لاہور(نیوز ڈیسک)نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے منتخب ٹیم من وعن وہی ہے جس نے چیمپیئنز ٹرافی میں قومی پرچم سرنگوں کیا تھا بس ٹیم سے کراچی کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کی چیمپیئنز ٹرافی میں شرمناک کارکردگی کے بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ اس بدترین کارکردگی کے ہر ذمہ دار کو سخت سزا دی جائے گی اور جن لوگوں نے قوم کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی ہے ان کا حساب ہوگا۔

چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی جو اپنی تیز رفتاری اور جانفشانی کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے باحیثیت چیئرمین اپنی انتظامی ذمہ داریاں تو بخیر و خوبی انجام دی لیکن وہ پاکستان کرکٹ کے بدمست ہاتھیوں کو سنبھالنے میں ناکام رہے۔ یہ کھلاڑی جو ہر دور میں مختلف حیلے بہانوں سے ٹیم میں واپس آجاتے ہیں، ان کی سرپرستی سابق ٹیسٹ کرکٹرز کررہے ہیں جو پس پردہ پروموشن کمپنیز چلارہے ہیں۔ ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے تو چیف سیلیکٹر ہوتے ہوئے پروموشن کمپنی بنائی اور اس کے کاروبار کے لیے کھلاڑیوں پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس وقت کے پی سی بی چیئرمین نے انکوائری کمیٹی بنائی تھی لیکن اس کمیٹی کا آج تک کوئی اجلاس نہ ہوسکا اور نہ کسی کو معاہدہ کی شقیں توڑنے پر سزا مل سکی۔

اب وہی سابق ٹیسٹ کرکٹر اور ان کے پرانے پیٹی بند بھائی مل کر ایک بار پھر پاکستانی ٹیم میں اپنی پسند کے کھلاڑی منتخب کرارہے ہیں اور جس بے شرمی سے سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنوانے کے لیے تحریک چلائی جو ٹیم میں شامل بھی نہیں تھا وہ صرف ہمارے معاشرہ میں ہی ہوسکتا ہے۔

من و عن وہی ٹیم
چیمپیئنز ٹرافی کی شرمناک کارکردگی کے بعد قوم کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا ہے اور وہ کھلاڑی جن کی اس ایونٹ میں کارکردگی کا گراف افغانستان اور بنگلہ دیش کے کھلاڑیوں سے بھی بدتر تھا، وہ ایک بار پھر منتخب ہوگئے ہیں جبکہ جس کھلاڑی نے سب سے زیادہ رنز بنائے اسے دونوں فارمیٹ سے نکال دیا گیا ہے۔

سعود شکیل جو بھارت کے خلاف دبئی میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی تھے، انہیں اس کارکردگی پر یہ صلہ ملا کہ انہیں ٹیم سے ہی ڈراپ کردیا گیا۔ ستم بالائے ستم کہ لاہور میں جب چیف کوچ عاقب جاوید ٹیم کا اعلان کررہے تھے تو کسی لاہوری صحافی نے سوال تک نہیں کیا کہ سعود شکیل کیوں ڈراپ ہوئے۔

سفارشی کھلاڑی فہیم اشرف بغیر کسی کارکردگی کے دوبارہ منتخب ہوگئے لیکن عامر جمال کا کوئی ذکر نہیں۔ ٹیم کے بقیہ منتخب 15 کھلاڑیوں میں نیا اضافہ عرفان خان نیازی محمد علی اور وسیم جونیئر ہیں۔ عرفان خان کو جنوبی افریقہ کے دورے کے بعد ڈراپ کیا گیا تھا۔ اب انہوں نے نہ معلوم کون سا ہمالیہ سر کرلیا جو دو ماہ بعد انہیں ٹیم میں دوبارہ شامل کرلیا گیا ہے۔ محمد علی اور وسیم جونیئر نے بھی کوئی تیر نہیں مارا لیکن محمد حسنین بغیر کھیلے باہر ہوگئے یا شاید وہ پانی پلانے میں سستی کرگئے تھے۔

ویسے کارنامہ تو محمد رضوان کا بھی کوئی خاص نہیں لیکن وہ ہار ہار کر بھی کپتان برقرار ہیں۔ دو میچز میں 5 رنز بنانے والے سپرمین طیب طاہر تو ٹیم میں ہیں لیکن ان کی بدترین کارکردگی پر کوئی سوال یا جواب نہیں اور سوال ہو بھی کیوں جب بابر اعظم اور رضوان کی کارکردگی صفر ہے تو ان سے بھی پوچھنے والا کوئی نہیں۔

امام الحق جنہیں بڑے دعووں سے ٹیم میں واپس لایا گیا ہے کہ وہ ڈومیسٹک کے سپر ہیرو ہیں، ان کی ڈومیسٹک کی سنچریوں کا پول اس وقت کھل گیا کہ جب وہ بھارت کے تیسرے درجے کے فاسٹ باؤلر ہرشت رانا کی ایک گیند بھی ٹچ نہیں کرسکے تھے۔ نیوزی لینڈ کی پچز پر اگر کیویز کی پوری ٹیم کھیلی تو امام الحق کی جلد گھر واپسی ہوجائے گی۔

سب کو توقع تھی کہ بابر اعظم، محمد رضوان، نسیم شاہ کو آرام دیا جائے گا لیکن سب ہی اسی طرح ٹیم پر مسلط ہیں۔

ون ڈے سیریز کے لیے منتخب ٹیم من وعن وہی ہے جس نے چیمپیئنز ٹرافی میں قومی پرچم سرنگوں کیا تھا بس ٹیم سے کراچی کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔ اب اکیلے ابرار احمد 4 کروڑ آبادی والے شہر کی نمائندگی کریں گے اور باقی کراچی رمضان میں ٹیپ بال کھیلے گا۔

جس ڈھٹائی اور بے حسی سے شاداب خان کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، اس نے سب کو حیران کردیا۔ ایک ایسا کھلاڑی جو 8 ماہ سے ٹیم سے باہر ہے جس نے آخری میچ تیسرے درجہ کی ٹیم آئر لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں کھیلا ہو اور صفر رنز کا کارنامہ انجام دیا ہو، اسے براہ راست کپتان بنانے کا مشن ہو تو انسان صرف اس عقل پر ماتم کرسکتا ہے۔ موصوف نے آخری ڈومیسٹک میچ باحیثیت بلے بازکھیلا تھا اور ناکام رہے۔ اس پاکستانی گارفیلڈ سوبرز کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے ٹی وی پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز مہم چلارہے تھے۔ ایک سابق کپتان تو شاداب کے اتنے قصیدے پڑھ رہے تھے کہ اینکر کو روکنا پڑا۔ شاید شاداب کپتان بن جاتے لیکن چیئرمین صاحب نے منع کردیا اور نائب کپتانی پر اکتفا ہوا۔

اب منصوبے کے تحت ٹی ٹوئنٹی کپتان سلمان علی آغا پہلے ہی میچ میں زخمی ہوجائیں گے اور باقی 4 میچ مسٹر دوسرا کے داماد کپتانی کریں گے۔ دھوکا دینے کے لیے دو تین نوجوان کھلاڑی شامل کیے گئے ہیں لیکن انہیں کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ عمیر بن یوسف، عبدالصمد اور حسن نواز بس سفر کے مزے لیں گے کیونکہ بار بار ڈراپ ہونے والے محمد حارث اور عثمان خان ٹیم میں جو شامل ہیں جو اولیں انتخاب ہوں گے۔ لہٰذا نوجوان کھلاڑیوں کے لیے مواقع کم ہیں۔

حارث رؤف جن کی تیسرے اوور میں سانس پھول جاتی ہے، انہیں ون ڈے سے ٹی ٹوئنٹی میں سوئچ کرکے عاقب جاوید نے دوستی نبھادی ہے تاکہ طویل باؤلنگ کا بار ہی نہ ہو حالانکہ حارث رؤف کو اب بالکل فارغ کردینا چاہیے۔

اور پھر 32 سالہ عمر رسیدہ محمد علی کو عاکف جاوید پر ترجیح دینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہرحال جہانداد خان اور سفیان مقیم کا انتخاب ایک خوش آئند بات ہے۔ جہانداد اگر محنت کریں اور عاقب جاوید کے سائے سے بچیں تو وہ پاکستان کے مارکو جانسن بن سکتے ہیں۔

پریزیڈنٹ ٹرافی کے فائنل میں 3گیندوں پر4 وکٹیں گرنےکا منفرد واقعہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: چیمپیئنز ٹرافی میں کارکردگی کے ٹی ٹوئنٹی سابق ٹیسٹ ہے جس نے ٹیم میں کے خلاف ٹیم سے گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ

بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری قرار دیے جاتے ہیں مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ جمہوریت کی یہ نرسری ہمیشہ پاکستان میںغیر سول حکومتوں میں پروان چڑھی اور آمر کہلانے والے حکمرانوں نے ملک کو منتخب بلدیاتی نمایندے دیے اور جمہوری کہلانے والے سیاسی حکمرانوں نے آمروں کے دیے گئے بلدیاتی ادارے پروان چڑھانے کی بجائے انھیں ختم کیا اور اگر برقرار رکھا تو ان کا وجود نہ ہونے کے برابر اور اختیارات برائے نام تھے۔

غیر سول حکومتوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کیگئی مگر سیاسی حکومتوں نے سب سے پہلا وار منتخب بلدیاتی اداروں پر کیا اور انھیں توڑ کر ان کے منتخب عہدیداروں کو برطرف کر کے سرکاری افسروں کو بطور ایڈمنسٹریٹر ان پر مسلط کیا۔

قیام پاکستان کے بعد سیاسی حکومت میں 1956 میں ملک کے لیے ایک آئین ملا تھا مگر گورنر جنرلوں کے بعد غلام محمد اور اسکندر مرزا جو بیورو کریٹ اور مکمل اختیارات کے حامل تھے، انھوں نے سیاسی حکومتوں کو ہی چلنے نہیں دیا تو وہ ملک میں بلدیاتی اداروں کو کیوں فروغ دیتے حالانکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں سے زیادہ جمہوری ہمیشہ عوام کے منتخب ادارے ہوتے ہیں جن سے عوام کا سب سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔

اسمبلیوں کی طرح عوام کے ذریعے ہی بلدیاتی اداروں کے پہلے کونسلر منتخب ہوتے ہیں جو بعد میں اپنے اداروں کا اسی طرح انتخاب کرتے ہیں جس طرح ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم کا اور ارکان صوبائی اسمبلی وزرائے اعلیٰ کا کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں سب سے پہلے بی ڈی نظام دیا تھا جس کے تحت بی ڈی ممبر منتخب کیے جاتے تھے جو اپنی یوسی کی سربراہی کے لیے یوسی چیئرمین منتخب کرتے تھے جو اپنے شہر کی بلدیہ کے لیے وائس چیئرمین منتخب کرتے تھے جب کہ سرکاری طور پر چیئرمین کا تقررکیا جاتا تھا اور بلدیہ کونسل میں منتخب کونسلروں کے منتخب چیئرمین ممبر ہوتے تھے۔

ان کونسلوں میں چیئرمینوں کے اختیارات زیادہ ہوتے تھے اور ان بلدیاتی کونسلوں کے باقاعدہ اجلاس ہوتے تھے جن میں شہر کے مسائل کے حل اور تعمیری و ترقیاتی کاموں کی منظوری دی جاتی تھی۔ صدر جنرل ایوب خان نے ملک کے 80 ہزار یوسی چیئرمینوں کے ذریعے خود کو صدر منتخب کرایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح نے ان کا مقابلہ کیا تھا مگر برسر اقتدار صدر جنرل ایوب نے سرکاری وسائل کے ذریعے دھاندلی کرا کر محترمہ کو شکست دلائی تھی۔ ایوب خان ملک کے پہلے آمر تھے جنھوں نے ملک میں جمہوریت قائم نہیں ہونے دی تھی جن کے پوتے عمر ایوب موجودہ اپوزیشن لیڈر ہیں اور قومی اسمبلی میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو 1958 میں سیاسی جمہوری حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لا لگانے والے ان کے دادا کے حوالے سے ان پر کڑی تنقید ہوتی ہے۔

جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار سنبھالا تھا جن کے اقتدار میں ملک دولخت ہوا تھا۔ 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں باقی پاکستان کے بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے تھے جنھوں نے ملک کو 1973 کا جو متفقہ آئین دیا تھا۔ اس میں عوام کے منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام بھی ہونا تھا مگر بھٹو دور میں ملک میں کوئی بلدیاتی الیکشن نہیں ہوا تھا۔ 1977 میں ملک میں جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگانے کے بعد 1979 میں ملک کو نیا بلدیاتی نظام دیا تھا جس کے تحت ہر چار سال بعد باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوئے جن میں کونسلر ٹاؤن، شہر، ضلع کونسلوں کے لیے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کا انتخاب کرتے تھے جو ہر ماہ اپنے بلدیاتی اداروں کے اجلاس منعقد کرتے جن میں اہم فیصلے ہوتے جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوتے تھے اور بلدیاتی اداروں کے سربراہوں تک سے لوگ مل کر اپنے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کراتے تھے مگر جنرل ضیا کے بلدیاتی نظام میں کمشنروں، ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنروں کو ان بلدیاتی اداروں پر کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات حاصل ہوا کرتے تھے اور منظور شدہ بجٹ کی منظوری ان کے ذریعے اور توثیق محکمہ بلدیات کرتا تھا اور جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام بااختیار نہیں تھا۔

جنرل پرویز مشرف مسلم لیگ اور پی پی کے مخالف تھے انھوں نے نواز شریف کو ہٹا کر خود اقتدار سنبھالا تھا اور انھوں نے قومی تعمیر نو بیورو بنایا تھا جس کے تحت انھوں نے 2001 میں ملک کو ایک مکمل بااختیار نظام ضلعی حکومتوں کی شکل میں دیا تھا جس سے ملک بھر میں ضلعی حکومتیں قائم ہوئیں جن کے منتخب ناظمین کو مکمل مالی و انتظامی اختیارات دیے گئے تھے اور ملک سے کمشنری نظام ختم کر دیا گیا تھا اور ہر صوبے میں محکمہ بلدیات برائے نام رہ گیا تھا جس کی جنرل ضیا کے دور میں بلدیاتی اداروں پر مکمل گرفت ہوتی تھی۔

ضلعی حکومتوں میں صوبائی سیکریٹریوں، کمشنر و ڈپٹی کمشنروں کو بطور ڈی سی اور ہر ضلعی ناظم کا ماتحت کر دیا تھا اور بلدیاتی اداروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مداخلت ختم ہوئی جن کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ضلعی حکومتوں کو ملے اور ضلعی حکومتوں نے بہترین کارکردگی دکھائی جس کی واضح مثال کراچی کی سٹی حکومت تھی جس کے سٹی ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے کراچی کی کایا پلٹ دی تھی اور دیگر اضلاع میں بھی ضلعی حکومتوں نے بہترین ترقیاتی کام کرائے جس کی وجہ سے ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہوئی اور ناظمین کی اتنی اہمیت بڑھی تھی کہ متعدد ارکان اسمبلی نے اسمبلیاں چھوڑ کر ناظمین کا الیکشن لڑا تھا اور بیورو کریسی بھی ضلعی نظام کے خلاف تھی اور دونوں نے مل کر ضلعی حکومتی نظام ختم کرایا تھا۔

2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کی حکومتیں تھیں اور 2005 میں وزرائے اعلیٰ نے ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کی خوشنودی کے لیے ضلعی حکومتوں کے اختیارات کم کرانے پر جنرل پرویز کو راضی کیا تھا تاکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی اہمیت بڑھے کیونکہ ضلعی حکومتوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں قانون سازی تک محدود ہو گئی تھیں جو ان کا اصل کام تھا مگر اسمبلی ارکان و ارکان پارلیمنٹ بلدیاتی اداروں کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز سے محروم ہو گئے تھے جو ان کی کمائی، اثر و رسوخ اور کرپشن کا ذریعہ تھا۔ 2008 میں آنے والی سیاسی حکومتوں نے 2009 میں بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے جنرل ضیا کا 1979 کا بے اختیار بلدیاتی نظام بحال کر دیا تھا جو مزید بے اختیار ہو کر محکمہ بلدیات کے تحت محکوم ہو کر رہ گیا ہے اور پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان بلدیاتی اداروں پر حاوی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوج کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے آزاد جموں و کشمیر کے سینکڑوں افراد معذور
  • پہلگام واقعہ، واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب محدود کر دی گئی
  • ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘، پاکستان کے انڈیا کے خلاف اقدامات پر صارفین کے تبصرے
  • بھارت میں ایشیاکپ، ٹی20 ورلڈکپ اور چیمپئینز ٹرافی کا مستقبل کیا ہوگا؟
  • دورہ نیوزی لینڈ؛ تماشائیوں سے کیوں لڑے، خوشدل نے راز سے پردہ اٹھادیا
  • بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • پہلگام حملہ: آئی پی ایل میں آتش بازی نہیں ہوگی، کھلاڑی سیاہ پٹیاں باندھیں گے
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ