امریکا سے جوہری معاہدے پر مذاکرات کیلیے ٹرمپ کا خط نہیں ملا، ایران
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیشکش کے لیے ایک خط بھیجا ہے۔ تاہم، ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں تاحال یہ خط موصول نہیں ہوا ہے اور موجودہ صورتحال میں امریکا سے براہ راست مذاکرات ممکن نہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ٹرمپ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے جمعرات کو یہ خط بھیجا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ ایران مذاکرات پر آمادہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو فوجی کارروائی ایک متبادل ہو سکتی ہے لیکن وہ ترجیحاً سفارتی حل چاہتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ جب تک امریکا کی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی جاری ہے، ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مسئلے پر براہ راست مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایران سے جنگ نہیں مذاکرات کروں گا؛ وہ عظیم لوگ ہیں؛ ڈونلڈ ٹرمپ کا خامنہ ای کو خط
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران 2018 میں ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کی بحالی کے لیے جوبائیڈن انتظامیہ نے سرتوڑ کوششیں کی تھیں۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی اور پابندیوں کی موجودگی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"
عمان میں تہران و واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے موقع پر، ایک ایرانی اہلکار نے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے، یورینیم افزودگی پر مبنی ایرانی حق کیخلاف امریکی وزیر خارجہ کے ریمارکس کو "ناقابل قبول" قرار دیا ہے! اسلام ٹائمز۔ "صفر فیصد افزودگی ناقابل قبول ہے" یہ الفاظ روئٹرز کو انٹرویو دینے والے، ایرانی مذاکراتی ٹیم کے قریبی، اعلی ایرانی اہلکار ہیں۔ اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں روئٹرز نے لکھا ہے کہ ایرانی اعلی عہدیدار نے یہ ردعمل یورینیم افزودگی کے ایرانی پروگرام کے بارے جاری ہونے والے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے حالیہ بیان کے جواب میں دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز جاری ہونے والے اپنے بیان میں، ایرانی جوہری پروگرام کے بارے ٹرمپ انتظامیہ کے مبہم و متضاد موقف کو جاری رکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر ایران پرامن جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے تو وہ بھی خطے کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح اپنا جوہری پروگرام جاری رکھ سکتا ہے لیکن اس شرط پر کہ "وہ (افزودگی انجام نہ دے اور) افزودہ شدہ مواد درآمد کرے"!! واضح رہے کہ ایران مخالف امریکی تھنک ٹینک "یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران" (United Against Nuclear Iran) کے رکن جیسن براڈسکی (Jason Brodsky) سمی
ت بہت سے امریکی تجزیہ کاروں نے مارکو روبیو کے موقف کو "ایران میں مقامی طور پر یورینیم افزودگی پر امریکہ کی شدید مخالفت" سے تعبیر کیا ہے۔ ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ عمان میں جاری امریکہ - ایران بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت کے ساتھ ساتھ، ایرانی جوہری پروگرام پر ممکنہ معاہدے کے ضمن میں "یورینیم کی مقامی طور پر افزودگی" کے معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کے موقف میں متضاد تشریحات سامنے آ رہی ہیں!