رام لیلا میں پریانکا کی جگہ دیپیکا کو لیا گیا، والدہ مدھو چوپڑا کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ممبئی(شوبز ڈیسک)بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا کی والدہ نے فلم رام لیلا میں بیٹی کی جگہ دیپیکا پڈوکون کو لیے جانے پر خاموشی توڑ دی۔
مدھو چوپڑا نے فلم رام لیلا کی ریلیز کے تقریباً 12 برس بعد پریانکا چوپڑا کو مرکزی کردار سے ہٹائے جانے پر بات کی ہے۔
رام لیلا 2013ء میں ریلیز ہوئی، جس میں مرکزی کردار رنویر سنگھ اور دیپیکا پڈوکون نے ادا کیا، فلم کو باکس آفس پر خوب سراہا گیا۔
فلم کی خاص بات پریانکا چوپڑا کا ڈانس نمبر تھا، جس نے فلم بینوں کو خاصہ متاثر کیا تھا لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ مرکزی کردار کےلیے فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے پہلے پریانکا چوپڑا کو آفر کی تھی۔
اپنے تازہ انٹرویو میں مدھو چوپڑا نے بتایا کہ سنجے لیلا بھنسالی نے رام لیلا میں ہیروئن کے مرکزی کردار کےلیے پہلے پریانکا چوپڑا کو پیشکش کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے بہت زیادہ باتیں تو یاد نہیں لیکن صرف اتنا جانتی ہوں کہ میں کلینک میں تھی کہ پریانکا چوپڑا، سنجے لیلا بھنسالی کے دفتر سے واپس آئی اور مجھے بتایا کہ فلم میں میرا صرف ایک گانا ہے، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو اس نے جواب میں کہا ’میرے خیال میں یہی بہتر ہے‘۔
مدھو چوپڑا نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے پریانکا نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہو، باہمی گفت و شنید سے دونوں فیصلے پر راضی ہوگئے ہوں کیونکہ وہ اب بھی بہت اچھے دوست ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سنجے نے پریانکا کو ’میری کوم‘ کے مرکزی کردار کی پیشکش کی، بیٹی اُسے کرنے میں ہچکچارہی تھی لیکن پھر اُس نے کہا میں میری کوم کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دیکھتی ہوں۔
مزیدپڑھیں:روہت شرما کی توہین کا الزام لگانے پر جاوید اختر شدید برہم
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پریانکا چوپڑا
پڑھیں:
کوئٹہ سنجیدی ڈیگاری کیس میں مقتولہ کی والدہ بھی گرفتار
کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سنجیدی ڈیگاری میں دہرے قتل کے کیس کی سماعت ہوئی، کیس میں مقتولہ کی والدہ کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
عدالت نے مقتولہ خاتون بانو کی والدہ گل جان بی بی کو 2 روز کے ریمانڈ پر سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کردیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ نے بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے سزا قرار دیا تھا اور مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مقتولہ بانو کی والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آ یا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو ایک لڑکے کے ساتھ تعلقات پر بلوچی معاشرتی جرگے کے فیصلے کے بعد سزا دی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ قاتلوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکا آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بناتا تھا جس سے انکے بیٹے مشتعل ہو جاتے تھے، بیٹی بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور اس کا سب سے بڑا بیٹا 16 سال کا ہے۔
بیان میں مقتولہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، یہ فیصلہ بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور جرگہ میں جو فیصلہ ہوا، وہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچی جرگے میں ہوا۔
انہوں نے اپیل کی کہ سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر قبر کشائی کی گئی تھی۔
پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، جن میں دفعہ 302 (قتل) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 اے ٹی اے سمیت دیگر سنگین دفعات شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اب تک 20 افراد زیر حراست ہیں، جن میں سے سردار سمیت 11 کی گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔