لبلبے کے کینسر کا علاج شاید بہتر طور پر ممکن ہو
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) لبلبے کے کینسر پر کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے پانچ سال بعد اس میں مبتلا ہر دس افراد میں سے صرف ایک زندہ رہ پاتا ہے۔ سرطان کی اس قسم کے حوالے سے مزید بتایا جاتا ہے کہ اس کے کامیاب علاج میں ایک بڑی رکاوٹ ٹیومر کی جلدی شناخت نہ ہونا ہے۔ ساتھ ہی ٹیومر کو جسم سے ہٹانے کے طریقہ کار کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔
تاہم اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے کچھ پیش رفت کی ہے، جس سے دنیا بھر میں اس مرض کا شکار تقریباﹰ پانچ لاکھ افراد میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔
سِسٹ کے حوالے سے تحقیقلبلبے کے کینسر کے علاج میں اس کی جلد تشخیص کافی اہمیت کی حامل ہے اور اس حوالے سے تحقیق بھی ہو رہی ہے۔
(جاری ہے)
ایسی ہی ایک کوشش آئرلینڈ کے ٹرنٹی کالج ڈبلن سے وابستہ آنکالوجسٹ اسٹیفن مائر اور ان کی ٹیم نے کی ہے۔
اس ٹیم کا ایک مطالعہ سائنٹیفک رپورٹس نامی ایک جریدے میں شائع ہوا، جس میں لبلبے کے کینسر کے ڈیٹا سیٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے کی بنیاد پر 10 قسم کے پروٹین اور مائیکر آر این اے بائیو مارکرز کی شناخت کی گئی ہے۔
بائیو مارکر انسانی جسم میں موجود وہ مٹیریل ہوتا ہے، جس سے امراض کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ ماہر اور ان کی ٹیم کی جانب سے اس کی دس اقسام کی شناخت کے بعد یہ معلوم کرنا ممکن ہو سکے گا کہ لبلبے کی کوئی سِسٹ سرطان کے خطرے کی علامت ہے یا نہیں۔
جُوں سے جلد، جگر اور لبلبے کے کینسر کا علاج ممکن
’ابتدائی مراحل میں تشخیص کا ٹیسٹ‘اسی طرح امریکہ کی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ایسا ٹیسٹ تیار کیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے لبلبے کے سرطان کی تشخیص مرض کے ابتدائی مراحل میں ممکن ہو گی۔ اس ٹیم کے مطابق اگر اس ٹیسٹ کو پہلے سے موجود ٹیسٹوں کے ساتھ کیا جائے، تو نتائج کی درستگی کی شرح 85 فیصد ہو گی۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف جیرڈ فشر کا کہنا ہے کہ لبلبے کے کینسر کی ابتدائی علامات کی شناخت ''موت اور زندگی کے درمیان کا فرق‘‘ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے شکار افراد کی زندگی بچانے کے لیے کافی موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہتر تشخیص لبلبے کے کینسر کے علاج کا بس ایک پہلو ہے۔ بقول ان کے، ''ہمیں بہتر امیجنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کی ٹیومر کہاں موجود ہے۔
اور اس کے بہتر علاج کی بھی ضرورت ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہو تو نامکمل علاج کی صورت میں لبلبے کے ٹیومر کا پہلے سے بھی بدتر ہونے کا خدشہ ہو گا۔
علاج کے حوالے سے پیش رفتہائیڈل برگ کے جرمن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک ٹیم حالیہ دنوں میں تحقیق کے دوران اس نتیجے پر پہنچی کہ لبلبے کے ٹیومر پاس موجود نرو سیلز میں داخل ہو کر ان میں تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے ٹیومر کے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔
محققین کی یہ ٹیم چوہوں میں سرجری یا مخصوص ادویات کے ذریعے ان سیلز میں متاثرہ نیورونز کا لنک کاٹ کر انہیں علحیدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کے لیے ایسا علاج ممکن ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
(میتھیو وارڈ) م ا/ ر ب
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لبلبے کے کینسر حوالے سے کا کہنا ممکن ہو
پڑھیں:
ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-8
حیدر آباد(اسٹاف رپورٹر) ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، سرکاری ونجی اسپتال بھر گئے ،مریضوں کو داخل کرنے کی جگہ ختم ہوگئی ، انتظامیہ اعداد وشمار بتانے اور عوام کی رہنمائی کرنے میں مکمل طور پر ناکام ،پچاس فیصد سے زائد لوگ گھروں پر علاج کرانا پر مجبور ہیں پکا قلعہ گلی نمبر 4 کی رہائشی فرسٹ ایئر کی طلبا ہانیہ بنت شاہد رضوی ڈینگی کے سبب انتقال کرگئی اب تک ڈینگی سے ہلاک ہونے والوں کی غیر سرکاری طور پر تعداد دودرجن تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہزاروں افراد نجی کلنیکوں، اسپتالوں اور سرکاری اسپتالوں کا رخ کررہے ہیں بیشتر کو مرض سے متعلق ٹھیک طرح سے آگاہی نہیں دی جارہی ہے جس کے باعث کیسز خراب ہورہے ہیں مریضوں کی نصف تعداد گھروں پر جوسسز اور دیسی طریقے سے علاج کررہی ہے جبکہ محکمہ صحت کی کارکردگی بلکل ناقص ہے نہ تو ڈینگی سے روک تھام کے لئے اب تک کوئی اقدام کئے گئے ہیں نہ ہی عوام کی رہنمائی کی ہے جس کے باعث مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے ۔