روزے کے دوارن متحرک رہنے کیلیے پلیٹ میں کھانا کیسے ترتیب دیں؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
رمضان المبارک کا مہینہ روحانی عبادات کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بھی بے شمار فوائد رکھتا ہے،تاہم روزے کے دوران جسمانی سرگرمیوں کو برقرار رکھنے اور توانائی بحال رکھنے کے لیے متوازن غذا کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق رمضان میں صحت مند کھانے پینے کے طریقے اپنا کر نہ صرف روزے کے دوران توانائی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے بلکہ صحت کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین سحری اور افطاری کے دوران مناسب غذائی انتخاب اور کھانے کے طریقے کو روزے کی حالت میں پرسکون اور سرگرم رہنے کے لیے نہایت مؤثر قرار دیتے ہیں۔
افطار کا آغاز پانی اور کھجور سے کریں
ماہرغذائیات کے مطابق افطار کا آغاز تھوڑی مقدار میں پانی پی کر کرنا چاہیے، جس کے بعد کھجور کھائی جائے۔ کھجور قدرتی شکر کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو طویل روزے کے بعد جسم کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔ کھجور میں موجود ریشے (فائبر) صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں، تاہم کھجور کے ساتھ کچھ میوہ جات یا پروٹین سے بھرپور غذائیں بھی کھانی چاہییں تاکہ بلڈ شوگر میں تیزی سے اضافے کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔
ماہرین مانتے ہیں کہ افطار کے وقت صرف ایک یا دو کھجوریں کھانی چاہییں کیوں کہ زیادہ مقدار میں کھجور کھانے سے بلڈ شوگر لیول بڑھ سکتا ہے۔افطار کے بعد زیادہ مقدار میں کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کھانا آہستہ آہستہ اور اچھی طرح چبا کر کھانا چاہیے تاکہ ہاضمے پر بوجھ نہ پڑے اور جسم کو مناسب طریقے سے غذائیت مل سکے۔
کھانے کی پلیٹ کو تقسیم کریں
غذائی ماہرین کے مطابق کھانے کی پلیٹ کو 3حصوں میں تقسیم کرنے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے۔
پہلا حصہ (پلیٹ کا نصف): اس حصے میں نشاستہ دار سبزیاں یا سلاد شامل ہونی چاہییں۔ یہ غذائیں وٹامنز، منرلز اور فائبر سے بھرپور ہوتی ہیں، جو ہاضمے کو بہتر بناتی ہیں اور جسم کو ضروری غذائیت فراہم کرتی ہیں۔
دوسرا حصہ (پلیٹ کا ایک چوتھائی): اس حصے میں فائبر سے بھرپور پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس جیسے آلو، براؤن رائس یا جو شامل ہونے چاہییں۔ یہ غذائیں توانائی کو بتدریج خارج کرتی ہیں، جس سے دن بھر توانائی کا احساس برقرار رہتا ہے۔
تیسرا حصہ (پلیٹ کا ایک چوتھائی): اس حصے میں پروٹین والی غذائیں جیسے چکن، گائے کا گوشت، مچھلی یا دالیں شامل ہونی چاہییں۔ پروٹین جسم کی مرمت اور نشوونما کے لیے ضروری ہے اور یہ مسلز کو مضبوط بناتا ہے۔
افطار کے بعد کچھ پھل کھانا بھی فائدہ مند ہے کیوں کہ پھل وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں جو صحت کو بہتر بناتے ہیں۔
سحری میں پروٹین اور صحت بخش چکنائی
سحری کا کھانا روزے کے دوران توانائی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سحری میں پروٹین اور صحت بخش چکنائی والی غذائیں شامل کرنی چاہییں کیوں کہ یہ غذائیں دیر سے ہضم ہوتی ہیں اور بھوک کے احساس کو کم کرتی ہیں۔ انڈے، ایواکاڈو، دلیا، دہی اور گری دار میوے سحری کے لیے بہترین انتخاب ہیں۔ یہ غذائیں نہ صرف توانائی فراہم کرتی ہیں بلکہ دن بھر تھکاوٹ کو بھی کم کرتی ہیں۔
ہائیڈریشن کا خیال رکھیں
رمضان میں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے افطار اور سحری کے درمیان وافر مقدار میں پانی پینا ضروری ہے۔ سوپ، تازہ جوس اور پانی سے بھرپور پھل جیسے تربوز، خربوزہ، اور کھیرا کھانا بھی جسم کو ہائیڈریٹ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
مضر صحت غذاؤں سے پرہیز
رمضان میں میٹھے مشروبات، تلی ہوئی چیزیں اور زیادہ میٹھی غذاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ غذائیں نہ صرف وزن بڑھاتی ہیں بلکہ صحت پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سے بھرپور یہ غذائیں کے دوران کرتی ہیں روزے کے جسم کو کے لیے کے بعد
پڑھیں:
ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی موسمیاتی تباہی سے بچنے کی راہ اور ہر ملک کے لیے بہت بڑے معاشی موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکا نہیں جا سکے گا۔
بڑی معیشتوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ 17 ممالک کے رہنماؤں کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ماحول دوست توانائی کا شعبہ ترقی پا رہا ہے جس کے ذریعے نوکریاں تخلیق ہو رہی ہیں، مسابقت کو فروغ مل رہا ہے اور دنیا بھر میں ترقی ہو رہی ہے۔
قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور یہ توانائی کے شعبے میں خودمختاری اور تحفظ کے حصول کا یقینی ترین راستہ ہے جس پر چل کر معدنی ایندھن کی مہنگی درآمدات پر انحصار ختم کیا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URL
ان کا کہنا تھا کہ اگر معدنی ایندھن پر انحصار ختم کرنے سمیت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے موجودہ منصوبوں پر عمل کیا جائے تو رواں صدی میں عالمی حدت میں اضافے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد برازیل میں رواں سال ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل عالمگیر موسمیاتی اقدامات سے متعلق عزائم کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کا انعقاد سیکرٹری جنرل اور برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا کی مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پیرس معاہدے کے تحت عالمگیر موسمیاتی اقدامات میں بہتری لائی جانا اور تمام ممالک کی اپنے موسمیاتی منصوبوں کے اعلان کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
بند کمرے میں دو گھنٹے پر مشتمل اس کانفرنس میں چین، یورپی یونین، افریقن یونین، جنوبی ایشیائی ممالک کی انجمن اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بھی موجود تھی۔
نئے موسمیاتی عزائماس موقع پر سیکرٹری جنرل نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ہر شعبے سے ہر طرح کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے اور اس ضمن میں 2050 تک نیٹ زیرو کے ہدف کو حاصل کرنے سے متعلق اپنے قومی منصوبے بروقت جمع کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک نے جلد از جلد اپنے آئندہ موسمیاتی منصوبے جمع کرانے کے وعدے کیے ہیں جسے امید کا مضبوط پیغام سمجھا جا سکتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک نے اپنے ہاں آئندہ موسمیاتی اقدامات سے متعلق جو منصوبے بنائے ہیں وہ اس کی معیشت کے تمام شعبوں اور ہر طرح کی گرین ہاؤس گیس کا احاطہ کرتے ہیں۔
ایسے وعدوں کی بدولت آئندہ دہائی میں موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل کی تیاری اور معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی کی رفتار بڑھانے میں مدد ملے گی۔
انصاف اور مالی وسائل کی فراہمیسیکرٹری جنرل نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید مدد فراہم کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا کردار بہت کم ہے جبکہ یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
افریقہ اور ترقی پذیر دنیا کے دیگر حصے تیزی سے گرم ہو رہے ہیں اور الکاہل کے جزائر کو سمندری سطح میں غیرمعمولی رفتار سے اضافے کا سامنا ہے۔انہوں نے امیر ممالک سے کہا کہ وہ 2035 تک ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر کی فراہمی کے لیے قابل بھروسہ لائحہ عمل پیش کریں، رواں سال موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے انہیں 40 ارب ڈالر فراہم کریں اور موسمیاتی نقصان و تباہی کے فنڈ میں مزید حصہ ڈالیں۔
سیکرٹری جنرل نے کاپ 30 سے چند ہفتے پہلے ستمبر میں اقوام متحدہ کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا جس میں موسمیاتی مںصوبوں اور اس مقصد کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔