امریکہ اور یورپ میں بڑھتا عدم اعتماد
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یوکرینی صدر کو وائٹ ہاوس سے نکال باہر کر دیے جانے کے بعد تقریباً تمام یورپی ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے علاوہ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹاسک نے بھی زیلنسکی کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے: "عزیز یوکرینی دوستو آپ اکیلے نہیں ہو۔" سویڈن کے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا: "آپ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پورے یورپ کے لیے جنگ کر رہے ہو۔" اسی طرح جمہوریہ چیک، اسپین اور لتھوانیا نے بھی ملے جلے پیغامات یوکرین کو بھیجے ہیں۔ جارجیا میلونی، اٹلی میں دائیں بازو کی رہنما جو ٹرمپ کی قریبی اتحادی تصور کی جاتی ہے نے یورپی رہنماوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے اختلافات مزید شدید ہونے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ روم عنقریب امریکہ اور یورپی یونین کا مشترکہ اجلاس منعقد کرے گا تاکہ سفارتکاری اپنے درست راستے پر واپس آ جائے۔ تحریر: علی احمدی
جمعہ کے دن ڈونلڈ ٹرمپ اور جی ڈی وینس کی مدد سے امریکہ کی جنرل ڈپلومیسی کا بت صحافیوں کے سامنے ٹوٹ کر چکناچور ہو گیا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، جو امریکہ کی سربراہی میں مغربی طاقتوں کی مدد سے روس کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، نے جمعہ کے دن امریکہ کا دورہ کیا۔ ان کے دورے کا مقصد روس کے خلاف حمایت کے عوض امریکہ کو اپنے معدنیات کے ذخائر دینے پر مشتمل معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔ امریکہ کے 47 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے دروازے سے ہی یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی بے عزتی کرنا شروع کر دی۔ جیسے جیسے ملاقات آگے بڑھتی گئی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے نائب جی ڈی وینس کی طعنہ آمیز گفتگو میں شدت آتی گئی اور انہوں نے زیلنسکی پر جنگ بندی کی مخالفت کرنے کا الزام عائد کیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے بقول یوکرین کا سفارتی وفد سمجھتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زیلنسکی سے تلخ کلامی کے ذریعے امریکی ذرائع ابلاغ اور عوام کے سامنے اس کی بے عزتی کرنے کا منصوبہ پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔ ٹرمپ کے نائب جی ڈی وینس نے بھی زیلنسکی کے خلاف سخت باتیں کیں اور بعض مبصرین کی نظر میں ملاقات میں تناو پیدا ہونے کی اصل وجہ ہی امریکہ کا نائب صدر جی ڈی وینس تھا۔ اخبار فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015ء سے ہی میڈیا کے سامنے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی حکمت عملی وسیع پیمانے پر دھچکہ پہنچانا ہے اور کیمروں کے سامنے آزاد گفتگو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بین الاقوامی رہنماوں پر اپنا رعب جمانے کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کرتا ہے۔
دوسری طرف یورپی سربراہان اور رہنماوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حمایت کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یورپی رہنما اس وقت خود کو قیادت سے محروم تصور کر رہے ہیں۔ یورپ کے سب سے بڑے اسلحہ کے ذخائر رکھنے والا ملک فرانس ہے جس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہم سب نے تین سال پہلے یوکرین کی مدد اور روس پر پابندیاں عائد کر کے درست اقدام انجام دیا ہے اور ہمیں اس کام کو جاری رکھنا چاہیے۔" امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے یورپی اتحادیوں کے خلاف مسلسل بیان بازی اور اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے گویا امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہونے والا ہے جس میں اداروں کی حکمرانی، آزاد تجارت اور چند طرفہ پالیسیوں کی جگہ طاقتور افراد، نیشنلزم اور اقتصادی مرچنٹلزم لے لے گا اور یوں ہمیشگی اتحادوں کا تصور ختم ہو جائے گا۔
1956ء میں جب اس وقت کے امریکی صدر آئزنہاور نے برطانیہ اور فرانس کو سویز کینال پر کنٹرول واپس لینے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے روک دیا تھا تب سے ہی فرانس اور امریکہ میں بے اعتمادی کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اگرچہ آئزنہاور نے 1944ء میں جرمن نازیوں کے تسلط سے فرانس کو آزادی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن سویز کینال والے بحران میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کی کوشش کی۔ امریکہ کا یہ اقدام فرانس کی نظر میں غداری اور بے عزتی قرار پایا۔ تقریبا ستر برس بعد فرانس فوجی شعبے میں یورپ کا امریکہ پر انحصار کم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ کی فوجی مدد نے ہی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک براعظم یورپ کی سلامتی کو یقینی بنایا ہوا ہے۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ امریکہ کی شان و شوکت زندہ کر دے گا اور امریکہ اس کی پہلی ترجیح ہے۔ یہ نعرے پاپولسٹک، نیشنلسٹ اور اینٹی گلوبلائزیشن ہیں۔ یہ نعرے اس وقت سامنے آئے جب عالمی سطح پر امریکہ کی سربراہی میں لبرل عالمی نظام تشکیل پا رہا تھا۔ جب 2020ء میں ٹرمپ کو جو بائیڈن سے شکست ہوئی تو ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ امریکہ گذشتہ صورتحال میں واپس لوٹ گیا ہے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکہ سرد جنگ کے بعد والے موقف کی جانب واپس جا رہا تھا اور لبرل نظام مضبوط بنانے اور پاپولسٹک رجحانات کنٹرول کرنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ لیکن اب ٹرمپ کے دوبارہ صدر بن جانے کے بعد یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ٹرمپ نہیں بلکہ جو بائیڈن غلط راستے پر گامزن تھا۔ ٹرمپ اور اس کی ٹیم خود کو طاقتور افراد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔
یوکرینی صدر کو وائٹ ہاوس سے نکال باہر کر دیے جانے کے بعد تقریباً تمام یورپی ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ فرانس کے علاوہ پولینڈ کے وزیراعظم ڈونلڈ ٹاسک نے بھی زیلنسکی کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے: "عزیز یوکرینی دوستو آپ اکیلے نہیں ہو۔" سویڈن کے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا: "آپ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پورے یورپ کے لیے جنگ کر رہے ہو۔" اسی طرح جمہوریہ چیک، اسپین اور لتھوانیا نے بھی ملے جلے پیغامات یوکرین کو بھیجے ہیں۔ جارجیا میلونی، اٹلی میں دائیں بازو کی رہنما جو ٹرمپ کی قریبی اتحادی تصور کی جاتی ہے نے یورپی رہنماوں سے کہا ہے کہ وہ امریکہ سے اختلافات مزید شدید ہونے سے روکیں۔ انہوں نے کہا کہ روم عنقریب امریکہ اور یورپی یونین کا مشترکہ اجلاس منعقد کرے گا تاکہ سفارتکاری اپنے درست راستے پر واپس آ جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اپنے پیغام میں کہا امریکہ اور یورپ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیراعظم یوکرینی صدر امریکی صدر جی ڈی وینس امریکہ کی کے سامنے یورپ کے کے خلاف کی کوشش کہا ہے نے بھی کے بعد
پڑھیں:
جرمن چانسلر کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔
مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا، دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزی کہاکہ ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے، ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔