اخباری اطلاعات کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے حکومت مخالف اتحاد کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت چھوٹی و علاقائی جماعتوں سے رابطوں کے بعد حکومت مخالف اتحاد کو مزید وسیع کر کے عید کے بعد حکومت کے خلاف متحد ہو کر نئے انتخابات کے لیے تحریک شروع کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ ملک کی تاریخ میں نئے انتخابات کے لیے جو بھی سیاسی اتحاد قائم ہوئے تھے، ان کے نتیجے میں 1985 سے 2002 تک کوئی سیاسی اتحاد کوئی حکومت نہیں ہٹا سکا تھا جس کے دوران کوئی سیاسی اتحاد حکمران جماعت کو اپنی حکومت ختم کرکے نئے انتخابات پر مجبور نہیں کر سکا تھا۔ اس دوران بڑی تحریک 1977 کے انتخابات کو مسترد کیے جانے کے بعد بھٹو حکومت کے خلاف تھی جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام بڑی جماعتیں شامل تھیں۔
ملک میں بڑی خونریزی، اپوزیشن رہنماؤں کی بڑے پیمانے پرگرفتاریوں اور تحریک کو کچلنے میں ناکامی جس میں تین شہروں میں مارشل لا لگوا کر بھی اپوزیشن اتحاد نئے الیکشن نہیں کرا سکا تھا۔ یہ تحریک بھٹو حکومت کے متنازع انتخابات کے خلاف تھی جو صرف انتخابات کے چار ماہ بعد نئے انتخابات کرانے کے لیے تھی مگر 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم بھٹو کے 1979 میں پھانسی چڑھنے کے 6 سال بعد جنرل ضیا نے غیر جماعتی الیکشن کرائے تھے۔
جن کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا اور جنرل ضیا نے نئی مسلم لیگ بنوا کر محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا مگر ان کی حکومت کی جنرل ضیا سے بن نہیں سکی تھی اور 1988 میں جونیجو حکومت برطرف کردی گئی تھی جس کے بعد 2002 تک پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور کوئی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکی تھی اور صدر غلام اسحاق خان ، صدر فاروق لغاری کے دور میں اور جنرل پرویز کے 1999میں اقتدار سنبھالنے تک برطرف ہوئیں مگر اپوزیشن اتحاد کی کسی بھی تحریک کے نتیجے میں کسی حکومت نے خود نئے انتخابات نہیں کرائے تھے بلکہ پی پی اور (ن) لیگی وزرائے اعظم کی چاروں حکومتیں کرپشن اور بیڈ گورننس کے الزامات میں برطرف ہوئی تھیں۔ 1988 سے 1997 تک کی حکومتوں کے خلاف کوئی سیاسی اتحاد نہیں بنا تھا بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی اپوزیشن تھیں جن کے اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ دونوں نے کبھی ایک دوسرے کی حکومت کو برداشت نہیں کیا۔ ایک دوسرے کو ہٹانے میں مصروف رہیں۔
جنرل پرویز نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی مگر (ن) لیگ کی مخالف پیپلز پارٹی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیا تھا وہ دونوں کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دیتے تھے اور اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی دبئی میں رہ کر آخر تک عوام سے اپیل کرتے رہے کہ وہ ان آزمائی ہوئی پارٹیوں کو اقتدار میں نہ لائیں مگر عوام نے ان کی نہیں سنی اور 2008 اور 2013 کے انتخابات میں انھیں تیسری بار منتخب کیا اور خاص بات یہ تھی کہ پہلی بار دونوں حکومتوں نے اپنی مدت مکمل کی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم تبدیل ہوئے تھے اسمبلیاں برقرار رہی تھیں اور دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کی حکومت برداشت کی تھی۔ جنرل پرویز پہلے غیر سول صدر تھے جنھوں نے ملک میں پہلی بار 2002 میں منتخب ہونے والی اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی تھی جب کہ اس سے قبل کوئی حکومت ڈھائی سال تک ہی اقتدار میں رہی۔
2018 میں منتخب ہونے والی متنازع اسمبلیاں 5 سال قائم رہیں اور ملک میں پہلی بار پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا تھا۔
فروری 2024کے انتخابات کو آج کی اپوزیشن متنازع قرار دیتی ہے جس کے نتیجے میں قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ایک سال مکمل کر چکی ہیں جن کی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں بھی ہیں اور وفاقی حکومت ملکی معیشت میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئی ہے اور معاشی حالات بہتر ہونے لگے ہیں تو اپوزیشن کی طرف سے عید کے بعد نئے انتخابات کرانے کے لیے تحریک شروع کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن میں صرف دو بڑی جماعتیں نئے انتخابات چاہتی ہیں اور حکومت میں شامل تین بڑی جماعتیں نئے انتخابات کی حامی نہیں۔
ملک میں بڑی اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) ہے۔ مولانا فضل الرحمن اپنے کارکنوں کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی طاقت رکھتے ہیں اور پی ٹی آئی تنہا اپنے لوگوں کو سڑکوں پر لانے کے لیے ایک سال میں مکمل ناکام رہی ہے اور اپنے اندرونی انتشار کا شکار ہے اور اس کے بانی کو 26 ویں ترمیم کے باعث کسی دوسری سیاسی جماعت پر اعتماد نہیں وہ خود جیل میں ہیں اور جے یو آئی کی سیاسی طاقت اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور یہ دونوں اپوزیشن پارٹیاں کے پی میں ایک دوسرے کی سخت سیاسی حریف رہی ہیں جن کی کے پی میں صوبائی حکومتیں بھی رہی ہیں۔
کے پی میں دونوں پارٹیوں کے مختلف اضلاع میں بلدیاتی عہدیدار بھی ہیں اور وزیر اعلیٰ کے پی مولانا کے خلاف اور سیاسی حریف بھی ہیں اس طرح کے پی میں اپوزیشن میں اپوزیشن موجود ہے جب کہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی اس کی حلیف پارٹی ایسی نہیں جو عوام کو سڑکوں پر لا کر نئے انتخابات کا مطالبہ منوا سکے۔ نئے انتخابات کا مطالبہ تنہا پی ٹی آئی مولانا سے مل کر بھی نہیں منوا سکتی۔ پی ٹی آئی 2014 میں نئے الیکشن نہیں کرا سکی تھی اور موجودہ حالات میں نئے انتخابات اپوزیشن کے مطالبے پر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ کمزور اپوزیشن نئے الیکشن کرانے کی طاقت رکھتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نئے انتخابات انتخابات کے میں اپوزیشن پیپلز پارٹی سیاسی اتحاد ایک دوسرے پی ٹی آئی کے پی میں کی حکومت حکومت کے جنرل ضیا مسلم لیگ نہیں کر کے خلاف ہیں اور ملک میں کی تھی کے بعد
پڑھیں:
پنجاب بلدیاتی انتخابات: الیکشن کمیشن نے حد بندیوں کیلئے اڑھائی ماہ کی مہلت دے دی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ)پنجاب بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے حد بندیوں کے لیے ڈھائی ماہ کی مہلت دے دی۔الیکشن کمیشن میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ نے تصدیق کی کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کی درخواست پر حد بندیوں کے لیے ڈھائی ماہ کا وقت دینے کی منظوری دے دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پنجاب حکومت حدبندیاں مکمل کرکے الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گی، جس کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرے گا۔سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے مطابق، پنجاب حکومت نے حدبندیوں کے رولز کی تکمیل کے لیے مزید ڈھائی ماہ کا وقت مانگا ہے، اور کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔دوسری جانب، چیف سیکرٹری پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے لیے ہماری تیاری مکمل ہے، اپریل یا مئی تک تمام مراحل مکمل ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات بروقت ہوں گے اور کسی قسم کی تاخیر نہیں ہوگی۔قبل ازیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ایک اہم اجلاس ہوا، جس کی صدارت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے کی۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے معزز ممبران، سیکرٹری الیکشن کمیشن، جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔چیف الیکشن کمشنر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پنجاب حکومت اور الیکشن کمیشن، دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ صوبائی حکومت الیکشن کمیشن کو بروقت رولز، ڈیٹا، نوٹیفکیشنز اور نقشہ جات فراہم کرے تاکہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کے مطابق حلقہ بندیوں کا عمل شروع کر سکے۔چیف سیکرٹری پنجاب نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء کے تحت حلقہ بندی رولز کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ہدایت دی کہ ان رولز پر الیکشن کمیشن کی رائے جلد از جلد پنجاب حکومت کو پہنچائی جائے۔چیف سیکرٹری پنجاب نے مزید بتایا کہ لوکل گورنمنٹ کنڈکٹ آف الیکشن رولز کا ڈرافٹ 15 نومبر 2025 تک الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا تاکہ کمیشن اس پر اپنی تجاویز دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیمارکیشن نوٹیفکیشن اور ٹاؤن، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی اور تحصیل کونسل کی درجہ بندی کے نوٹیفکیشن 22 دسمبر 2025 تک الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیے جائیں گے۔چیف سیکرٹری کے مطابق یونین کونسلوں کی تعداد کے نوٹیفکیشن 31 دسمبر 2025 تک جبکہ تمام متعلقہ اداروں کے مصدقہ نقشہ جات 10 جنوری 2026 تک الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیے جائیں گے۔ ان دستاویزات کی تکمیل کے بعد الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کا عمل باضابطہ طور پر شروع کرے گا۔الیکشن کمیشن نے چیف سیکرٹری پنجاب پر زور دیا کہ تمام امور تجویز کردہ شیڈول کے مطابق ہر صورت مکمل کیے جائیں تاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہو۔واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے پنجاب بلدیاتی انتخابات نئے قانون کے تحت کروانے کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔