا کہ مجھے اس میسج پر غصہ نہیں آیا بلکہ خوب ہنسی آئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ ہمیں محبت اور سپورٹ کرتے ہیں، انہیں فکر ہوتی ہے اور بات کرتے ہیں، اس لیے ایسی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُسے مثبت انداز میں لیتا ہوں۔ 

مزید پڑھیں: بابر، رضوان، شاہین کا مستقبل کیا؟ سابق کرکٹر نے بتادیا

جارح مزاج اوپنر نے کہا کہ میں نے اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید کو کبھی منفی انداز میں نہیں لیا، یہ لوگوں کے پیار دکھانے کا طریقہ ہے اور یہی اسٹورک میری انٹرنیشنل کرکٹ میں پہنچان کا سبب بھی بنا ہے۔
 

 

متعلقہ مضامین

  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • فیصل آباد سے گرفتار بھارتی ایجنسی ’را‘ کے 3 ایجنٹس کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • قیدیوں کیلئے خوشخبری، پنجاب بھر میں 90 روزہ سزا معافی کا اعلان
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟