یورپ مضبوط قیادت اور استحکام کے لیے فریڈرش میرس کی طرف دیکھ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 مارچ 2025ء) گزشتہ اتوار کو جرمنی کے وفاقی انتخابات میں قدامت پسندوں کے اتحاد کرسچن ڈیموکریٹک الائنس (CDU-CSU) کے رہنما فریڈرش میرس کے اگلے جرمن چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔ 69 سالہ میرس طویل عرصے سے جرمنی کے دائیں بازو کے قدامت پسند بلاک کی ایک بااثر آواز رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی وزیر کے طور پر کام نہیں کیا۔
اب وہ برلن میں وفاقی جرمن چانسلر کی حیثیت سے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے جا رہے ہیں۔ میرس کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ یہ وقت بحر اوقیانوس کے اطراف تعلقات میں ایک عہد کی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ کیا میرس یورپ اور امریکہ کے بیچ اس بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے کے توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟امریکہ یورپ میں عسکری موجودگی میں تبدیلی پر نیٹو اتحادیوں سے بات چیت کرے، جرمن صدر
اتوار 23 فروری کو میرس کے سیاسی اتحاد CDU/CSU نے تقریباً 29 فیصد ووٹ حاصل کر لیے اور ان کے جرمنی کے اگلے چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
(جاری ہے)
انہوں نے اپنے اولین بیانات میں کہا، ''میرے لیے مطلق ترجیح یہ ہوگی کہ یورپ کو جلد از جلد مضبوط بنایا جائے تاکہ رفتہ رفتہ ہم واقعی امریکہ سے آزادی حاصل کر سکیں۔‘‘ڈونلڈ ٹرمپ کی یورپ کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے کی کوشش
حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی یا یورپی نمائندوں کے بغیر ہی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تو یورپی نقطہ نظر سے ٹرمپ کا یہ اقدام یورپ کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے کے مترادف تھا۔
مبصرین کی رائے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ماتحت وائٹ ہاؤس سے اب یورپ کو ایسی کوئی امید باقی نہیں رہی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے امریکہ پر انحصار کر سکتا ہے۔
یوکرین جنگ اور ٹرمپ کی قیادت: امن کی نئی راہیں؟
میرس خاص طور سے امریکی صدر ٹرمپ کے پورپ کی طرف رویے کے بارے میں واضح موقف رکھتے ہیں۔ جرمن الیکشن میں پولنگ سے ایک دن قبل انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کو بیان دیتے ہو کہا تھا،''اس امکان کے لیے تیاری کرنا ضروری ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کے باہمی دفاعی عزم کو غیر مشروط طور پر برقرار نہیں رکھیں گے۔
‘‘جرمنی کے باہر سے صورتحال کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟
فریڈرش میرس کی الیکشن میں کامیابی پر یورپ کے دیگر ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے مبارکباد کے ساتھ ساتھ فوری مطالبات اورتوقعات کے اظہار کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ نیٹو کے سکریٹری جنرل مارک روٹے نے گزشتہ اتوار کو الیکشن کے روز شام کو دیر سے ایکس پر فریڈرش میرس کے نام ایک پیغام میں لکھا، ''اپنی مشترکہ سلامتی کے لیے اس کٹھن وقت میں ہم آپ کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔
یورپ کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ضروری ہے اور اس کے لیے آپ کی قیادت کلیدی ہوگی۔‘‘برسلز میں پیر کے روز وزرائے خارجہ کے کے ایک اجلاس میں یورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار کایا کالاس نے جرمن الیکشن کے وقت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ''جرمن عوام نے اپنا انتخاب کر لیا ہے اور اب انہیں حکومت کی تشکیل کر لینی چاہیے۔‘‘ کایا کالاس کا مزید کہنا تھا، ''مجھے امید ہے کہ وہ یہ جلد از جلد کریں گے کیونکہ ہمیں واقعی یورپی سطح پر ایسے فیصلوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، جن میں جرمنی کی شرکت ضروری ہے۔
‘‘یورپ ٹرمپ کے ساتھ مل کر اچھی طرح کام کرتا رہے گا، چانسلر شولس
فرانکو۔ جرمن تعلقات کی دوبارہ سے مظبوطی کے آثار؟
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز سے منسلک ایک معروف پالیسی فیلو کیمل گرانڈ کے مطابق، ''فرانسیسی حکام جرمن چانسلری میں تبدیلی اور وہاں کے نئے مکین کے منتظر ہیں۔‘‘ انہوں نے پیر کو ایک بیان میں تحریر کیا، ''فرانکو۔
جرمن انجن چانسلر شُولس کے تحت بڑی حد تک غیر فعال تھا۔ غالباً جرمنی اور فرانس کے دو طرفہ تعلقات کا درجہ اب تک کے سب سے کم سطح پر تھا۔‘‘جرمنی کے حالیہ الیکشن اورانتہائی دائیں بازو کی الٹرنیٹیو فار جرمنی پارٹی اے ایف ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کیمل گرانڈ نے مزید کہا، ''ایسا لگتا ہے کہ جرمنی اقلیتی حکومت کے قیام کی ممکنہ خرابیوں سے بچ گیا ہے اور اے ایف ڈی کو بھی محدود کر دیا گیا ہے۔
‘‘امریکی انتخابی نتائج کے یورپی یونین کے لیے کیا معنی ہیں؟
سوشل ڈیمو کریٹ اولاف شولس کی سربراہی میں سبکدوش ہونے والی سہہ فریقی مخلوط حکومت کے دور میں جرمنی کے بارے میں یورپی ساتھی ممالک سمجھنے لگے تھے کہ برلن صرف اور صرف اندرونی سیاست میں الجھا ہوا ہے۔ یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے ایک دیگر پالیسی فیلو رافائیل لوس کے مطابق حالیہ الیکشن کے بعد برسلز میں برلن سے مزید فیصلہ کن قیادت کی امید کی جا رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو کو ای میل کے زریعے اپنے خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا،'' فریڈرش میرس زیادہ مضبوط اور مربوط اتحاد کی مدد سے چانسلر شپ کی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔‘‘جرمنی میں امریکی میزائل تعیناتی منصوبے سے جرمن شہری فکرمند
واشنگٹن کی طرف کچھ زیادہ سخت رویہ
دریں اثناء لتھوانیا کے وزیر خارجہ کیسٹوٹس بڈریس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ میرس کی طرف سے واشنگٹن سے مکمل آزادی کی بات کرنا قبل از وقت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے پیر کو برسلز میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی کے لیے یورپ میں امریکی موجودگی اور امریکی صلاحیتوں کا کوئی متبادل نہیں ہے، جس کی ہمارے پاس کمی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنی دفاعی ضروریات کے لیے اس سال پانچ فیصد بھی خرچ کرنا شروع کر دیں، تو ہم ان صلاحیتوں کو پانچ یا 10 سالوں میں بھی اس سطح تک نہیں پہنچا سکتے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''اگر نیٹو ٹوٹ جاتا ہے، اگر تمام حفاظتی ڈھانچہ گر جاتا ہے تو ہر کوئی خطرے سے دوچار ہوگا اور ہر کسی کے وجود کو خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جرمنی بھی بے نقاب ہو جائے گا۔‘‘(ایلا جوائنر) ک م/ ش ر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فریڈرش میرس انہوں نے جرمنی کے یورپ کے کے ساتھ میرس کے کے لیے کی طرف
پڑھیں:
پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں کون کونسے سربراہانِ مملکت شرکت کریں گے؟
کیتھولک مسیحی برادری کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس خورخے ماریو برگولیو کی آخری رسومات میں تقریباً 130 غیر ملکی وفود نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے جن میں 50 سربراہانِ مملکت اور 10 حکمراں بادشاہ شامل ہیں۔
درج ذیل سربراہان روم میں منعقدہ پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کریں گے۔
اقوامِ متحدہ: سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس
یورپی یونین: یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین اور یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا
امریکا: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ
ارجنٹینا: صدر ہاویئر میلی
برازیل: صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا اور ان کی اہلیہ جانجا
ہونڈوراس: صدر زیومارا کاسترو
آسٹریا: چانسلر کرسچن اسٹاک
بیلجیئم: شاہ فلپ، ملکہ میتھلڈ اور وزیرِ اعظم بارٹ ڈی ویور
بلغاریہ: وزیرِ اعظم روزین جیلیازکوف
کروشیا: صدر زوران میلانوویچ اور وزیرِ اعظم آندریج پلینکوویچ
جمہوریہ چیک: وزیرِ اعظم پیٹر فیالا
ڈنمارک: کوئن میری
ایسٹونیا: صدر الار کریس
فِن لینڈ: صدر الیگزینڈر اسٹب
فرانس: صدر ایمانوئل میکرون
جرمنی: صدر فرینک والٹر اسٹین میئر، سبکدوش ہونے والے چانسلر اولاف شولز
یونان: وزیرِ اعظم کیریاکوس میٹسوٹاکس
ہنگری: صدر تماس سلیوک اور وزیرِ اعظم وکٹر اوربان
آئر لینڈ: صدر مائیکل ہگنس اور ان کی اہلیہ سبینا کے علاوہ وزیرِ اعظم مائیکل مارٹن
کوسوو: صدر وجوسا عثمانی
لیٹویا: صدر ایڈگرس رنکیویچس
لتھوانیا: صدر گیتاناس نوسیدا
مالڈووا: صدر مایا سینڈو
موناکو: شہزادہ البرٹ دوم اور شہزادی شرلین
نیدر لینڈز: وزیر اعظم ڈک شوف، وزیرِ خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ
شمالی مقدونیہ: صدر گورڈانا سلجانوسکا ڈیوکووا
ناروے: شہزادہ ہاکون، شہزادی میٹ مارٹ اور وزیرِ خارجہ ایسپن بارتھ ایڈ
پولینڈ: صدر اندرزیج ڈوڈا اور ان کی اہلیہ
پرتگال: صدر مارسیلو ریبیلو ڈی سوزا اور وزیرِ اعظم لوئس مونٹی نیگرو
رومانیہ: عبوری صدر ایلی بولوجان
روس: وزیرِ ثقافت اولگا لیوبیمووا
سلوواکیہ: صدر پیٹر پیلیگرینی
سلووینیا: صدر نتاشا پیرک موسر اور وزیرِ اعظم رابرٹ گولوب
اسپین: شاہ فلپ ششم اور ملکہ لیٹیزیا
سوئیڈن: شاہ کارل گسٹاف اور ان کی اہلیہ ملکہ سلویا، وزیرِ اعظم الف کرسٹرسن
یوکرین: صدر ولودیمیر زیلنسکی اور ان کی اہلیہ اولینا زیلنسکا
برطانیہ: شاہ چارلس سوم، شہزادہ ولیم اور وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر
اسرائیل: ہولی سی کے سفیر یارون سائیڈ مین
کیپ وردے: صدر جوزے ماریا نیویس
وسطی افریقی جمہوریہ: صدر فاسٹن آرچینج تواڈیرا
بھارت: صدر دروپدی مرمو
فلپائن: صدر فرڈینینڈ مارکوس اور خاتونِ اوّل لیزا مارکوس
Post Views: 1