UrduPoint:
2025-09-18@20:43:55 GMT

لبلبے کے کینسر کا علاج شاید بہتر طور پر ممکن ہو

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

لبلبے کے کینسر کا علاج شاید بہتر طور پر ممکن ہو

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) لبلبے کے کینسر پر کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے پانچ سال بعد اس میں مبتلا ہر دس افراد میں سے صرف ایک زندہ رہ پاتا ہے۔ سرطان کی اس قسم کے حوالے سے مزید بتایا جاتا ہے کہ اس کے کامیاب علاج میں ایک بڑی رکاوٹ ٹیومر کی جلدی شناخت نہ ہونا ہے۔ ساتھ ہی ٹیومر کو جسم سے ہٹانے کے طریقہ کار کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔

تاہم اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے کچھ پیش رفت کی ہے، جس سے دنیا بھر میں اس مرض کا شکار تقریباﹰ پانچ لاکھ افراد میں کچھ امید پیدا ہوئی ہے۔

سِسٹ کے حوالے سے تحقیق

لبلبے کے کینسر کے علاج میں اس کی جلد تشخیص کافی اہمیت کی حامل ہے اور اس حوالے سے تحقیق بھی ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

ایسی ہی ایک کوشش آئرلینڈ کے ٹرنٹی کالج ڈبلن سے وابستہ آنکالوجسٹ اسٹیفن مائر اور ان کی ٹیم نے کی ہے۔

اس ٹیم کا ایک مطالعہ سائنٹیفک رپورٹس نامی ایک جریدے میں شائع ہوا، جس میں لبلبے کے کینسر کے ڈیٹا سیٹس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے کی بنیاد پر 10 قسم کے پروٹین اور مائیکر آر این اے بائیو مارکرز کی شناخت کی گئی ہے۔

بائیو مارکر انسانی جسم میں موجود وہ مٹیریل ہوتا ہے، جس سے امراض کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ ماہر اور ان کی ٹیم کی جانب سے اس کی دس اقسام کی شناخت کے بعد یہ معلوم کرنا ممکن ہو سکے گا کہ لبلبے کی کوئی سِسٹ سرطان کے خطرے کی علامت ہے یا نہیں۔

جُوں سے جلد، جگر اور لبلبے کے کینسر کا علاج ممکن

’ابتدائی مراحل میں تشخیص کا ٹیسٹ‘

اسی طرح امریکہ کی اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے ایسا ٹیسٹ تیار کیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے لبلبے کے سرطان کی تشخیص مرض کے ابتدائی مراحل میں ممکن ہو گی۔ اس ٹیم کے مطابق اگر اس ٹیسٹ کو پہلے سے موجود ٹیسٹوں کے ساتھ کیا جائے، تو نتائج کی درستگی کی شرح 85 فیصد ہو گی۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف جیرڈ فشر کا کہنا ہے کہ لبلبے کے کینسر کی ابتدائی علامات کی شناخت ''موت اور زندگی کے درمیان کا فرق‘‘ ہو سکتی ہے، یعنی اس کے شکار افراد کی زندگی بچانے کے لیے کافی موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہتر تشخیص لبلبے کے کینسر کے علاج کا بس ایک پہلو ہے۔ بقول ان کے، ''ہمیں بہتر امیجنگ کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کی ٹیومر کہاں موجود ہے۔

اور اس کے بہتر علاج کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہو تو نامکمل علاج کی صورت میں لبلبے کے ٹیومر کا پہلے سے بھی بدتر ہونے کا خدشہ ہو گا۔

علاج کے حوالے سے پیش رفت

ہائیڈل برگ کے جرمن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک ٹیم حالیہ دنوں میں تحقیق کے دوران اس نتیجے پر پہنچی کہ لبلبے کے ٹیومر پاس موجود نرو سیلز میں داخل ہو کر ان میں تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں، جس سے ٹیومر کے بڑھنے کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔

محققین کی یہ ٹیم چوہوں میں سرجری یا مخصوص ادویات کے ذریعے ان سیلز میں متاثرہ نیورونز کا لنک کاٹ کر انہیں علحیدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کے لیے ایسا علاج ممکن ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

(میتھیو وارڈ) م ا/ ر ب

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لبلبے کے کینسر حوالے سے کا کہنا ممکن ہو

پڑھیں:

پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے

قیام پاکستان کے 4 سال بعد 1951 میں سعودی عرب پاکستان نے دوستی کا معاہدہ کیا۔ 1960 میں پاکستان میں سعودی سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ملٹری ٹریننگ پروگرام شروع ہوا۔ 1980 سے دفاعی معاہدوں کی بنیاد وسیع ہونی شروع ہوئی۔ پاکستانی دستوں کی سعودی عرب میں تعیناتی شروع ہوئی۔ 1988 میں پاکستان نے سعودی عرب کو چین سے بلاسٹک میزائل حاصل کرنے میں مدد کی۔

بلاسکٹ میزائل کے حصول کی کہانی بہت فلمی لگتی ہے۔ اس دوران ایک سفارتی بحران بھی پیدا ہوا جب امریکی سفیر کو سعودی عرب سے نکالا گیا۔ اسرائیلیوں کی کانپیں ٹانگتی رہیں جو امریکیوں کو پکڑ کر سیدھی کرنی پڑی تھیں۔ اس بحران کا دونوں ملکوں نے ڈٹ کر سامنا کیا۔ یہ کہانی کبھی پڑھیں تو جانیں گے کہ سعودی-پاکستان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور یہ اتنے گہرے کیوں ہیں۔

ان میزائلوں کی سعودی عرب نے پہلی بار 2014 میں اپنے قومی دن کے موقع پر نمائش کی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس تقریب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی تھے۔ یہی جنرل راحیل شریف اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کو اب ہیڈ کررہے ہیں اور سعودیہ میں ہی مقیم ہیں۔

پاک سعودی تعلقات صرف دفاعی شعبے اور اسٹریٹجک معاہدوں تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان کو ادھار تیل کی ضرورت ہو، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہوں، زلزلہ سیلاب ہو تو سعودی ایئربرج قائم کردیتے ہیں۔ سعودی عرب میں 22 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ پاکستانی سعودی عرب کی تعمیر میں کئی دہائیوں سے حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کو آنے والی ترسیلات ذر میں سعودی عرب پہلے نمبروں پر ہے۔

حالیہ پاک-سعودی دفاعی معاہدے سے پہلے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے وژن 2030 کو جاننا ضروری ہے۔ وژن 2030 سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا مرکز بنائے رکھنے، عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بننے اور 3 براعظموں کو جوڑنے والے تجارتی حب بننے سے متعلق ہے۔ دفاعی شعبے میں اس وژن کے اہداف بہت اہم ہیں۔

سعودی عرب زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والے ملکوں میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ 2023 میں سعودی دفاعی بجٹ 75 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا۔ 2030 تک دفاعی اخراجات کا 50 فیصد مقامی دفاعی صنعت سے ہی حاصل کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔

جنرل اتھارٹی فار ملٹری انڈسٹری بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرے گی۔ دفاعی شعبے کی سپلائی چین کا 74 فیصد انحصار مقامی انڈسٹری پر شفٹ کرے گی۔ ڈرون، سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت پر مبنی دفاعی نظام ترتیب دیے جائیں گے۔

اب تک دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدوں میں پاکستان حرمین کے دفاع اور سعودی سیکیورٹی کے لیے دستے فراہم کرنے کا پابند تھا۔ اب نئے معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس ایک جملے نے شریکوں کو اگ لگا دی ہے اور ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔

انڈیا کا ابتدائی بیان محتاط انداز کا ہے کہ ہم معاہدے کی مانیٹرنگ اور تجزیہ کر رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لیں گے اور معاہدے کے علاقائی استحکام پر اثرات کو دیکھیں گے اور اپنے نیشنل انٹرسٹ میں تحفظ کریں گے۔ اس کا جواب جنوبی ایشیا کے امریکی ماہر مائیکل کگلمین کی ٹویٹ سے کچھ یوں آیا کہ اس معاہدے کا کوئی اثر پاک-بھارت تناؤ پر تو پڑتا دکھائی نہیں دیتا البتہ چین، ترکی اور سعودی عرب اب واضح طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ بس اب تیرا کیا بنے گا کالیا ہی لکھنے کی کسر تھی۔

اسرائیلی سائٹ یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ بتاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کس طرح نئے اتحاد بنانے کا سوچ رہا ہے۔ اس معاہدے نے اسرائیل کے لیے صورتحال بہت پیچیدہ کردی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے آنسو ابراہام اکارڈ کے مستقبل کا سوچ کر بہہ رہے ہیں۔ اس سائٹ کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ تو امریکا نے کرایا تھا۔ اب مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا نیا پلیئر یعنی پاکستان داخل ہوگیا ہے جو اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔

پاکستان کی ایک سیکیورٹی ڈاکٹرائین بھی ہے۔ آپ کا دھیان اس سے کسی سوہنی مٹیار کی طرف جارہا ہوگا تو بنتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق فارن ریزرو، انرجی، واٹر اور فوڈ سیکیورٹی سب اس ڈاکٹرائن کا حصہ ہیں۔ اب دوبارہ سعودی ویژن 2030 دیکھیں کہ وہ کس قسم کی دفاعی خود کفالت کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری ڈاکٹرائن اور ان کا خودکفالت پروگرام مل کر کس قسم کے چن چڑھا سکتے ہیں۔ ویسے ہی چن جن پر پھر شاعروں نے چن میرے مکھنا قسم کے گیت لکھے ہیں۔

عرض یہ ہے کہ اس معاہدے کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جو نیو نارمل سامنے آئے گا وہ یہ ہوگا کہ اب حملے اور جنگ وغیرہ کا کسی کو خواب اور خیال گھٹ ہی آئیں گے۔ اس لیے لڑائی کی باتیں سوچیں اور کام پر توجہ دیں کہ ابھرنے والے نئے امکانات اور معاشی سرگرمیوں میں اپنے لیے گوڈ فٹ قسم کے آپشن تلاش کریں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • بخار کی دوا سے متعلق تحقیق میں اہم انکشاف
  • پاکستان کے پہلے کوبلیشن سینٹر کا افتتاح، کینسر کے مریض کا 100فیصد علاج مفت ہوگا، مریم نواز
  • کینسر کے مریضوں کا جلد اور مفت علاج میرا عزم ہے، مریم نواز شریف
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے
  • کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
  • پنجاب: کینسر کے علاج کی نئی تاریخ، پاکستان کے پہلے کو ابلیشن سینٹر کا افتتاح
  • لاہور میں پہلا کوآبلیشن سینٹر قائم، کینسر کے مریضوں کا کامیاب آپریشن
  • پاکستان کا پہلا اور جدید “کوآبلیشن“ کینسر ٹریٹمنٹ کا آغاز کردیا گیا
  • پاکستان کا پہلا اور جدید “کوآبلیشن“ کینسر ٹریٹمنٹ کا آغاز کردیا گیا
  •  چین کی نئی ایجاد بون گلوسے 3 منٹ میں فریکچر کا علاج ممکن